باتیں اُن کی، یاد رہیں گی
(M Rashid Daskvi , Karachi)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ماضی قریب کے بند دریچوں میں جھانک کر دیکھیں تو وہاں اپنے اکابر اساتذۂ
کرام کی سرپرستی، اُن کی راہنمائی، اُنگلی پکڑ کے چلانا، ہر مرحلے میں
تربیت کرنا، قدم قدم پر سمجھانانظر آتا ہے تو پیشانی اﷲ تعالیٰ کے سامنے
تشکر بھرے جذبات کے ساتھ جھک جاتی ہے، الحمد ﷲ علیٰ ذٰلک، وجزاھم اﷲ خیرا
وأحسن الجزاء۔قابلِ صد احترام مُشفِق اساتذۂ کرام کے سامنے زانوئے تلمذ نہ
کرتے تو معلوم نہیں ہماری زندگی جانوروں کی طرح ہوتی یا اُن سے بھی بدتر
ہوتی؟!
۹/محرم الحرام /۱۴۳۶ھ کی رات آٹھ بجے مدرسہ عربیہ رائے ونڈ کے طلبہ کی طرف
سے صدمے سے لبریز یہ خبر آئی کی اُستاذ ِمحترم مولانا جمشید علی خان صاحب
رحمہ اﷲ اِس بے وفا دنیا کو داغِ مفارقت دیتے ہوئے سفرِ آخرت شروع کر چکے
ہیں؛
’’إنّا للّٰہ وإنّا إلیہ راجعون‘‘ ………… ’’إنّ لِلّٰہ ما أخذ، ولِلّٰہ ما
أعْطیٰ، وکلُّ شَییٍٔ عندَہ بأجَلٍ مُسمّیٰ‘‘․
بَس پھر کیا تھا ، یک لخت اُستاذ ِمحترم رحمہ اﷲ کی صحبت ، معیت اور شاگردی
میں بیتے لمحات آنکھوں کے سامنے سے گزرتے چلے گئے، کچھ عرصے سے جاری اُستاذ
ِمحترم رحمہ اﷲ کے بیماری کے پُرمشقت ایام بھی یاد آئے تو فورا دل سے آواز
آئی کہ اﷲ تعالیٰ نے اُستاذِ محترم کو دنیا کی تکلیف دِہ گھاٹیوں سے نجات
دے کر اپنے مہمان خانے میں سکون اور آرام دینے کے لیے بُلا لیا ہے، ساتھ ہی
دل ودِماغ اﷲ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے کہ اے اﷲ! جس طرح تیرے اس بندے نے
تجھے راضی کرنے کی محنت میں زندگی گزار دی، انہی کے نقشِ قدم پر چلنے کی
مجھے بھی توفیق عطا فرما، اے اﷲ! تو نے اُنہیں جن خصائل ِ حمیدہ سے نوزا
تھا، اُن کا کچھ زرّہ مجھے بھی نصیب فرما، اور انہیں اپنی شایانِ شان اجرِ
جزیل عطا فرما، آمین ثم آمین
اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ اتباع سنت، تقویٰ، تواضع ، ﷲیت اور امتِ محمدیہ ﷺ کے
جس درد اور فکر وکڑھن کو اپنے سینے میں لیے ہوئے تھے، وہ کسی سے مخفی نہیں
، اِس مضمون میں اُن کے مناقب پر روشنی ڈالنا ہی مقصودِ اصلی نہیں ہے
(اگرچہ! ضمناً یہی کچھ سامنے آئے گا) بلکہ اس تحریر سے مقصود اپنی نسبت اُس
عظیم ہستی کے ساتھ جوڑنا ہے کہ مجھے بھی اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ کے سامنے
کچھ لمحات بیٹھنے کا شرف حاصل ہے، یقینا یہ مجھ جیسوں کے لیے قابلِ افتخار،
باعثِ مسرت اور ذخیرۂ آخرت ہے، نیز! اپنے ہم سفر طلبہ ساتھیوں کے ذہنوں میں
اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ سے متعلق وابستہ یادوں کو تروتازہ کرنا ہے۔
مجھ سمیت دیگر طلبہ کا ایک جم غفیر مدرسہ عربیہ رائے ونڈ کی قدیم عمارت (جس
کے خدوخال یاحدود واربعہ کو بھی سمجھنا یا سمجھانا چاہیں توشاید ممکن نہ
ہو) کے دارِ خامس میں بیٹھے ہوئے انتظار کے پُر مشقت لمحات سے گزر رہا تھا،
کہ ہمیں بتلایا گیا تھا، کہ ابھی کچھ دیر بعد مدرسہ کے قواعد وضوابط اور
پابندیاں پڑھ کے سنائی جائیں گی، جس میں تمام طلبہ اور اُن کے سرپرستوں کی
شرکت لازمی ہے۔خیر! کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اُستاذِ محترم شیخ الحدیث حضرت
مولانا جمشید علی خان صاحب رحمہ اﷲ تشریف لائے، اور جلوہ افروز ہوئے،
اُستاذِ محترم کی بارعب شخصیت اور جاہ و جلال کا اثر تھا کہ پورے ہال میں
ایسا سکوت اور فضا میں طمانینت تھی کہ سانس تک کی آواز اس پُر سکون ماحول
میں طلاطم پیدا کر رہی تھی، اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ نے کچھ دیر گفتگو
فرمائی: جو لوحِ دل ودِماغ پر کچھ اِس طرح سے نقش ہو گئی کہ آج بھی اُن
ہدایات کے نقوش پوری طرح تروتازہ ہیں، خلاصۃً کچھ باتیں یہ تھیں: بھائیو!
