ہم سے خوش نصیب تو دھوبی کا بیٹا نکلا
(mohsin shaikh, hyd sindh)
محبت کائنات کا سب سے خوبصورت
اور حسین رشتہ ہے، کائنات کے سارے رنگ محبت سے ہی وابستہ ہے، اللہ نے محبت
کو ایک نہایت ہی پاکیزہ رشتہ بنایا ہے، محبت اگر سچی اور پاکیزہ ہوں تو
عبادت بن جاتی ہے، محبت ایک احساس ہے، محبت ایک جذبے کا نام ہے، محبت کو
جنون کہا جائے تو بےجا نہیں ہوگا، محبت اگر جنون کی حد کو چھو جائے تو اسے
عشق کہتے ہیں، عشق دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک عشق مجازی اور دوسرا عشق حقیقی
کہلاتا ہے، عشق مجازی دو فریق کے درمیان ہونے کو کہتے ہیں، اور عشق حقیقی
وہ ہے، جو رب کریم اور بندے کے درمیان ہوں ، محبت جس کے دل میں ہوں، اسے
سدا شاد و آباد رکھتی ہیں-
انسان جب دنیا میں پیدا ہوتا ہے، تو ہر چیز سے نا آشنا ہوکر بھی محبت جیسے
جذبے سے ضرور شناسا ہوتا ہے، جو محد سے لے کر لحد تک اس کے ساتھ رہتا ہے،،،
یہ اٹل حقیقت اپنی جگہ مگر کہیں نہ کہیں اس محبت کو نفرتوں اور حالات کے
تیز و تند تھپیڑوں کا کا مقابلہ ضرور کرنا پڑتا ہے، محبت کے حوالے سے ایک
سچا قصہ آپ کے نظر کرتا ہوں۔ مرزا مظہر جان جاناں ایک مشہور صوفی بزرگ تھے
، وہ اکثر ایک جملہ کہا کرتے تھے کہ ہم سے اچھا خوش نصیب تو دھوبی کا بیٹا
نکلا، ہم سے تو اتنا بھی نہ ہوسکا،،، یہ کہتے اور غش کھاجاتے۔ ایک دن انکے
مریدوں نے پوچھ لیا کہ حضرت یہ دھوبی کے بیٹے والا قصہ کیا ہے؟
آپ نے فرمایا ایک دھوبی کے پاس محل سے کپڑے دھلنے آیا کرتے تھے، اور وہ
دونوں میاں بیوی کپڑے دھو کر پریس کرکے واپس محل پہنچا دیا کرتے تھے، انکا
ایک بیٹا بھی تھا، جو جوان ہو کر اپنے ماں باپ کے ساتھ کپڑے دھونے میں انکا
ہاتھ بٹانے لگا، محل سے آنے والے کپڑوں میں شہزادی کے کپڑے بھی آتے تھے، جن
کو دھوتے دھوتے وہ شہزادی کے نا دیدہ عشق میں مبتلا ہوگیا، محبت کے اس جذبے
کے جاگ جانے کے بعد اس نوجوان کے اطوار تبدیل ہوگے، وہ شہزادی کے کپڑے الگ
کرتا انہیں خوب اچھی طرح دھوتا اور پھر پریس کرکے انہیں ایک خاص نرالے
انداز میں تہہ کرکے رکھتا، یہ سلسلہ چلتا رہا آخر ماں نے اس تبدیلی کو نوٹ
کیا، اور دھوبی کو سارا ماجرا سنایا، تو دھوبی نے کہا کہ یہ لڑکا سارے
خاندان کو مروائے گا، یہ تو شہزادی کے عشق میں مبتلا ہوگیا ہے-
دھوبی نے بیٹے کے کپڑے دھونے پر پابندی لگا دی، ادھر لڑکا محبت کے بخار میں
زیر اثر محبوب کی خدمت بجا لاتا تھا۔ محبت کا بخار چڑھتا رہا، اور لڑکا اس
