گلگت بلتستان قانون ساز
اسمبلی کی مدت ختم ہونے کو صرف ایک ماہ رہ گیا ہے آئندہ کا منظر نامہ تاحال
واضح نہیں ہوسکا نگران حکومت اور سیٹ اپ کیلئے قائد حزب اقتدار اور قائد
حزب اختلاف کی مشاورت جاری ہے لیکن اب تک وہ کسی ایک نقطہ پر متفق نہیں
ہوپائے ہیں جبکہ دوسری جانب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے واضح انٹر پارٹی
اختلافات سے مسئلہ گھمبیر ہوتا جارہا ہے موجودہ صورتحال میں وفاق کی دونوں
بڑی پارٹیوں کے انٹر پارٹی انتخابات نہیں ہوئے ہیں ایک طرف مسلم لیگ ن میں
حفیظ الرحمان عرصہ دراز سے چیف آرگنائزر کے عہدے پر فائز ہیں جس کی معیاد
مدت ایک قلیل عرصہ یعنی پارٹی کے انتخابات تک ہوتا ہے جس کے باعث مسلم لیگ
ن عمومی طور پر جبکہ گورنر اور نگران سیٹ کے حوالے سے خصوصی طور پر
اختلافات کا شکار ہیں باوثوق زرائع کے مطابق اس عہدہ کو ختم کرانے کیلئے
چلاس اور غذر کے رہنماء ایک مہینے سے سرجوڑ کر بیٹھے ہیں اور خفیہ ملاقاتوں
کا سلسلہ جاری ہے جبکہ دوسری جانب پیپلز پارٹی میں بھی آوے کا آوا بگڑا ہوا
ہے پارٹی اختلافات کے باعث وزیر اعلیٰ و صوبائی صدر مہدی شاہ نے تمام زیلی
اوار ضلعی تنظیموں کو فارغ کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا لیکن جب کراچی
میں مرکزی جلسہ(سانحہ کارساز ) میں شرکت کے حوالے سے اختلافات پر گو مہدی
شاہ گو تحریک کا آغاز ہوا جس پر مذکورہ برطرف شدہ زیلی اور ضلعی تنظیموں کے
عہدیداروں نے وزیر اعلیٰ سے وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے دیامر کی کئی باڈیوں
کو توڑدیا جبکہ گزشتہ روز استور میں پیپلز پارٹی کے ایک ہی روز دو اجلاسوں
نے مزید انتشار پھیلادیا ایک اجلاس ضلعی جنرل سیکرٹری کی صدارت میں ضلعی
صدر پر عدم اعتماد کیلئے کیا گیا جبکہ دوسرا اجلاس ضلعی صدر کی صدارت میں
ہوا جس میں جنرل سیکرٹری کو عہدہ سے فارغ کرنے کا فیصلہ ہوا ضلع استور
پیپلز پارٹی آمنے سامنے کھڑی ہوگئی اور ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد
کئے اوار پارٹی غدار ثابت کیا دونوں بڑی پارٹیوں کے انٹر پارٹی اختلافات
ختم نہ ہونے تک آئندہ یعنی 12دسمبر کے بعد کا منظر نامہ ممکن نہیں قابل زکر
بات یہ ہے کہ 2013کے عام انتخابات میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے کئی سیاسی
پارٹیوں کو انٹر پارٹی انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے الیکشن میں حصہ لینے سے
روک دیا تھا جس میں تحریک انصاف بھی شامل تھی جس نے فوری طور پر جیسے کے
تیسے انٹر پارٹی الیکشن کرائے اگر مندرجہ بالا مسئلہ یعنی مسلم لیگ ن اور
پیپلز پارٹی کے انٹر پارٹی انتخابات مکمل نہ ہوئے تو اس صورت میں انتخابات
کا انعقاد مشکل ہے دونوں بڑی پارٹیاں اگر قبل از وقت اپنے انٹر پارٹی
انتخابات کرائے اور اختلافات کو ختم کرے تو یہ آئندہ انتخابات کیلئے پہلی
سیڑھی ثابت ہوگی نہ ہونے کی صورت میں انتخابات تو ہوجائیں گے لیکن مسلم لیگ
ن اور پیپلز پارٹی کا الیکشن میں حصہ لینا مشکل ہوگا- |