روزنامہ دنیا کے زیر اہتمام
’’پولیوکے عالمی دن‘‘کے حوالے سے منعقدہ خصوصی فورم *
عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں پاکستان کو
دنیا بھر میں رپورٹ ہونے والے 80فی صد پولیو کیسز کا ذمے دار قرار دیا گیا
ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پولیو کی یہ صورتحال بچوں کو
ویکسین کی عدم فراہمی کے باعث پیدا ہوئی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا
کہ قبائلی علاقوں میں آج بھی بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے پر پابندی ہے اور
انسدادِ پولیو ٹیموں کو سیکیورٹی کے لحاظ سے بھی شدید خدشات کا سامنا ہے
ہیں۔ جہاں2012سے کالعدم تنظیموں نے پولیو ویکسی نیشن پر پابندی کررکھی ہے۔
پاکستان میں رواں سال پولیو کے کیسز میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے
اور نو ماہ کے دوران یہ تعداد 207 سے تجاوز کرچکی ہے جس سے گزشتہ 14 سال کا
ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ محکمہ صحت کے حکام کے مطابق ان 207 کیسز میں سے 43 ایسے
کیسز ہیں جو صوبہ خیبر پختونخوا سے رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ رواں سال سب سے
زیادہ کیسز وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں ریکارڈ ہوئے، جہاں
پر اس معذور کردینے والی بیماری سے متاثرہ افراد کی تعداد 136 سے تجاوز
کرچکی ہے۔ملک میں پولیوکے پھیلاؤ کی روک تھام اور بچوں کو اس خطرناک بیماری
سے محفوظ کرنے کے لیے مختلف شہروںمیں کئی بار انسدادِ پولیو مہم شروع کی
گئی، لیکن بچوں کو گھر گھر جاکر قطرے پلانے والی فیلڈ ٹیمیوں پر بڑھتے ہوئے
حملوں اور سیکیورٹی خدشات کے باعث کئی گھرانوں تک رسائی ممکن نہیں۔گزشتہ
دنوں ملک میں پولیو کی صورت حال پر وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف
نے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو بھیجے گئے خط میں اس خدشے کا اظہار کیا
ہے کہ اگر پولیو وائرس کے پھیلاؤ کو نہ روکا جا سکا تو ملک میں پولیو کے
مریضوں کی تعداد دس گنا تک بڑھ سکتی ہے۔اس مراسلے میں کہا گیا کہ پاکستان
دنیا میں پولیو سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے اور رواں برس یہاں پولیو کے
نئے مریضوں کی تعداد 220 سے تجاوز کر چکی ہے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ پاکستان
دنیا کے ان تین ممالک میں شامل ہے جہاں اب بھی پولیو کا وائرس پایا جاتا ہے۔
صوبائی حکام کے نام خط میں وزیراعظم نے دنیا سے پولیو کے خاتمے کے لیے انڈی
پینڈینٹ مانیٹرنگ بورڈ کی جانب سے پولیو کو عالمی ایمرجنسی قرار دینے پر
بھی بات کی اور پاکستان پر سفری پابندیوں کا حوالہ بھی دیا۔ خیال رہے کہ
سنہ 2014 کے آغاز پر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت نے پولیو کے مرض کے
پھیلاؤ کی وجہ سے پاکستانیوں پر بیرون ملک سفر کے حوالے سے پابندیاں عائد
کی تھیں۔
سئلے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان
تین ممالک میں سے ہیں جہاں اب بھی پولیو کا وائرس پایا جاتا ہے لیکن جہاں
افغانستان اور نائجیریا میں اس سال پولیو کے نئے مریضوں میں کمی آئی ہے
وہیں پاکستان میں ایک برس میں پولیو کے نئے مریضوں کی تعداد کا 14 سال
پرانا ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا ہے۔ پاکستان میں پولیو کے مریضوں کی تعداد میں