تم سب اپنی اپنی اولادوں کو، اپنے عزیزوں کو دینی تعلیم کے حصول کی نیت سے
داخل کروانے آئے ہو، تو اچھی طرح یہ بات سُن لو، اور اپنے اپنے دِلوں دِماغ
میں بٹھا لو اور جا کر اپنے گھر والوں کو سمجھا دو، کہ آج کے بعد ہمارا یہ
بیٹا دنیاوی اعتبار سے ہمارے کسی کام کا نہیں ، ہم نے اسے دین کے لیے فارغ
کر دیا ہے‘‘۔پھر پوچھا ! ’’جی عزم کر لیا؟ اچھا یہ بتاؤ! کہ جب کالے بالوں
والی آئے گی ، اور دنیا کمانے کو کہے گی، تو پھر کیا کرو گے؟ ‘‘فرمایا:
بھائیو! ’’اس لیے دین کی بنیاد پر رشتہ تلاش کرنا ہے، اور اُسے پہلے سے ہی
سمجھا دینا ہے کہ ہمارا بیٹا تو ہمیشہ کے لیے دین کے لیے وقف ہو چکا ہے‘‘۔
ہم سانس روکے اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ کی اپنے مخصوص لب ولہجے میں دی جانے
والی ہدایات سنتے رہے، اور مدرسہ عربیہ رائے ونڈ میں تعلیمی سفر کے آغاز پر
اپنی نیت اور ارادوں کی تصحیح وعزم کرتے رہے، اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ کا
بیان کرنے کا مخصوص انداز، بات کے مطابق آواز کا اُتار چڑھاؤ، محاوروں اور
قافیہ بندی کا بر موقع استعمال، ایک ایک لفظ کو ٹھہر ٹھہر کے نہایت ہی
شیریں اور میٹھے لہجے میں واقعہ کی ایسی آسان تفسیر وتشریح کرنا کہ سننے
والے کے دل ودِماغ میں اترتا چلا جاتا تھا، عوام الناس میں بیان ہو رہا ہو
یا خواص میں ، ہر جگہ اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ کا یہی پُر کشش اُسلوب ہوتا
تھا، ذیل میں اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ کے ایک بیان کا کچھ ٹکڑا بلفظہٖ نقل
کیا جاتا ہے، جس سے بخوبی اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ کا مخصوص انداز سمجھا جا
سکتا ہے، ملاحظہ ہو:
’’اس امت کو اس بنیاد پر ڈال کر (جو آگے آ رہی ہے )اﷲ تعالیٰ نے صحابہ کو
توفیق دی (ملک )چلانے کی، حالات کچھ بھی ہوں، گھریلو، بیرونی، ملکی، قومی،
علاقائی، طبقاتی؛ ہمیں حالات سے کوئی سروکار نہیں، ہمارا تو کام؛ ایک ہے
کہ’’ اﷲ تعالیٰ کا حکم کیا ہے، اور رسول اﷲ ﷺ کا سنت طریقہ کیا ہے،‘‘
کیونکہ حالات جو ہیں، یہ تو مخلوق ہیں، نہ تو اِن کا کچھ بگڑے اور نہ
سُدھرے، نہ ہم بگاڑ کو دیکھیں گے، نہ سُدھار کو، ہم نے تو حکم کو دیکھنا
ہے۔
یہی بنیاد اﷲ رب العزت نے موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے سے دی، طُور پر
بُلایا، فرمایا: ﴿وما تلک بیمینک یٰموسیٰ؟﴾موسیٰ ! تمہارے دائیں ہاتھ میں
کیا ہے؟، تو اِس لیے نہیں پوچھ رہے کہ اﷲ میاں کو معلوم نہیں، اُس کو تو
معلوم ہے، تاکہ! موسیٰ علیہ السلام کی زَبان سے وہ بات نکلے جو اُن کے
تجربے کی ہے، اور اُن کے مشاہدے کی ہے، اور قیامت تک آنے والی نسلیں اِس
کوسُنیں؛ چنانچہ! موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ﴿ھي عصاي، أتوَکَّؤُ علیھا،
وأھُشُّ بھا علیٰ غنمي وليَ فیھا ماٰرِبُ أُخریٰ﴾یہ تو میری لاٹھی ہے، لکڑی
ہے، بے جان ہے، پتے جھاڑتا ہوں بکریوں کے لیے، اور ٹیک لگاتا ہوں، سہارا
لگاتا ہوں، بہت سے کام اِس سے نکلتے ہیں۔ تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:(یہ وہ
)فائدے (ہیں، جو )تم نے گنوائے، اب یہ عصا تم پھینک دو، موسیٰ علیہ الصلاۃ
والسلام؛ باوجودیکہ اُن کو سخت ضرورت تھی، رات کو لاٹھی کی، حکم ہے﴿ألقھا
یٰموسیٰ﴾ کہ عصا پھینک دو، پھینک دی، ﴿فإذا ھي حیۃ تسعیٰ﴾ ایک دَم ، اَچانک
سانپ بن کر لہرنے لگا، اب موسیٰ علیہ السلام کی سوچ میں نا گمان میں، رات
کا وقت ہے، پہاڑ پر کھڑے ہیں اور یہ سانپ جا رہا ہے، تو موسیٰ علیہ السلام
ڈرے، اور پیٹھ موڑ کر بھاگے، کہ اِس نے تو ذرا سا بھی منہ لگا دیا تو یہاں
مَرا پڑا رہوں گا، اور وہاں بی بی انتظار کرتی رہے گی، ﴿ولّٰی مُدبراً﴾پیٹھ
موڑ کر بھاگے، اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: کہاں جا رہے ؟ ﴿لا تخف﴾ ڈرو نہیں، ﴿
أقبِل﴾اس کے سامنے آؤ، ﴿خذھا﴾ اسے پکڑو، ’’لا إلٰہ إلا اﷲ‘‘ حکم ہے کہ سانپ
کے سامنے سے آ کر پکڑو، اب اگر مشاہدے کو دیکھیں، تجربے کو دیکھیں، تو
معذرت کریں، کہ یا اﷲ! بیوی میری اکیلی ہے، یہ سانپ ہے، ڈَس لے گا، مَر
جاؤں گا، یہ تو تھا مشاہدہ، اور تجربہ؛ اور حکم کیا ہے؟! کہ ﴿أقبِل،
وخُذ﴾سامنے سے آ، پکڑ، تو موسیٰ علیہ السلام سارے مشاہدات اور تجربات ٹھکرا
کر حکم ادا کرنے کے لیے سامنے سے آئے، اور وہ لہر کر ، یہ سامنے سے جا رہا
تھا ،سانپ؛اور موسیٰ علیہ السلام نے اﷲ کا حکم ادا کرنے کے لیے ہاتھ
بڑھایا، اُنگلیوں کے پَورے سانپ کو لگتے ہی، لاٹھی کی لاٹھی، تو اﷲ تعالیٰ
نے موسیٰ علیہ السلام کو حالات سے غیر متأثر ہو کر حکم پورا کرنے کی بنیاد
پر عملاً ڈال دیا، اﷲ تعالیٰ مجھے، آپ کو، قیامت تک آنے والی نسلوں کو اپنے
اَحکام ، پیغمبر علیہ السلام کی سنت اور طریقے پر چلنے کی توفیق عطا
فرمائے، اور حالات سے غیر متأثر ہو کر چلنے کی توفیق عطا فرمائے،
……………………………………
تو یہ بنیاد ہمارے لیے، قیامت تک کے لیے قائم ہو گئی، کہ ہم حالات کے غلام
نہیں، ہم حالات کے تابع نہیں، ہم تو اَحکام کے غلام ہیں، اَحکام کے تابع
ہیں،ہر آن، ہر گھڑی، ہر حال میں اﷲ تعالیٰ کی منشاء، اﷲ تعالیٰ کی مرضی اور
اﷲ تعالیٰ کا حکم؛ یہ ہے ہمارا اصل سرمایہ، کہ اﷲ تعالیٰ کیا فرمارہے؟! اﷲ