خدمت کے ہٹائے جانے کے بعد بیمار پڑگیا، اور چند دن کے بعد فوت ہوگیا ۔
ادھر کپڑوں کی دھلائی اور تہہ بندی کے انداز میں تبدیلی ہوئی تو شہزادی نے
فورا دھوبن کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ میرے کپڑے کون دھوتا تھا، دھوبن نے
جواب میں کہا کہ میں دھوتی تھی، شہزادی عالیہ نے کہا کہ اس سے پہلے کون
دھوتا تھا، دھوبن نے پھر وہیی جواب دیا کہ میں دھوتی تھی، شہزادی نے کہا کہ
کپڑے تہہ کرکے دکھائو، دھوبن سے لڑکے کے انداز میں کپڑے تہہ نہیں ہوسکے، تو
شہزادی نے دھوبن کو ڈانٹا کہ تم جھوٹ کیوں بولتی ہوں، سچ سچ بتائو ورنہ سزا
ملے گی-
اب دھوبن کے پاس کوئی رستہ نہیں رہا، اور دوسرا بیٹے کے غم میں دل بھرا ہوا
تھا۔ وہ زارو قطار رونے لگی اور سارا ماجرا شہزادی کو سنا دیا، شہزادی یہ
سب سن کر سکتے میں آگئی، شہزادی نے فورا سواری تیار کرنے کا حکم دیا، اور
شاہی بگھی میں سوار ہوکر پھولوں کا ٹھوکرا تھام کر مقتول محبت کی قبر پر
سارے پھول چڑھا دیے، زندگی بھر کے لیے شہزادی نے اپنا معمول بنا لیا، اور
ہر سال وہ دھوبی کے بیٹے کی قبر پر پھول چڑھانے ضرور جاتی، یہ واقعہ سنانے
کے بعد مرزا مظہر صوفی نے کہا کہ اگر ایک انسان سے بن دیکھے محبت ہو سکتی
ہے، تو پھر اللہ سے بن دیکھے محبت کیوں نہیں ہوسکتی، ایک انسان سے محبت اگر
انسان کے مزاج میں تبدیلی لا سکتی ہے، اور وہ اپنی پوری صلایت محبت سے کپڑے
دھونے میں بروئے کار لا سکتا ہے، تو کیا ہم لوگ اللہ سے اپنی محبت کو اسکی
نماز پڑھنے میں دل و جان سے استعمال کیوں نہیں کرسکتے-
مگر ہم بوجھ اتارنے کی کوشش کرتے ہیں، اگر شہزادی محبت سے تہہ شدہ کپڑوں کے
انداز کو پہچان سکتی ہے، تو رب کریم بھی محبت سے پڑھی گئی نماز کو کیسے
نہیں قبول کریں گے، پھر فرماتے کہ وہ دھوبی کا لڑکا اس وجہ سے کامیاب رہا
کہ اسکی محبت کو قبول کرلیا گیا، جبکہ ہمارے انجام کا کچھ پتہ نہیں کہ
ہماری نماز قبول ہوگی یا ہمارے منہ پر مار دی جائے گی، رب کریم جس طرح ہم
سے ایمان نماز اور روزے کا مطالبہ کرتا ہے اپنے بندوں سے اسی طرح محبت کا
تقاضا بھی کرتا ہے، یہ کوئی مستعجب نہیں فرض ہے، مگر ہم غافل ہیں، پھر
فرماتے اللہ کی قسم اگر یہ نمازیں نہ ہوتی تو اللہ سے محبت کرنے والوں کے
دل اسی طرح پھٹ جاتے جس طرح دھوبی کے لڑکے کا دل پھٹ گیا تھا، یہ ساری رات
کی نمازیں ایسے ہی نہیں پڑھی جاتی محبت اور جذبہ ہوتا ہے، جو ہمیں رب کریم
کی جانب لے کر جاتا ہے، یہ نسخہ اللہ نے اپنے نبی کے دل کی حالت کو دیکھ کر
بنایا تھا، |
|