اضافے کی وجہ ملک کے چند مخصوص حصوں میں والدین کی جانب سے قطرے پلوانے سے
انکار اور پولیو کے خلاف چلائی جانے والی مہم کے عملے پر بڑھتے ہوئے حملوں
کو قرار دیا جاتا ہے۔ دسمبر 2012 سے اب تک پولیو مہم میں شریک ہیلتھ ورکرز
اور ان کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں پر حملوں میں 60 سے زیادہ افراد
جا بحق ہو چکے ہیں۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے، اسے ’’مِنی پاکستان‘‘
کہا جاتا ہے، یہاں دیگر ملکی چیلنجز کی طرح پولیو کا مسئلہ بھی اسی شدت کے
ساتھ موجود ہے جس طرح پورے ملک میں یہ آئندہ نسلوں کی تندرستی کے لیے چیلنج
بنا ہوا ہے۔ اس اہم قومی مسئلے پر حقائق سے آگاہی اور ممکنہ حل اور تجاویز
کے لیے روزنامہ دنیا نے حسب روایت ایک فورم کا اہتمام کیا۔ روزنامہ
دنیامختلف موضوعات پر فورم منعقد کرتا رہتا ہے جس میں سیاسی ،سماجی ،معاشی
مسائل پر ماہرین اور متعلقہ افراد کی آرا سامنے لائی جاتی ہیں، تاکہ نہ صرف
ان مسائل کے بارے میں عوام کو آگاہی فراہم کی جائے بلکہ مسائل کے حل کے لیے
تجاویز بھی سامنے لائی جائیں۔ ’’ پولیو کا خاتمہ: کیوں اور کیسے؟؟
اس حوالے سے حکومت ، فلاحی اور سماجی ادارے کیا اقدمات کررہے ہیں، مسائل
اور امکانات کیا ہیں؟ اور ان جیسے دیگر سوالات پر گفتگو کی گئی ۔اس نشست
میں جہاں پولیو ویکسی نیشن کے حوالے سے مختلف چیلنجز پر بات کی گئی وہیں
مختلف تجاویز بھی سامنے لائی گئیں۔ ملکی سطح کے اس مسئلے کے زیادہ تر پہلو
یکساں نوعیت رکھتے ہیں۔ اس لیے اس گفتگو کو قومی تناظر میں دیکھا جائے تو
قومی سطح پر مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے میں اس کے کئی نکات مددگار ثابت
ہوسکتے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ ہماری آئندہ نسلوں کو جسمانی معذوری سے
محفوظ رکھنے کے لیے بہ حیثیت قوم ہم نتیجہ خیز جدوجہد جاری رکھیں گے، اس
مذاکرے کی روداد پیش کی جارہی ہے۔ دنیا : ملک میں سامنے آنے والے پولیو
کیسز کی وجہ سے آج دنیا بھر میں قومی وقار مجروح ہورہا ہے ،یہ واحد مہم ہے
جس میں وفاقی ،صوبائی، ضلعی اوردیگر اداروں میں رابطہ اور کام میں کوئی
پریشانی نہیں ،حالانکہ دوسرے پروگرامز میں تبدیلی ہوتی رہی ہے لیکن یہ واحد
مہم ہے جو مستقل جاری ہے ،اسی وجہ سے پولیوم مہم میں یونیسیف اور ڈبلیو ایچ
او کے ادارے پاکستان سے کافی پر امید ہیں ،خاص طور پر کراچی ضلعی انتظامیہ
نے بڑی محنت کی ہے۔ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کا پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ بڑا
اچھا کورڈینیشن ہے ،حالاںکہ سیکیورٹی کے مسائل سامنے آتے رہے ہیں لیکن اس
کے باوجود پولیو مہم چل رہی ہے ،اس مہم کو مستقل سپورٹ کیا جارہا ہے اور
قوم نے تہیہ کیا ہواہے کہ معاشرے کو پولیو فری بنانا ہے اور اپنے بچوں کا
مستقبل محفوظ کرنا ہے۔ ایسی صورت حا ل میں تمام ہی متعلقہ اداروں کی کوششیں
قابل قدر ہیں، اس سلسلے میں صرف زبانی جمع خرچ نہیں کیا گیا بلکہ ٹارگٹ بھی
حاصل کیے ہیں۔ ایک مرتبہ ڈبلیو ایچ او کے نمائندے کا فون آیا کہ آپ سے
پولیو کے حوالے سے میٹنگ کرنی ہے، جس میں ڈپٹی کمشنر ،ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ اور