تعالیٰ کی منشاء کیا ہے؟! اﷲ تعالیٰ کی مرضی کیا ہے؟! اﷲ تعالیٰ کیا چاہتے
ہیں، ہمیں تو اﷲ کی چاہت پر جان دینی ہے، اﷲ تعالیٰ کی منشاء پر مرنا ہے،
اور سب کچھ قربان کرنا ہے، اور سارے حالات سے قطع نظر کرنی ہے، اﷲ تعالیٰ
کی مرضی اور منشاء پہچاننے میں خود لگنا ہے، اور اس کی دعوت دے کر دوسروں
کو لگانا ہے، اور اﷲ تعالیٰ اس کی محنت قیامت تک چلا دے، اس پر آنا ہے،
اُمت کو اس پر لانا ہے، اس پر جان کھپانی ہے، یہی ہمارا موضوع اور مقصد ہے،
ملک مقصد نہیں، مال مقصد نہیں، حالات مقصد نہیں، ہمارا جو مقصد ہے، یعنی:
اس کام کا جو مقصد ہے؛ دعوت کا، وہ اﷲ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے، اور اﷲ
تعالیٰ کی مرضی اور منشاء کو پہچاننا ہے، اور اس پر مرنا کھپنا، اور جان
دینا حالات بگڑیں اور سدھریں؛ اِس کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے، آسمان بدل
جائے زمین، سورج بدل جائے چاند، ہمیں دیکھنے ہیں اَحکام ِ خداوندی۔‘‘
بیان کا نمونہ آپ حضرات نے ملاحظہ فرما لیا، آپ کو پورا بیان اتنا پُر کشش
اور اپنے اندر جاذبیت رکھتا تھا کہ مجمع کا ہر فرد ہمہ تن متوجہ رہتا تھا،
بالخصوص عرب حضرات تو آپ کے بیان کو بہت زیادہ پسندکرتے تھے، اور خوب
دلچسپی سے سنتے تھے، اس لیے اُردو بیانات کی طرح عربی بیانات میں بھی
اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ قافیہ بندی کا خوب استعمال کرتے تھے اور اپنے مخصوص
لب ولہجے میں ہی وہاں بھی بیان فرماتے تھے، تو عرب حضرات اُستاذِ محترم
رحمہ اﷲ کے اس انداز سے بھی خوب محفوظ ہوتے تھے۔
ابھی چند دن قبل رائے ونڈ کے تبلیغی اجتماع کے پہلے مرحلے میں حضرت مولانا
طارق جمیل صاحب نے اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ کا ایک شعر سناتے ہوئے فرمایا:
’’مولانا جمشید صاحب کی قبر کو اﷲ نور سے روشن کرے، سینکڑوں دفعہ سبق کے
دوران اُن سے یہ شعر سنا:وہ تو بڑی لَے میں گا کے (یعنی: وَجد میں آ کر
)سناتے تھے، میں تو سادھا (انداز میں )ہی سناتا ہوں،
دُھن دُھنیے اپنی دُھن
پرائی دُھنی کا پاپ نہ بُن
تیری روئی میں چار بِنولے
سب سے پہلے اُن کو چُن
پُرانی اُردو ہے، مگر مطلب اس کا یہ ہے کہ اپنے عیب دیکھ اوروں کے عیب نہ
دیکھ، اپنی کمیاں دیکھ اوروں کی کمیاں نہ دیکھ، اوروں کی کمیاں دیکھتے
دیکھتے دیکھتے ہمارے دل نفرتوں سے بھر چکے ہیں۔‘‘
زندگی کے ابتدائی ایام حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی صاحب ؒ
کے گھر بلوغت سے قبل خدمت کے لیے جایا کرتے تھے، اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ خود
فرماتے تھے کہ میں بچپن میں سکول سے واپسی پر حکیم الامت رحمہ اﷲ کے ہاں
چلا جایا کرتا تھا، حضرت تھانوی صاحب کی بڑی اہلیہ کو بڑی اماں اور چھوٹی
اہلیہ کو چھوٹی اماں کہا کرتا تھا، جب بلوغت کے قریب ہوئے تو حضرت تھانوی
صاحب ؒ کی بڑی اہلیہ نے کہا کہ ’’جمشید ! اب تو بڑا ہو گیا ہے، دستک دے کر
آیا کر ، اور اپنے گھر میں بھی پردہ کیا کر‘‘۔ اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ
فرماتے ہیں کہ میں نے اُس دن سے ہی اپنے گھر میں اپنے بھابھیوں سے بھی پردہ
شروع کر دیا، بھابھیوں سے پردہ کرنے میں ابتداء بہت دُشواری ہوئی، بھابھیاں
اور والدہ ناراض ہوئیں، لیکن حضرت اپنے فیصلے پر جمے رہے، یہاں تک کہ گھر
میں حضرت کی وجہ سے پردہ شروع ہو گیا۔
اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ کی تواضع، ملنساری، مہمانوں کے ساتھ گھل مل جانا اور
اﷲ کے راستے میں نکلنے والوں مہمانوں کی خدمت، رات کے وقت چھپ کر بیت
الخلاء صاف کرنا ایسی مشہور ومعروف خصلتیں ہیں، جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں،
اصلاح باطن، وتذکیۂ نفس کے لیے حضرت مولانا مسیح اﷲ خان صاحب رحمہ اﷲ کا
دامن تھاما، اور اس لائن میں ترقی کی منازل طے کرتے چلے گئے، آپ کا ذکر ُاﷲ
کے ساتھ شَغَف اس قدر تھا کہ آپ کی ہر سانس کے ساتھ ’’إلا اﷲ ‘‘ کی صدا
جاری ہوتی تھی، گویا اﷲ کا نام ہر ہر سانس میں رچ بَس گیا تھا۔
ملاقات کے لیے آنے والوں کے ساتھ پوری خندہ پیشانی ، کشادہ روئی اور بشاشت
کے ساتھ ملتے اور مرحباً، مرحباً، أھلاً وسھلاً کی صدا بلند فرماتے تھے،
اور اِس طریقے سے آنے والے کا ستقبال کرتے تھے کہ آنے والے کا دِل خوشیوں
سے لبریز ہو جاتا تھا، پاس موجود جو بھی چیز کھانے پینے کی ہوتی تھی، بطورِ
اِکرام مہمان کو پیش کر دیتے، بارہا! یہ دیکھا گیا کہ کسی مہمان نے کوئی
ہدیہ پیش کیا، (قبول ِ ہدیہ میں بھی مولانا بہت احتیاط کرتے تھے، اس کا
تذکرہ آگے کیا جائے گا)اس کے بعد کوئی اور مہمان آیا تو حضرت نے وہ ہدیہ
ملی ہوئی چیز اُس آنے والے مہمان کو دے دی، اسی طرح مدرسہ عربیہ رائے ونڈ
میں امتحانات کے موقع پر تشریف لانے والے ممتحنین حضرات کا خوب اکرام
فرماتے اور اُنہیں ہَدایا سے نوازتے تھے، اِس کے علاوہ اَسفار میں اپنے
خُدام کے کھانے پینے اور راحت وآرام کا خیال رکھنا بھی مولانا کا وصفِ خاص
تھا۔
ہَدایا کے بارے میں اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ بہت زیادہ محتاط رہتے تھے، خُدام
کو سختی سے تاکید تھی کہ اگر کوئی ہدیہ بھیجے تو لانے والے سے پوری تحقیق
کریں، کہ کس نے بھیجا، کس کے لیے بھیجا، بھیجنے والا کیا کام کرتا ہے وغیرہ
