پاکستانی دہشت گرد نہیں
(Sajjad Ali Shakir, Lahore)
اس وقت ملک میں دہشت گردی کی
موجو د لہر نے ہر ذی شعورکو پریشان کر کے رکھ دیا ہے بالخصوص کراچی اور
واہگہ بارڈر اور مختلف مقامات پر ہونے والی دہشت گرداینے وطن عزیز کی جڑوں
کو کھوکھلا کر دیا ہے ۔ عالمی استعمار نے پاکستان کو اپنا میدان جنگ بنا
رکھا ہے۔ایسے میں اہل قلم بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے کیونکہ یہ کسی
معاشرے کا حساس ترین طبقہ ہوتا ہیں ۔ صورتحال حد سے ذیادہ خطرناک ہو چکی
ہے۔ملک کے ہر کونے میں دہشت کا راج ہے۔قتل و خون کی خبروں سے ٹی وی چینل
سرخ ہو رہے ہیں۔اور اخباروں سے لہو ٹپک رہا ہے۔پاکستان میں ہونے والی دہشت
گردی کے سبب ساری دنیا لرز گئی ہے لیکن ہمارارد عمل ایک گھسے پٹے ریکارڈ کی
طرح وہی ہیں ۔(دہشت گردوں کو جلد گرفتار کر لیں ہم متاثرین کے غم میں برانر
کے شریک ہیں کوئی مسلمان ایسی کاروائی نہیں کر سکتا ۔مرنے والوں کے خاندان
کو دس لاکھ اور زخمیوں کے خاندان کو پانچ لاکھ ملیں گے )(خوا ب و خیال میں)
عوام بھی رو دھو کر چپ ہو جاتے ہیں۔وزرا ء اورحکام کی رنگ رلیاں جاری رہتی
ہیں سپریم کورٹ تک کی ہدایات نظر انداز کر دی جاتی ہے۔اور مجرم آزاد رہتے
ہیں ۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر ملک کو تباہی سے بچانا ہے
اورصیحح طورپر چلانا ہے تو یہ دہشت گردی وحشت کا سلسلہ بند کرنا پڑے گا ۔روز
روز ہڑتال اور بھتہ خوری نا قابل برداشت ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
دہشتگردی کو ختم کر کے ملک میں امن و سکون کا ماحول کیسے پیدا کیا جائے ؟وزیروں
کو منتخب کرنے والے ووٹر یعنی ملک کے اصلی ما لک جن کے سامنے ہمار ی
حکومتیں جواب دہ ہوتیں ۔ افسوس صد افسوس ہم پاکستانی اب بھی رعایا ہی ہیں
حکومتیں اور اسٹیلبشمنٹ ہمیں بے بس سمجھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ سانحے اور
حادثے ہوتے رہتے ہیں۔اور وزیروں کے ڈنر جاری رہتے ہیں ۔نیز ہزاروں پولیس
والے ان کی حفاظت کرتے ہوئے دہشت گردوں کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیتے
ہیں۔دہشت گردوں کے واقع کے بعد عوام کا رد عمل بھی اطمینان بخش نہیں ہوتا
ایک دم دوکانیں بند کروا دی جاتی ہیں بے قصور لوگوں کی گاڈیاں ،موٹر
سائیکلیں اور بسیں جلا دی جاتی ہیں۔اور اسے بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے،
اگلے روز دھرنے ہو جاتے ہے۔غریب لوگوں کا خاص کر کے بے حد نقصان ہوتا ہیں
بچوں کی تعلیم جو پہلے ہی نا قص ہے مزید تباہ کر دی جاتی ہیں۔ان کا روائیوں
سے دہشت گردوں کو کوئی اثر نہیں پڑتانہ حکام کا کوئی نقصان ہو تا ہے۔ہمارے
ملک کا پولیس نظام کسی بادشاہ کے غلامان جیسا ہے ۔ان کے ہاتھ کچھ بھی نہیں
ہے ۔ان کو ہمارے حکمران صرف اپنے مفاد کے لیے رکھے ہوئے ہیں ۔اس منحوس نظام
کو جب تک تبدیل نہیں کیا جاتااس وقت تک کسی بہتری کی امید رکھنا فضول ہے۔یہ
بہت بڑا کام ہے لیکن لازمی ہے ۔بیروزگاری بھی دہشت گردی کو مضبوط کر رہی ہے
۔ یہ بڑے بڑے کام کون سر ا نجام دے گا؟میں سلام پیش کرتا ہو اپنی افواج
پاکستان کو جس کی موجودگی میں یہ پاکستان اس دنیا میں نظر آ رہا ہے۔ہمارے
جوان دن رات پہاڑوں دریاوں ،درختوں ، سردیوں ،گرمیوں،ہر موسم ،ہر پل ہمارے
ملک پاکستان کی حفاظت کے لیے تیار کھڑے ہیں ۔مگر ہمارے سیاست دانوں کو
