تحریر: سکینہ سالار سلطان
عمران خان نے جب بھی کسی حکومت کے خلاف کچھ کہاں تو ہمیشہ چاہے وہ زرداری
حکومت ہو یا میاں صاحب کی، متحدہ ہو یا مولانا فضل الرحمن صاحب ہمیشہ ان سب
میں ایک بات پر اتفاق ہے کہ عمران خان کی ذاتی زندگی پر ہمیشہ کیچڑ اچھالنا
ہے اور صرف تنقید کرنا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی بھی گذشتہ انتخابات میں عبرت
ناک شکست کے بعد عمران خان کے خلاف سیخ پا ہے۔ جمائمہ جو کبھی عمران خان کی
منکوحہ ہوا کرتی تھی اور اب دس سال سے بھی زائد عرصہ ان کی عمران خان سے
طلاق کو گزر چکا ہے۔ وہ اب سے نہیں طلاق کے بعد سے ہی ایک ازاد اور خود
مختار عورت ہے جو چاہے کرے۔ مگر وہ کرے کچھ بھی طعنہ یہاں کے باشعور اور
تعلیم یافتہ ترین لوگ عمران خان کو دینا شروع ہو جاتے ہیں۔ آپ شادی کرے کچھ
عرصہ بعد اپکی بیوی سے تعلقات کشیدہ ہوجائے اور نوبت طلاق تک اجائے اور
بناء طلاق کے کوئی چارہ نہ ہو اور طلاق ہوجائے تو طلاق کے بعد اپکی سابقہ
بیوی ایک شادی کرے یا دس، اس سے نہ تو اپکا کوئی واسطہ ہے نہ اپکی عزت پر
کوئی حرف اتی ہے، نہ اپکو شرمندہ ہونے کی ضرورت ۔ طلاق کا مطلب اپکا اس سے
اور اس کا اپ سے ہر قسم کا تعلق و واسطہ ختم۔ اب نہ وہ اپ کے لیے باعث عزت
ہے نہ شرمندگی۔اپ اپنی زندگی میں اپنی مرضی کے تحت فیصلے کرنے میں ازاد ہو
اور وہ جو اپکی سابقہ بیوی ہو وہ اپنی مرضی کے تحت فیصلے کرنے اور زندگی
گزارنے میں ازاد ہے۔ جب اﷲ تعالیٰ نے اجازت دے دی تو کوئی بندہ کون ہے اﷲ
کے احکامات سے روگردانی کرنے والا یا جھٹلانے والا۔ یہاں تو جمائما کے
معاملے میں اور زیادہ آزادی اور سہولت اسلئے اسے حاصل ہے کہ وہ ایک ایسے
معاشرے کی پیدائش اور رہائشی ہے جو کہ ان کے ماحول اور معاشرے میں اس بات
کو نہ برا مانتے ہیں نہ شرمندگی کہ یہ وہاں کے ماحول کا لازمی جز ہے کہ
لڑکا اور لڑکی جوان ہوتے ہی اپنے لیے کوئی نہ کوئی ایسا دوست ڈھونڈ لیتے
ہیں جو اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچتے ہی ان کی خواب گاہوں کا رفیق ہو۔ اور
وہاں جسکا ایسا کوئی ہم سفر نہ ہو اسے تعجب سے دیکھا جاتا ہے۔ تو ہماری
پڑھی لکھی باشعور عوام کو یہ تمام بات بلکہ یورپ ، امریکہ کے تمام قوانین
تو زبانی یاد ہوتے ہیں تو کیا اتنی اہم بات جس میں ہمارے پاکستان سے بھی
گئے لاکھوں پاکستانیوں کا حصہ انہیں معلوم نہیں۔ معلوم سب ہے مگر ہمارا
معاشرہ جو کہ ازل سے احساس کمتری کا شکار ہے اور ہمیشہ سے ایک غلط عادت جو
نجانے کیسے ہمارے معاشرے میں ایسے رچ بس گئی ہے کہ ہماری قوم کی ذات کا حصہ
بن چکی ہے کہ ہم لوگ نجانے کیوں دوسروں کی خامیوں اور کمزوریوں کی تلاش میں
رہتے ہیں کہ ذرا کسی کی ماں، بہن بیٹی کی کوئی ایسی بات پتہ چلے اور اس بات
کو طعنہ بنا کر اس شخص کو تاحیات نشانہ بناتے رہے۔ اس طعنہ دینے کی نفسیاتی
بیماری کی وجہ سے ہمارے ملک میں کتنے لوگ خودکشی کرچکے ہیں۔ تمام قتل جو
پاکستان بنام غیرت ہوئے وہ اسی طعنہ زنی کا شکار اور ڈسے ہوئے ہیں۔ کسی کی
بیٹی نے پسند کا اظہار کیا، شادی کرلی، بہن یا بھائی نے اپنے بھائی کو طعنہ
دے دیا کہ کیسے باپ ہو بیٹی نے اپنی پسند سے شادی کرلی تم بے غیرت ہوگئے تو
باپ یا بھائی نے طیش میں آکر بیٹی بہن کو ماردیا اور ساتھ میں اس کے خاوند
کو بھی۔ یوں نفسیاتی بیماری طعنی زنی کے ہاتھوں ہزاروں لوگ دوہرے قتل کی
وارداتوں میں ملوث ہو کر یا تو پھانسی چڑھ گئے یا عمر قید کی سزا کاٹ رہے