وغیرہ ، اور اگر کوئی خود لے کر آتا تو بڑے احسن انداز میں باتوں ہی باتوں
میں تحقیق کر لیتے تھے، ایک بار اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ کا ایک نابالغ شاگرد
جو بیرون ملک کا رہنے والا تھا تقریباً آدھا کلو سے زائد عجوہ کھجوریں لے
کر آیا اور ہدیۃً خدمت میں پیش کیں، تو مولانا نے بڑے پیار سے فرمایا: جاؤ
بیٹا یہ کھجوریں خود استعمال کرو، یہ تمہاریں ہیں اور تمہارے ہی لیے ہیں،
وہ بضد تھا کہ نہیں آپ قبول کریں، تو بالآخر اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ نے اُسے
فرما دیا کہ بیٹا! تم نابالغ ہو، اور نابالغ سے کوئی چیز لے کر کھانا جائز
نہیں ہے، وہ طالبِ علم افسردہ سا ہو کر باہر نکل گیا، باہر جا خدام سے کہا
کہ اُستاذ جی نے کیوں قبول نہیں کی؟ والد صاحب ناراض ہوں گے کہ کیوں نہیں
پہنچائی تھی، تو خدام نے پوچھا کہ کیا آپ کے والد صاحب نے مولانا کے لیے
بھیجی ہیں؟ تو اُس نے اثبات میں سر ہلایا، خدام کے کہنے پر وہ طالبِ علم
دوبارا حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یہ کھجوریں والد صاحب نے
آپ کے لیے بھیجی ہیں، اس پر اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ نے تاکیداً اُس سے پوچھا
کہ کیا تمہارے والد نے میرا نام لے کر مجھے دینے کے لیے کہا تھا؟ طالبِ علم
نے جواب دیا کہ جی ہاں، تب جا کر اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ نے وہ کجھوریں وصول
کیں۔
اِسی طرح اگر کوئی شخص کسی برتن میں کھانے پینے کی چیز ہدیۃً لے کر آتا تو
برتن کی نوعیت دیکھ کر اگر تو قیمتی ہوتایا گھروں میں استعمال ہونے والانظر
آتا تو اُسی وقت دریافت کر لیتے تھے کہ بھائی! برتن واپس کرنا ہے یا نہیں؟
جیسا جواب ملتا اُس کے مطابق عمل کیا جاتاتھا، اِس کے علاوہ اگر کوئی پھلوں
کا ہدیہ پیش کرتا تو دریافت فرماتے کہ بھائی! کہاں کے ہیں؟ اگر جواب ملتا
کہ اپنے باغ کے ہیں تو پھر ان کا بیع وشراء کا طریقہ بھی معلوم فرما تے
تھے، اور اگر کوئی کہتا کہ بازار سے لایا ہوں، تو بہت اچھا! کہہ کر رکھ
لیتے، لیکن اُس کے جانے کے بعد طلبہ یا مہمانوں وغیرہ میں تقسیم فرما دیتے
تھے، اَز خود استعمال کرنے سے گریز کرتے تھے، ایک بار کسی شخص نے ہدیہ دے
کر کہا حضرت میرے دعا فرما دیں، تو بڑی شفقت سے فرمایا: کہ بھائی! دعا ہم
تمارے لیے کرتے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے لیکن جب ہدیہ دیا جائے تو اس وقت
دعا کے لیے نہیں کہنا چاہیے۔
۵۲، ۱۹۵۱م میں دار العلوم دیوبند میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین
احمد مدنی ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی دیوبندی اور حضرت مولانا محمد
ابراہیم بلیاوی رحمہم اﷲ تعالیٰ جیسی نابغۂ روزگار ہستیوں کے سامنے زانوئے
تلمذ کیا اور دورہ حدیث کی تکمیل فرمائی، فراغت کے فورا بعد ملکِ پاکستان
کی طرف ہجرت فرمائی، صوبہ سندھ کے ضلع ٹنڈوالہ یار میں واقع ایک بڑے مدرسہ
میں حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی صاحب رحمہ اﷲ کے زیرِ سایہ اپنے سفرِ
تدریس کا آغاز فرمایا، بارہ سال تک اسی جگہ شب وروز ابتدائی کتب سے لے کر
انتہائی کتب تک کی تدریس میں مشغول رہے، اس وقت معاشرے اور عامۃ الناس
مسلمانوں کی دینی زندگی کی پستیوں کو دیکھتے دیکھتے دعوت وتبلیغ کی طرف
قلبی رجحان بہت زیادہ بڑھ گیا، حتیٰ کہ ۱۹۶۴م میں آپ نے تبلیغ میں سات چلّے
لگائے، اُس کے بعد آپ کا تقرر مدرسہ عربیہ رائے ونڈ میں ہو گیا، اِس سلسلے
میں خاص بات یہ ہے کہ اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ جب ٹنڈوالہ یار سے چھوڑ کے
رائے ونڈ تشریف لائے تو وہ وہاں صحیح البخاری پڑھاتے تھے، لیکن رائے ونڈ
میں آپ کی تدریس کی ابتدا شعبہ حفظ اور تعلیم الاسلام کی تدریس سے ہوئی،
اُس وقت سے لے کر ۱۹۹۷م تک درجہ موقوف علیہ تک کی تمام کتب پڑھانے کا آپ کو
موقع ملا، ۱۹۹۷م میں مدرسہ عربیہ رائے ونڈ کے بڑے اُستاذ حضرت محمد ظاہر
شاہ صاحب رحمہ اﷲ تھے، اُن کی وفات کے بعد اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ کو بڑے
استاذ کے رتبے سے پہچانا جانے لگا، پھر ۱۹۹۹م میں جب دورہ حدیث کی ابتداء
ہوئی تو شیخ الحدیث کے مرتبے پر بھی آپ کو ہی فائز کیا گیا، اُس وقت سے
۲۰۱۰م تک مکمل بخاری شریف اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ ہی پڑھاتے رہے، پھر علالت
کی بناء پر صحیح البخاری کا ایک حصہ اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ کے پاس ہی باقی
رہا، جو اِمسال تک جاری وساری تھا اور بقیہ حصے دیگر کبار اساتذہ میں تقسیم
کر دئیے گئے۔اِس طرح آپ کے علومِ ظاہریہ اور باطنیہ سے فیض حاصل کرنے والوں
کی ملک وبیرون ملک میں ہزاروں سے متجاوز ہو گئی، صرف اِمسال مدرسہ عربیہ
رائے ونڈ سے دورہ حدیث شریف مکمل کر کے دستارِ فضیلت حاصل کرنے والے آپ کے
تلامذہ کی تعداد پانچ سو باسٹھ (562)ہے، جن میں پاکستان کے علاوہ بیرون
ممالک (مثلاً: برونائی، سری لنکا، تھائی لینڈ، ملائشیا، انڈونیشیا، فلپائن،
تُرکی، حبشہ، کمبوڈیا، چین، ناروے، سوڈان، سعودی عرب، تیونس، اُردن، روس،
قطر، طائف، صومالیہ، مقدونیہ، البانیہ، جنوبی افریقہ، روس، کرغیستان،
تاجکستان، قازقستان اور افغانستان وغیرہ)کے ننانوے (99)طلبہ شامل ہیں، وﷲ
الحمد!