دھرنوں اور آپسی جھگڑوں کے سوا اور کچھ سوج ہی نہیں رہا-
سب سے پہلے تو ہمارے حکام ،لیڈران اور فوجی افسران قائداعظم کی14 ء
اگست1947 کی وہ مایہ ناز تقریر غور سے پڑھ لیں جو انہوں نے دستور ساز
اسمبلی میں کی تھی ۔ اور جو( جمہوری ہدایت نامہ) کا درجہ رکھتی ہے اس تقریر
میں انہوں نے صاف صاف کہا تھا کہ مذہب کو سیاست سے الگ رکھا جائے،اور تمام
برابر سمجھے جائے ،عورتوں کو پوری آزادی حاصل ہو۔جاگیر داری ،اقربا پروری
ختم کی جائے اور ایک جمہوری معاشرہ قائم کیا جائے جس میں سب خوش و خرم ر ہ
سکیں ۔قائد اعظم سے بے وفائی ہمیں راس نہیں آئے گی۔
ہمیں ان لیڈروں میں بونے اور بالشتیے ہی نظر آتے ہے ۔ کہاں ہیں ہمارے ملک
کے روشن خیال دانشوار اساتذہ،ادیب وشاعر ملک قوم کا ضمیر اور کیا ان میں
اتنی بھی ہمت اور جرات ، اتنا حوصلہ اور عزم ہے کہ دہشت گردوں ،تخریب کاروں
، بھتہ خوروں وغیرہ کا اور ان کے بے حد طاقتور حامیوں کا مقابلہ کر کے ملک
کو ایک صاف ستھرے معا شرے میں تبدیل کر سکیں؟
دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والے پیشوا اور ایجنسیاں ہم سب کے سامنے ہیں ۔یہ
سب ہمارے دشمن ممالک جنہوں نے آج تک یہ تسلیم نہیں کیا کے پاکستان ایک آزاد
ریاست ہے یہ سب سر انجام دے رہے ہیں۔
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ دشمن ممالک نے دہشت گردی کو ایک معمہ ہتھیار کے
طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے؟مذ ہبی شدت پسندی کو فروغ دیا یاایسی
تنظیمیں بنوائیں جو مذہب کے نام پر قتل کو اپنا فریضہ سمجھتی تھی اور وہ
تنظیمیں اب بھی سر گرم ہیں۔ان کی حمایت کرنے والے مذہبی اور سیاسی رہنما اب
بھی موجود ہے،کوئی ان کو چھو بھی نہیں سکتا ۔ کیونکہ ان تنظیموں کے پیشوا
ان کی مکمل حفاظت بھی کر رہے ہیں ۔آزادی کے بعد یہ سلسلہ بند ہو جانا چاہیے
تھا۔اور پاکستانی باشندے رعایا نہیں عوام سمجھے جاتے ۔ ہمارے حکمرانوں کو
یہ سمجھ لینا چاہیے تھا کے کون کون ہمارے ملک پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے
دیکھتا ہے ۔میں آج امریکہ کے ساتھ ساتھ ساری دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا
ہوں پاکستانی دہشتگرد نہیں اور جودہشتگر دہے وہ پاکستانی نہیں پھر اگر کوئی
پاکستان کی سلامتی کوچیلنج کرتا ہے تو قوم ہر وقت تیار ہے ۔تاریخ گواہ ہے
کہ مسلمان جب جب اﷲ کے دین کی سربلندی کے لیے میدان میں اترے تو تعداد میں
دشمن سے کم ہو نے اور جنگی سازو سامان کم ہونے کے باوجود اﷲ تعالیٰ کی مدد
سے سرخرو ہوے ۔کیونکہ مسلمانوں کو صرف اﷲ کی رضا حاصل کرنا مقصود ہے اس لیے
مسلمان کسی پر بھی جنگ مسلط نہیں کرتے ۔ساری کائنات میں اسلام سے زیادہ امن
پسند کوئی مذہب نہیں ۔لیکن کفار کو اس بات کا ڈر ہے کہ کفر مٹ جائے گااورحق
باقی رہنے والا ہے ۔کفاراﷲ کے حکم سے خائف ہو کرمسلمانون کی نسل کشی کرتے
آئے ہیں ان کے نزدیک اگرمسلمانوں کی تعداد کم ہو جائے گی تو کون کفرکونیست
ونابود کرے گا ۔لیکن یہ وعدہ تو خالق کائنات کا ہے ۔اور اس ذات پاک کو کسی
کی ضرورت نہیں پڑتی کچھ بھی کرنے کے لیے۔اسلام دشمن کچھ بھی کرلیں اﷲ کا
دین ہی باقی رہے گا اور مسلمان تمام تر مشکلات کے باوجود سرخرو ہونگے
انشااﷲ ۔
دوستو یہ تو بتاؤ غور کب فرماؤ گے؟
ہے ابھی کچھ و قت ہر بڑا کر جاگ اٹھو
فنا پھر خوابوں ہی خوابوں میں فنا ہو جاؤ گے |
|