ہیں۔ لوگوں کو زبان ہلانے چسکا ہوا ہے بلا سوچے سمجھے اور وہ یہ نہیں جانتے
کہ ان کی زبان ہلانے کے چسکے سے کس کس کی دل آزاری ہو گی اور کوئی غصہ میں
آکر کیا کر بیٹھے یہاں تک کہ قتل بھی۔ دوسروں کی ذاتی زندگی میں بولنا طعنہ
دینے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دینا ایسی نفسیاتی اور ذہنی بیماریاں ہے جس
کا بدقسمتی سے ہم سب شکار ہے اور یہی بات اسلام کی ناپسندیدہ ترین ہے۔
ہمارا مذہب ہمیں یہ سکھا تا ہے کہ اگر کبھی کوئی برائی دیکھو تو اسے
چھپاؤں۔ تم اس دنیا میں کسی کے عیب پر ایک پردہ ڈالوگے تو وہ رحمن اور رحیم
ذات قیامت میں تما خلقِ خدا کے سامنے تمہارے عیبوں پر ستر پردے ڈال کر تم
کو اپنے محبوب بندوں میں شامل کرے گا۔ اسلا م میں پسند کی شادی پر کوئی
گناہ کوئی سزا کوئی حد نہیں۔ یہ سزا ہمارے بیمار ذہنی معاشرے کی اور طعنی
زنی کی پیداوار ہے۔ البتہ اسلام میں جو لڑکا یا لڑکی شادی کرنا چاہے ان کی
شادی نہ کرانا گناہ کبیرہ میں شمار ہوتا ہے کہ وہ اسلامی اور شرعی قانون کے
تحت میاں بیوی بننا چاہتے ہیں اور خاندان اور معاشرہ خواہ مخواہ جھوٹی
اقدار اور رسم و رواج کا بہانہ بنا کر ان کو ثواب کی زندگی گزارنے سے روک
کر گناہ کرنے یا انتہائی اقدام پر مجبور کردیتے ہیں اور پھر قتل کر دئے
جاتے ہیں۔ شادی اور پسند گناہ نہیں، پسند کی شادی سے روکنا اور قتل کرنا
گناہ ہے۔ یہ ہے ہمارا بیمار ذہنی مریض معاشرہ اور یہ اسکا فرسودہ نظام ہے
جس کے تحت ہم لوگ نصف صدی سے زائد گزر جانے کے بعد بھی جبری زندگی گزارنے
پر مجبور ہے اور اس فرسودہ نظام کو ختم کرنے کی نہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے
کی ضرورت ہے تاکہ ہم برائے نام مسلمان اور اسلامی ریاست میں سانس نہ لے رہے
ہو بلکہ ایک حقیق مسلام اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی سنت و احکامات کی روشنی اور
اصولوں کے مطابق زندگی گزارے۔ جمائما عمران خان کی سابقہ بیوی ضرور ہے،
عمران خان کی نکاح میں نہیں کہ عمران خان کو طعنہ دے کر شرمندہ کیا جائے۔
جس کو طعنہ دینے کا شوق ہے اسکے ماں باپ اور بہن بھائی کو دے تا کہ پھر اسے
برطانوی قانون کے تحت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے کہ آپ پاکستانیوں اور
مسلمانوں کو کس نے حق دیا کہ کسی آزاد انسان کی ذاتی زندگی میں مداخلت کرنے
کا خود ہی کانوں سے دھرائے نکلے گے تو ہوش و عقل ٹھکانے آئے گی۔ بد قسمتی
سے ہم لوگ بشمول حکومت یورپ، امریکہ کے نام سے ہی ڈرتے ہیں کجا کے قانونی
کارروائی اور تنقید کا سامنا تقریبا پانچ ، چھ سال پہلے پاکستانی سیاست میں
اس وقت انتہائی الم ناک وقت آیا تھا۔ جن متحدہ کی طرف سے میاں صاحب کی بیٹی
مریم صفدر کے خلاف بازیبا باتیں کی گئی تھی اور میاں صاحب کی دیگر خاندان
کی عورتوں کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے تھے وہ سیاسی طور پر
پاکستان کا سیاہ دن تھا کہ قوم کی ماں بیٹی کی عزت ہم لوگ یوں نیلام کر رہے
تھے۔ بیٹی اگر میاں صاحب کی تھی تو بیٹی الطاف حسین کی بھی تھی اور ہے ، جب
سیاست جیسے کاروبار جو کہ بدقسمتی سے ہمارے سیاستدانوں کا ہے۔ اس میں ماں،
بہن ، بیٹی کی عزت یوں سر عام اچھا لی جائے اور ان کو یوں چیخ چیخ کر طعنہ
دیا جائے اور سوشل میڈیا پر شرمانے کی کوشش کی جائے تو پھر معذرت کے ساتھ
اس سے آپ وقتی طور پر نام تو کمالیں گے، قیادت کی طرف سے شاباش بھی ملے ھی۔
اپنی قوم اقر قوم کی ماں ، بہن، بیٹیوں کی نظروں سے گر جائیں گے۔(جاری ہے)
|