دعوت وتبلیغ کے میدان میں بھی اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ نے خوب ترقی کی،
تبلیغی مرکز رائے ونڈ ، پاکستان میں تبلیغی جماعت کی عالمی شوریٰ کے رُکن و
امیر تبلیغی جماعت پاکستان محترم حاجی عبد الوہاب صاحب دامت برکاتہم
العالیہ کے بعد بڑی ہستی اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ کو ہی تسلیم کیا جاتا تھا،
مرکز میں ہونے والے روزانہ اور ماہانہ مشوروں میں حضرت حاجی صاحب دامت
برکاتہم کے بعد آپ ہی ذمہ دار ہوتے تھے، انہی کا فیصلہ حرفِ آخر سمجھا جاتا
تھا، جن ایام میں حاجی صاحب دامت برکاتہم شدید علیل ہوئے یا ہوتے تھے،
بیانِ فجر کی ذمہ داری آپ کی ہی ہوتی تھی، اس کے علاوہ اﷲ کے راستے میں
جانے والی جماعتوں کو دی جانے والی ہدایات اور وقت لگا کر واپس جانے والے
احباب میں اختتامی دعا اور مصافحہ بھی اکثر آپ کے ذمہ لگتا تھا، عصر کے بعد
عوام الناس، پُرانوں اور علماء اور بیرون ممالک سے آنے والے مہمانوں میں
بھی آپ بکثرت بیان کرتے نطر آتے تھے، نیز! صحت کے زمانے میں ، پُرانوں کے
دس روزہ جوڑ، علاقائی اجتماعات اور رائے ونڈ کے سالانہ اجتماعات میں بھی آپ
کا بیان ضرورہوتا تھا۔
۲۰۰۸م میں جب بندہ نے اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ کے پاس صحیح البخاری پڑھی تو
دل اﷲ کے سامنے تشکر بھرے جذبات کے ساتھ سجدہ ریز تھا، کہ جو امتیازمدرسہ
عربیہ رائے ونڈ کے دورہ حدیث کو حاصل تھا، وہ معاصر اداروں میں کہیں نظر
نہیں آتا تھا، دیگر جامعات ومدارسِ عربیہ کی تنقیص مقصود نہیں، محض مدرسہ
عربیہ رائے ونڈ کی وجہ ِ امتیاز سامنے رکھنا مقصود ہے، تا کہ ہماری طرف سے
شکرِ نعمت وتحدیث بالنعمت والا معاملہ ہو سکے، اور اس وقت مدرسہ عربیہ رائے
ونڈ میں موجود زیرِ درس طلباء کرام پوری ذمہ داری،حاضر دماغی اور شرح وبسط
کے ساتھ وقت کے ان عظیم شیوخ سے خوب سے خوب استفادہ کر سکیں۔
مدرسہ عربیہ رائے ونڈ میں موجودہ وقت کے کبار مشائخ عظام، صاحبِ نسبت، عالی
السند، علم وعمل کے جامع علمائے کرام کا بیک وقت ایک جگہ صحاح ستہ کا درس
دیناوہاں کا طرۂ امتیاز ہے، تفصیل اس اجمال کی کچھ اس طرح ہے کہ دیگر
جامعات میں سے کسی بھی ادارے کی طرف دیکھ لیجیے، اس دور میں وہاں صرف ایک
یا زیادہ سے زیادہ دو شخصیات ایسی نظر آئیں گی جو عالی السند ہیں، مثلاً:
ہمارے اس دور میں سب سے عالی السند اُن حضرات کی ہے جو شیخ الاسلام حضرت
حسین احمد مدنی رحمہ اﷲ کے شاگرد ہیں، (اس لیے کہ شیخ الاسلام حضرت حسین
احمد مدنی رحمہ اﷲ اور شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمہ اﷲ کے درمیان صرف
چارواسطے ہیں)اور یہ بات پوری طرح جائزہ لینے کے بعد کہی جا رہی ہے کہ پورے
پاکستان میں چند گنے چنے مدارس ہی ایسے ہیں جہاں حضرت مدنی رحمہ اﷲ کے شاگر
د موجود ہوں، اُن اداروں میں بھی اس ایک ہستی کے علاوہ ان کے ہم پلہ عالی
السند کوئی اور نظر نہیں آتا، إلا ما شآء اﷲ۔ لیکن مدرسہ عربیہ رائے ونڈ
میں دیکھیے!
اُستاذ محترم حضرت مولانا جمشید علی صاحب رحمہ اﷲ ، شیخ الاسلام حضرت حسین
احمد مدنی رحمہ اﷲ کے شاگرد تھے، (یعنی: اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ اور شاہ ولی
اﷲ محدث دہلوی رحمہ اﷲ کے درمیان صرف پانچ واسطے تھے)
اُستاذِ محترم حضرت مولانا نذر الرحمن صاحب دامت برکاتہم العالیہ ، حضرت
مولانا سلطان محمود صاحب رحمہ اﷲ کے شاگرد ہیں جو علامہ انور شاہ کشمیری
اور شیخ الہند رحمہما اﷲ کے شاگرد ہیں، (اس طرح اُستاذِ محترم حضرت مولانا
نذر الرحمن صاحب دامت برکاتہم العالیہ اور شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمہ اﷲ
کے درمیان بھی صرف پانچ واسطے بنے)
اور اُستاذِ محترم حضرت مولانا احسان الحق صاحب دامت برکاتہم العالیہ ،
حضرت مولانا اسعد اﷲ صاحب رحمہ اﷲ کے شاگرد ہیں، (اس طرح اُستاذِ محترم
حضرت مولانا احسان الحق صاحب دامت برکاتہم العالیہ اور شاہ ولی اﷲ محدث
دہلوی رحمہ اﷲ کے درمیان بھی صرف پانچ واسطے بنے)
اور اُستاذِ محترم حضرت مولانا محمد جمیل صاحب دامت برکاتہم العالیہ ، حضرت
مولانا محمد ابراہیم صاحب رحمہ اﷲ کے شاگرد ہیں اور وہ حضرت مولانا سلطان
محمود صاحب کے، (اس طرح اُستاذِ محترم حضرت مولانا محمد جمیل صاحب دامت
برکاتہم العالیہ اور شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمہ اﷲ کے درمیان صرف چھ واسطے
بنے)
اس خاص وصف کو دیکھتے ہوئے شدید خواہش تھی کہ دورہ حدیث تو رائے ونڈ میں ہی
ہونا چاہیے، کہ چلو کچھ نسبت تو ہو، عملی میدان میں آگے برھنے کی توفیق بھی
اﷲ تعالیٰ اس کی برکت سے دے ہی دیں گے، ان شاء اﷲ۔اسباق کے پڑھانے میں اِن
تمام مشائخ کا اپنا اپنا جُداگانہ انداز تھا، اِس وقت مقصود صرف اُستاذ
محترم حضرت مولانا جمشید علی صاحب رحمہ اﷲ کے اندازِ تدریس کے بارے میں
روشنی ڈالنا مقصود ہے، اُستاذ محترم رحمہ اﷲ سبق پڑھانے کے لیے تشریف لاتے،