دیگرادارے بھی ہوں۔انہوں نے پولیو مہم کیلئے نئی حکمت عملی پر بات کی ،
سیکیورٹی کے جو مسائل ڈیپارٹمنٹ اورضلعی انتظامیہ کو آتے ہیں وہ نہ ہوں ،اسکے
علاوہ بھی بہتر طریقے نکالیں،جس کا انہوں نے نیا نام ’’ری وائز اسٹریٹجی
فور پولیو ایری ڈی کیشن‘‘ دیا ہے ،جس کی مدد سے ایک سال کے اندر پولیو کا
خاتمہ کیا جاسکے گا-
ملک کے ممتاز علما ء کر ام نے اپنے طور پر پولیو ویکسین کے نامور ڈاکٹرز
اور ماہرین طب سے تحقیق کروائی ہے، جس کے بعد یہ ثابت ہوچکاہے کہ پولیو
ویکسین میں انسانی صحت کیلئے کوئی مضر اشیاء شامل نہیں ہے اور یہ ویکسین
بچوں کو زندگی بھر کی معذوری سے بچانے کے علاوہ دیگر کئی بیماریوں سے بچاؤ
کا سبب ہے ، ویکسین پلانے والی ٹیموں پر حملے شرعاً حرام اور اس جرم کے
مرتکب افراد گناہ کبیرہ کے مرتکب ہیں۔ ماضی میں علماء کرام کے تحقیق کرنے
سے پہلے پولیو ویکسین پلانے والی ٹیموں کے خلاف عام عوام بالخصوص دیہی
علاقوں میں خدشات پائے جاتے تھے لیکن نوبت یہاں تک نہیں پہنچی تھی کہ کبھی
ان ٹیموں پر حملے ہوئے ہوں۔ اب عوام نے یہ پختہ یقین کرلیاہے کہ پولیو
ٹیموں کے حوالے سے مغربی ایجنڈے پر کام کرنے یا جاسوسی کرنے کا جو تاثر تھا
وہ غلط ہے۔اس کے تدارک کے لئے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے
افراد کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ حکومت پاکستان سمیت پولیو کے خلاف عالمی سطح
پر کام کرنے والی تنظیموں کو چاہیے کہ عوام کو ترغیب دینے اور آگاہی مہم کے
لیے کام کرے بنگلا دیش میں پندرہ سال پہلے پولیوکا خاتمہ ہوچکا ہے ،انہوں
نے تین گروپ بنائے اور کرفیو لگا کر پولیو مہم چلائی حالانکہ اس وقت ان کی
شرح خواندگی زیادہ تھی نہ میڈیا سرگرم ،صرف ایک ویکسین تھی پانچ بیماریوں
کیلئے اب تو نو بیماریوں کی ویکسین ہے ۔اسی طرح اگر پاکستان میں تین اچھی
پولیو مہم ہوجائے تو پولیو کا خاتمہ ممکن ہے-
ملک بھر میں سیاسی ماحول گرم ہے جہاں پر مختلف نعرے بازیاں کی جارہی ہے
وہیں سیاسی قیادت کو چاہئے کہ سب مل کر پولیو کے خاتمہ کے لئے ’’گو پولیو
گو‘‘کا نعرہ لگائیں تاکہ اس مرض کا خاتمہ ملک بھر سے ہوسکے اور ہمارے
مستقبل کے معمار تندرست ہوں۔
پولیو وائرس پہلے خیبر پختونخوا میں تھا، آئی ڈی پیز کے ذریعے لوگ کراچی
آئے اور ایک جگہ نہیں مختلف علاقو ں میں رہے ، جتنے بھی گٹر کے نمونے لیئے
جارہے ہیں اس میں وائرس پوزیٹو آرہا ہے، ان متاثر علاقوں میںبھی نالہ ہے جس
سے اس کے ہونے کے امکانات زیادہ ہیں،ایک نالہ نیو کراچی اور گڈاپ ٹاؤن کے
درمیان ہے جس کی وجہ سے ماحول میں وائرس مثبت ہونے کے امکان تو ہیں، اس لئے
پورا کراچی گھرا ہوا ہے کسی بھی ٹاؤن میں وائرس ہوسکتا ہے،
پولیو کے خاتمے کے لئے ہمارے ورکرزاور ویکسی نیٹر بغیر پولیس کے بھی جاتے
ہیںاوراپنا فرض سمجھ کر کام کرتے ہیں،کچھ علاقوں میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے
جو کہتا ہے یہ پولیو وائرس کا قطرہ نہیں خاندانی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ یہ
قومی مسئلہ ہے اس کے خاتمے کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہے،اس کے لئے اپنی
پالسیاں بنانی ہوں گی ۔کسی بھی ملک کو پولیو فری کرنے کیلئے دوسال تک کوئی
کیس نہ ہو تو پولیو فری ہوجاتاہے،جیسا بھارت نے کیا پہلے بھارت میں سب سے
زیادہ کیسز ہوتے تھے۔ |