(انسانوں سے زیادہ دنیا پر
کتابوں نے حکومت کی ہے)
مشہور معقولہ ہے ریڈرز ہی لیڈرز ہوتے ہیں۔یہ جملہ کتابوں کی اہمیت کو واضح
کرتا ہے۔انٹرنیٹ کی آمد سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ لوگوں کے پاس اب
کتا ب پڑھنے کا وقت نہیں رہا۔حالانکہ انسانی شعور کے ارتقاء میں "کتابوں"نے
بنیادی کردار ادا کیا ہے۔دنیا جب لکھنے کا فن سے آشنا ہوئی تو درختوں کے
پتوں ،چمڑے اور پتھروں پر الفاظ کشید کر کے کتابیں لکھنے کا کا م شروع
کیا۔۔۔یہی وجہ ہے کہ جوں جوں انسانی تہذیب نے ترقی کی توں توں کتاب نے بھی
ارتقاء کی منزلیں طے کیں۔درختوں کی چھال سے لیکر پرنٹنگ پریس اور پھر ای
بکس تک کا سفر اسی سلسلے کی داستاں ہے۔کتاب کی ابتدائی تاریخ پر اگر نظر
ڈالیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ بعض مورخین کے مطابق دنیا کی پہلی کتاب چین
میں لکھی گئی جس کا نام ڈائمنڈ سترا تھا اور بعض کا خیال ہے کہ مصر کی
"الاموات "ہے۔جو برٹش میوزیم لائبریری میں محفوظ ہے۔
کتابوں کے بارے میں بہت سے اقوال مشہور ہیں جیسا کہ لباس بے شک پرانا پہنو
مگر نئی کتابیں ضرور پڑھو۔
اچھی کتاب کا انتخاب کیسے کیا جائے؟
یہ ایک مشکل فن ہے مگر پریکٹس اور تجرنے کے بعد انسان کے اندر یہ صلاحیت
پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ اچھی کتابوں کا انتخاب کر سکے۔اپنے اساتذہ اور سنیرز
سے رائے بھی لی جا سکتی ہے۔بک اسٹال اور لائبریریوں کا وزٹ کیا کریں جو
اچھی کتابوں سے آگاہی دے گا۔انٹرنیٹ بھی اس سلسلے میں خصوصی کردار ادا کر
سکتا ہے۔اور سب سے بہتر یہ کہ اپنی پسند اور اپنی تاریخ کے پیروز کی زندگی
کا مطالعہ ضرور کریں کہ وہ کیسے کامیاب ہوئے؟سیلف ہیلپ پر کتابیں ضرور
پڑھیں۔
کتاب سے استفادہ کرنے کا طریقہ کار:
کتاب پڑھنا اور اس سے استفادہ کرنا ایک فن ہے۔کتاب کا صرف مطالعہ کر لینا
ہی ضروری نہیں ہوتا بلکہ اس سے فائدہ اٹھانا اصل بات ہے۔مشہور صحافی رضوان
رضی المعروف دادا جی کہتے ہیں کہ کتاب کو تین بار پڑھیں۔ایک بار سسری طور
پر دوسری بار زبان کے چٹخارے کے لئے اور تیسری بار اصل موضوع اور مضمون سے
آشنائی حاصل کرنے کے لئے۔
کتاب پڑھتے ہوئے اس کے ضروری نوٹس لیتے جائیں اور اندر لائن کرتے جائیں۔اور
جو کچھ سیکھا اور جانا ہے اس کو عمل میں ضرور لائیں۔وہ علم وبال بن جائے گا
جس پر عمل نہیں ہوتا۔
جو کچھ پڑھا اور سیکھا ہے اس کو کسی دوست سے شئیر ضرور کریں یہ بھی آپ کے
علم کو پختہ کرنے کا سبب بنے گا اور آپ بھولیں گے نہیں۔
قاسم علی شاہ جو پاکستان کے معروف ٹرینر ہیں۔انھوں نے اپنی کتاب "کامیابی
کا پیغام"میں کتابوں کی ایک لسٹ دی ہے۔جو ضرور پڑھنی چاہئے۔
قرآن مجید وہ بھی سمجھ کے(ہو سکے تو اصل عربی ٹیکسٹ کو سمجھنے کی مہارت
حاصل کریں)
حدیث کی کتب
سیرت کی کتب(الرحیق المختوم از صفی الرحمٰن مبارک پوری،عکس سیرت از سیارہ
ڈائجسٹ،محمد عربی،پیغمر اسلام از ڈاکٹر حمیداللہ)
صحابہ اکرام کی کتابیں
اچھے مذہبی مفکرین کی کتب
واصف علی واصف کی کتابیں
کامیاب لوگوں کی سوانح عمریاں
سیلف ہیلپ کی کتابیں
اولیائے اکرام کی کتابیں
اقبال،رومی،رازی اور مسلم ممفکرین کی کتابیں
اور میری ناقص رائے کے مطابق عمیرہ احمد کے ناول خصوصا
'پیر کامل"نمرہ احمد کا ناول "جنت کے پتے"اور مصحف،ابو یحیٰ کی کتابیں "جب
زندگی شروع ہو گی"اور قسم اس وقت کی"نیل کا مسافر ایسی کتابیں ہیں جو آج کے
طالب علم کی لائبریری اور مطالعہ میں ضرور ہونی چاہیے۔
کتاب اور علم دوستی معاشی خوشحالی اور معاشرتی امن کی ضامن ہے۔ تاریخ بتاتی
ہے کہ جس قوم نے علم و تحقیق کا دامن چھوڑدیا، وہ پستی میں گر گئی۔ مسلم
اُمّہ کا زوال اِس کی واضح مثال ہے۔کتاب سے دوستی کیجےاور انے والی نسلوں
کو اس سے ضرور متعارف کروائیے۔یونانی ڈرامہ نگار یوری پیدس ایک جگہ لکھتا
ہے جو نوجوان کتابوں کے مطالعہ سے اعراض کرے وہ ماضی سے بے خبر اور مستقبل
کے لئے مردہ ہوتا ہے۔
ابو عبیدہؒ کہتے ہیں: مہلب نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: ”ارے
میرے بیٹو! بازاروں میں بے مقصد نہ گھوما کرو۔ اگر جانا ہو تو صرف اسلحہ
ساز کے پاس جانا یا کتب فروش کے پاس۔
پڑھنے کے فوائد:
پڑھنا غم اور بے چینی کا علاج ہے۔
پڑھنے سے معلومات میں اضافہ اور دماغ میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔
پڑھنے والا زمانے کے حالات اور اس کے تقاضوں سے باخبر رہتا ہے۔
پڑھنے سے دوسروں کے تجربات کا پتہ چلتا ہے جو ہمیں آئندہ زندگی میں کام آتا
ہے۔
کتابوں سے دوستی بہت سی برائیوں سے محفوظ رکھتی ہے۔اور وقت بھی بہتر طور پر
گزر جاتا ہے۔ |