تشریف فرما ہوتے ہی، ’’ہاں بھائی، چلو شروع کرو‘‘کہہ کے سبق کا آغاز
فرماتے، نظر والی عینک آنکھوں پر ہوتی، اور پوری طرح سو فیصد کتاب کی طرف
متوجہ ہو جاتے تھے، گویا کہ دائیں بائیں کسی اور طرف کا بالکل ہوش ہی نہیں
رہتا تھا، ترتیب یہ ہوتی تھی کہ ایک طالبِ علم صحیح البخاری کا ایک صفحہ
پڑھتا تھا، طالبِ علم ایک حدیث پڑھ کے اس کا ترجمہ کرتا، اور اس وقت اُستاذ
محترم رحمہ اﷲ نے اس حدیث سے متعلق تشریحی یا وضاحتی بات ارشاد فرمانی ہوتی
تو فرما دیتے تھے ورنہ طالبِ علم ترجمہ کر کے آگے چلتا رہتا، البتہ جیسے ہی
وہ اعراب یا ترجمہ کی غلطی کرتا تو اُستاذ محترم رحمہ اﷲ اسی وقت ’’ہوں‘‘
کہہ کر اسے متوجہ کرتے ، اگر وہ غلطی ٹھیک کر لیتا تو ٹھیک ورنہ اُستاذ
محترم رحمہ اﷲ اسے درست کر دیتے۔
سبق ختم ہونے کے بعد طلبہ کی طرف سے سوالات کی پرچیاں پیش کی جاتی تھیں،
ایک متعین طالبِ علم سوال اونچی آواز میں پڑھ کے سناتا، اُستاذ محترم رحمہ
اﷲ اسی وقت فی البدیعہ، اپنے مخصوص انداز میں ٹھہر ٹھہر کے مُسکِت جواب
ارشاد فرما دیتے، اُستاذ محترم رحمہ اﷲ کے بارے میں سُنا ہوا تھا، کہ آپ نے
خواب میں اﷲ تعالیٰ کی زیارت کی ہوئی ہے، اِس بات کی تصدیق کی خاطر ایک بار
(جب کہ سبق موجودہ جدید مسجد کے تہہ خانے میں ہو رہا تھا) پرچی لکھی، کہ
اُستاد جی ! آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ ’’آپ کو خواب میں اﷲ تعالیٰ کی
زیارت ہوئی ہے‘‘ کیا یہ بات صحیح ہے؟ اِس پر اُستاذ ِمحترم رحمہ اﷲ نے ڈانٹ
کر خاموش کروا دیا، فرمایا: ’’نالائق کہیں کے، ایسی باتیں نہیں پوچھتے۔‘‘
بندہ حیران پریشان، کہ یہ کیا بنی؟! اُستاذ ِمحترم رحمہ اﷲ کا مقصود اِس
انداز سے جواب دینے سے اِس بات کی تردید کرنا تھا، یا اِس طرح کی باتوں کے
اِفشاء سے روکنا تھا؟! واﷲ اعلم بالصواب، خیر ! پھر ایک دن سبق کے بعد جب
دیکھا کہ اُستاذ ِمحترم رحمہ اﷲ بہت زیادہ خوشگوار موڈ میں ہیں تو بندہ نے
دوبارہ اُسی سوال کی پرچی بھیج دی، اب کی بار اُستاذ ِمحترم رحمہ اﷲ نے
آہستہ سے فرمایا: ’’الحمد ﷲ! ایک سے زیادہ بار۔‘‘
اس واقعے کے بارے اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ کے خدام سے ایک اور واقعہ سنا کہ
ایک شخص نے حاضرِ خدمت ہو کر دریافت کیا کہ حضرت! آپ کے بارے میں سُنا ہے
کہ آپ کو خواب میں اﷲ تعالیٰ کی زیارت ہوئی ہے؟ تو اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ
نے اپنے مخصوص لہجے میں فرمایا: ’’بھائی!جو سُنا ہے وہ ٹھیک سُنا ہے، اِس
طرح کی باتوں کے پیچھے نہیں پڑتے، جاؤ ، جا کے اپنا کام کرو‘‘۔
اِسی طرح اُستاذ ِمحترم رحمہ اﷲ سے بیانات میں بارہا سُنا کہ ’’جس نے
زُلفیں رکھنی ہوں تو وہ چالیس سال کے بعد رکھے۔‘‘چنانچہ ! اِس کے بارے میں
بندہ نے پرچی بھیجی، کہ کیا زُلفیں چالیس سال کے بعد رکھنا سنت ہے؟ اس کے
جواب میں اُستاذ ِمحترم رحمہ اﷲ نے فرمایا: ’’نہیں بھائی! زُلفیں رکھنے کی
سنت پر عمل کرنے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہے، لیکن! موجودہ زمانے میں
جب ہم نفس وشیطان کے آگے مغلوب ہوئے پڑے ہیں، تو نام سنت کا استعمال ہوتا
ہے، جبکہ وہاں اتباع نفس چھپی ہوتی ہے، چالیس سال سے قبل بناؤ سنگھار کا
جذبہ غالب ہوتا ہے، اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ زُلفیں رکھنے سے خوبصورتی
میں اضافہ ہوتا ہے، تو مقصود یہ ہوتا ہے اور نام سنت کا استعمال کرتے ہیں،
دوسری طرف چالیس سال کے بعد عام طور پر بناؤ سنگار کا جذبہ سَرد پڑ جاتا
ہے، اُس وقت یہ کام کیا جائے گا تو پھر کسی قسم کا اِشکال نہیں، البتہ! اگر
کسی کا مقصود واقعتا اتباع سنت ہی ہو تو ضرور رکھے، خلاصہ یہ کہ ہمارا یہ
کہنا حکم ِ شرعی نہیں ہے، لیکن مصلحتاً اس طرح بیان کر دیا جاتا ہے۔ ‘‘
الغرض ! اُستاذ ِمحترم رحمہ اﷲ کے سمجھانے کا انداز انتہائی سادہ اور آسان
ہوتا تھا کہ کمزور سے کمزور ذہن والا بھی بات پوری طرح سمجھ کر مطمئن ہو
جاتا تھا، اَحکامِ شریعت میں مسئلہ تقدیر ایسا مسئلہ ہے کہ علماء کرام نے
صاف صاف لکھا ہے کہ اس مسئلہ کے بارے میں کھود کرید کرنا، اور اس کی
باریکیوں میں الجھنا اور اس بارے زیادہ قیل وقال کے چکروں میں پڑنا جائز
نہیں ہے، اِس مسئلہ پر بَس اِجمالی ایمان رکھنے کا حکم ہے، اِس مسئلہ کے
بارے میں اُستاذ ِمحترم رحمہ اﷲ نے نہایت سادہ انداز میں تفصیل بیان کی کہ
الحمد ﷲ! تشفی ہو گئی، اس کا خلاصہ ذیل میں لکھتا ہوں، فرمایا:
’’پہلی بات تو سمجھو کہ ایک لفظ ہے تقدیر ؛ اس کے معنیٰ ’’اندازہ لگانا
‘‘ہے۔ دوسرا لفظ ہے، تجبیر؛ اس کے معنی ’’جبر اور زیادتی کرنا ‘‘ ہے ۔ اور
تیسرا لفظ ہے تخبیر؛اس کے معنیٰ ’’خبر دینا ‘‘ ہے۔اب دوسری بات یہ سمجھو کہ
انسان کا اندازہ غلط ہو سکتا ہے لیکن اﷲ تعالیٰ کا اندازہ غلط نہیں ہو
سکتا، کیونکہ وہ تو ماضی، حال اور مستقبل کا علم بھی رکھتا ہے، چنانچہ! اس
کے علم ِ محیط ہونے کی وجہ سے اس کا اندازہ بالکل ٹھیک بیٹھے گا، اُس میں
غلطی نہیں ہو سکتی۔ یہ ہو گئی دو باتیں، اب تیسری بات سمجھو کہ اﷲ تعالیٰ
نے انسان کو اختیار دیا ہے کہ اس دُنیا میں فرمانبرداری یا نافرمانی والی
زندگی میں سے جو زندگی گزارنا چاہو، گزار کے آؤ، دُنیا میں تم پر کوئی جبر
نہیں، لیکن قیامت والے دن فرمانبرداروں کو نافرمانوں سے جُدا کر دیا جائے
گا، فرمانبردار اﷲ تعالیٰ کے مہمان خانے (جنت)میں ہوں گے اور نافرمان اﷲ کی
جیل (جہنم) میں ہوں گے۔
پھر فرمایا: اِن ابتدائی باتوں کو اچھی ذہن میں بٹھائیں اور اس کے بعد ایک
مثال سمجھیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک بچے کو وجود دیا، اور اس کی عمر مثلاً:
تیس سال لکھ دی، کہ دُنیا میں یہ بچہ تیس سال زندہ رہے گا، اَب تیسری بات
ذہن میں لاؤ کہ اس بچے نے اپنے اختیار کے مطابق دنیا میں تیس سال کی زندگی
گزاری، حتیٰ کہ اپنی زندگی آخری لمحے میں یا آخری سانس میں وہ اپنے اختیار
سے نماز پڑھ رہا تھا، سجدے کی حالت میں تھا، کہ اُس کا وقت پورا ہوا اور
فرشتے نے اس کی روح قبض کر لی، تو اس کا خاتمہ سعادت کے ساتھ سجدے کی حالت
میں ہوا۔ اَب واپس لوٹ کے اس کی پیدائش کے وقت کے پاس آجاؤ، جب فرشتے نے اس
بچے کے جسم میں روح ڈالی تو اﷲ تعالیٰ نے اپنے مستقبل کے علم میں دیکھتے
ہوئے یہ دیکھ لیا کہ یہ بچہ اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اپنا آخری
سانس سجدے کی حالت میں پورا کرے گا تو اﷲ تعالیٰ نے اپنے علم کی بدولت اپنے
اندازے کو لوحِ محفوظ میں لکھ دیا کہ یہ بچہ سعادت کی موت سجدے کی حالت میں
اس دنیا سے جائے گا، اُستاذ ِمحترم رحمہ اﷲ نے فرمایا: یہ تھا اﷲ تعالیٰ کا
اندازہ جو غلط نہیں ہو سکتا، اسے کہتے ہیں تقدیر؛ یعنی: اﷲ تعالیٰ کا
اندازہ۔ پھر فرمایا: میرے عزیزو! اب بتاؤ کہ اُس بچے کی سجدے کی حالت میں
موت تقدیر میں یہی کچھ لکھا ہوا ہونے کی وجہ سے ہوئی یا اُس کے اپنے اختیار
کو استعمال کرنے کی وجہ سے ہوئی؟ پھر خود ہی فرمایا: کہ اس کی یہ موت تقدیر
میں لکھا ہوا ہونے کی وجہ سے نہیں ہوئی، اس لیے کہ اگر ایسا کہیں گے تو یہ
’’تجبیر‘‘ یعنی: جبر کرنا ہو گا، جس کی وجہ سے یہ کہا جائے گا کہ انسان
تقدیر کے ہاتھوں مجبور تھا، حالانکہ اﷲ نے تو انسان کو اس دنیا میں مجبور
نہیں رکھا بلکہ اختیار دیا ہے، لہٰذا یہ کہنا اﷲ کی شان کے بھی خلاف ہے اور
اﷲ کے اصول کے بھی ۔ چنانچہ ! لوگوں کی زبانوں پر جو یہ جملہ ہوتا کہ
’’بھائی تقدیر میں ہی ایسا لکھا ہوا تھا، ہم کیا کر سکتے ہیں، ‘‘ تو اچھی
سمجھ لیں کہ اس کا مطلب یہ ہوتا کہ اختیار تو بندے کا استعمال ہوا، لیکن یہ
سب کچھ (یعنی: بندے کا اپنے اختیار کو استعمال کرنا) اﷲ تعالیٰ کو معلوم
تھا، اور اﷲ نے اپنے اس اندازے کو لکھ دیا تھا، جو تقدیر کہلایا، لہٰذا
محاورے میں اس اختیاری فعل کی نسبت اُس لکھی ہوئی تقدیرکی طرف کر کے بول
دیتے ہیں، جس کا مطلب صرف اور صرف یہ بنتا ہے کہ جو کچھ بھی ہوا ہے، وہ ہوا
تو اس بندے کے اپنے اختیار سے ہے البتہ اس کے اپنے فعل کو تقدیر میں لکھ
دیا گیا تھا۔دو لفظوں میں خلاصہ سننا چاہو تو یہ بنے گا کہ انسان کے اچھے
اور بُرے افعال تقدیر میں لکھا ہوا ہونے کی وجہ سے نہیں ہوتے بلکہ اس کے
اپنے اختیار سے یہ سب کچھ ہوتے ہیں، جن کی خبر اﷲ تعالیٰ نے عالم الغیب
ہونے کی وجہ سے معلوم کر کے لکھ کر دی ہوتی ہے، اسے ہی تقدیر کہتے ہیں۔
تقدیر سے متعلق اُستاذ ِمحترم رحمہ اﷲ کی اس گفتگو کو دیکھ لیں کہ کس آسانی
سے مسئلہ کی ایسی تشریح کر دی کہ اس کے بعد اس طرح کے سوالوں ’’لو جی! اس
میں چور کا کیا قصور ہے اس کی تقدیر میں ہی ایسا لکھا ہوا تھا، قاتل کا کیا
قصور ؟ اس کی تقدیر میں یہی لکھا ہوا تھا، زانی کو کیوں ملامت کرتے ہو،
تقدیر کے خلاف کون کیا کر سکتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ‘‘سے نجات مل جاتی ہے۔
اسی طرح اکثر اوقات ایسا ہوتا کہ سبق کے اختتام پر طلبہ اُستاذِ محترم رحمہ
اﷲ سے فرمائش کرتے کہ اُستاذ جی ! لیلیٰ مجنون کے اشعار سنائیں، تو اُستاذِ
محترم رحمہ اﷲ اپنے مخصوص لہجے میں پورے طرز سے لَے میں آ کر وہ اشعار سنا
دیتے، اِن اَشعار کا اصل لُطف تو انہیں ہی آ سکتا ہے جنہوں نے اُستاذِ
محترم رحمہ اﷲ کی زبانی یہ اشعار سنے ہوں، لیکن دوسروں کے لیے بھی فائدے سے
خالی نہیں، اس لیے کہ اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ کا مقصود ان اشعار سے اﷲ
تعالیٰ کی محبت کی طرف اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی مشکلات وتکالیف پر
صبر کی طرف پھیرنا ہوتا تھا، ملاحظہ فرمائیں
سُنا ہے لیلیٰ کا یہ دستور تھا
بھیک دیتی دَر پہ آتا جو گدا
اِک دن مجنون بھی کاسہ ہاتھ لیے
آ پکارا، کچھ ہمیں بھی ﷲ! دے
آئی لیلیٰ، سبھیں کو کچھ دیا
ہاتھ سے مجنون کے کاسہ لے لیا
دے پٹخ مارا زمین پر ایک بار
رقص میں مجنون ہوا بے قرار
کسی نے پوچھا، اے مجنون خام!
رقص کا تھا، اِیں جا کیا مقام؟
بولا مجنون! تم میں کوئی عاشق نہیں
عاشقوں کی رَمز سے واقف نہیں
کسی کے عاشق کے ہوئے ایسے نصیب؟
بَلا نازل کرے جس پہ اُس کا حبیب
اسی طرح مطالبہ ہوتا کہ حضرت! ملا دوپیازہ اور بِربل کے واقعات سنائیں تو
اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ اُن کے واقعات سنا دیتے، تو پوری مجلس ایسے ہو جاتی،
گویا پھلجڑیاں پھوٹ پڑی ہوں، الغرض! اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ کا سبق ہوتا یا
بیان؛ شریک ہونے والا کسی طرح بھی بَور نہ ہوتا تھا اور پوری طرح ہشاش باش
اُس درس یا بیان سے مستفید ہوتا تھا،
اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ کی خصوصیت یہ تھی کہ رات نمازِ عشاء کے بعد حیاۃ
الصحابہ کی تعلیم کروانی ہوتی یا صحیح البخاری کا سبق پڑھانا ہوتا، اُس کا
مطالعہ ضرور کرتے تھے، حتیٰ کہ ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ سبق کے لیے طلبہ
کو مسجد میں جمع کیا گیا، لیکن پھر بعد میں یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ میں
مطالعہ نہیں کر سکا، اِسی طرح ایک بار آپ کی نمازِ عشاء کے بعد ’’حیاۃ
الصحابہ ‘‘کی تعلیم کروانی طے ہوئی، لیکن کثیر مصروفیات کی بنا پر آپ
مطالعہ نہ کر سکے تو فرمایا: کہ مولانا نذر الرحمن صاحب کو جا کر کہہ دو کہ
آج میں مطالعہ نہیں کر سکا ، آپ کروا لیں۔
اَسباق کی پابندی کا یہ عالَم تھا، کبھی ناغہ نہ ہونے دیتے تھے، اگر کبھی
کہیں کا سفر درپیش ہوتا تو جانے سے قبل یا واپسی پر جو بھی وقت ہوتا طلبہ
کو بلوا لیتے اور سبق پڑھاتے، حتیٰ کہ دیکھا گیا کہ رات کے دو بجے اور اسی
طرح تین یا چار بجے بھی سبق کے لیے طلبہ کو بُلوا لیتے تھے۔ معمولی تھکاوٹ
یا بیماری کی تو پروا ہی نہیں ہوتی تھی۔
الغرض! حضرت کی صفات، خصلتوں اور عادات و خصائص کا ذہن میں اِس قدر ہجوم ہے
کہ اُس کے استحصا کے لیے شاید پوری کتاب بھی ناکافی ہو، لیکن فی الوقت اسی
پر اکتفا کرتا ہوں کہ پہچاننے کے لیے پوری دیگ کو نہیں، چند دانوں کو ہی
چکھا جاتا ہے، ضرورت ہے کہ اُن کے خصائل ِ حمیدہ کو سامنے رکھا جائے، دعوت
وتبلیغ، علمی وعملی میدان اور تقویٰ والی زندگی میں ان کی اتباع کی جائے،
اور موجود حیات بزرگانِ دین اور اساتذہ کرام کی قدر کرتے ہوئے اُن کے وجودِ
مسعود کو غنیمت سمجھ کر اُن کی صحبت سے خوب استفادہ کیا جائے۔
اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ نے ۱۹۲۸م میں اس دنیا میں آنکھ کھولی اور ۳ /نومبر
/۲۰۱۴م میں انتقال ہوا، اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ زندگی کے چھیاسی سال اس طرح
گزار کے گئے ہیں کہ اُن پر فخر کیا جا سکتا ہے، یقیناً اﷲ تعالیٰ بھی اُن
سے راضی ہوں گے اور آخرت میں اُن کے ساتھ اعزاز واکرام والا معاملہ فرمائیں
گے، ان شاء اﷲ العزیز
اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ کے پسمانگان میں صُلبی اَولاد: دو بیٹیاں اور ایک
بیٹا (ماشاء اﷲ سب شادی شدہ اور صاحب ِ اولاد ہیں)اور روحانی اَولاد:
لاکھوں فرزندان شامل ہیں، جس طرح اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ کی صُلبی اولاد
تعزیت کی مستحق ہے، بالکل اِسی طرح آپ کے لاکھوں روحانی فرزندان بھی تعزیت
کے مستحق ہیں، اﷲ تعالیٰ ہم سب کو صبر جمیل اور حضرت کا نعم البدل نصیب
فرمائے۔
’’إنّا للّٰہ وإنّا إلیہ راجعون‘‘
’’إنّ لِلّٰہ ما أخذ، ولِلّٰہ ما أعْطیٰ، وکلُّ شَییٍٔ عندَہ بأجَلٍ
مُسمّیٰ‘‘․
’’أعْظَمَ اللّٰہُ أجْرَنا، وأحْسَنَ اللّٰہُ عَزآءَ نا، وغَفَرَ
لِمَیِّتِنا‘‘․
اُستاذِ محترم رحمہ اﷲ کے صاحبزادے حضرت مولانا عبید اﷲ خورشید صاحب حفظہ
اﷲ علمی، عملی، تبلیغی اور روحانی لائن میں ماشاء اﷲ ہو بہو اپنے والد صاحب
کے قدم بقدم ہیں، اﷲ تعالیٰ نے اُنہیں بھی خوب سے خوب اَخلاقِ کریمہ اور
خصائل ِحمیدہ سے نوازا ہے، آپ مجموعی طور پر طلبہ کرام اور اساتذہ کرام میں
مقبول ترین شخصیت ہیں، طلبہ کرام کی ایک بڑی اکثریت فراغت کے بعد علمی،
عملی ، تدریسی وتبلیغی میدان میں آپ سے ہی مشاورت رکھتی ہے، اﷲ تعالیٰ نے
اُنہیں تدریسی لائن میں بھی خوب مہارت اور ملکہ عطا فرمایا ہے، مدرسہ عربیہ
رائے ونڈ میں درجہ عُلیا تک کی کتب آپ کے زیر ِ تدریس ہیں، اب تک درسِ
نظامی کی تقریباً تمام اہم کتب کی تدریس کا تجربہ حاصل کر چکے ہیں، بندہ نے
حضرت زید مجدہ سے ۲۰۰۷م میں تفسیر ِ جلالین حصہ دوم پڑھی، ماشاء اﷲ اندازِ
تدریس اور حلِ کتاب اور متعلقہ مباحث پر سیرِ حاصل گفتگو کرنا آپ کا وصفِ
ممتاز ہے، اﷲم زد فزد، اﷲ رب العزت آنجناب کا مبارک سایہ تادیر ہمارے سروں
پر بعافیت رکھے اور جہاں اُن سے دین متین کی مبارک خدمات لے وہاں ہم ضعفاء
کو بھی اُن کے علوم اور صلاحیتوں سے خوب سے خوب استفادہ کرنے کی توفیق عطا
فرمائے، نیز!اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اُستاذِ محترم حضرت مولانا جمشید
علی خان صاحب رحمہ اﷲ کو اپنے مہمان خانے میں اعلیٰ مقام میں جگہ مرحمت
فرمائے، نبی اکرم ﷺ کا پڑوس اور قرب نصیب فرمائے، اور ہم ضعفاء کو اُن کے
نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین |
|