پی ٹی آئی جلسوں میں اشتعال انگیز تقاریر....عوامی حلقوں میں تشویش
(عابد محمود عزام, karachi)
کئی ماہ سے ملک سیاسی عدم
استحکام اور کنفیوژن کا شکار ہے۔ چودہ اگست سے حکومت مخالف تحریک کی جانب
سے دیے گئے دھرنوں میں روز نئے اعلانات سے موجودہ کنفیوژن اور تشویش میں
اضافہ ہوا ہے، جس سے ملک پر بے یقینی و بے چینی کے چھائے بادل مزید گہرے
ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ حکومت مخالف جماعت تحریک انصاف نے اپنے تین ماہ کے
دھرنوں میں حکومت کو گرانے اور وزیر اعظم سے استعفا لینے میں ناکامی کے بعد
ملک میں اشتعال سے بھرپور حکومت مخالف جلسوں کا سلسلہ شروع کیا، جن میں پی
ٹی آئی کی طرف سے اپنے مخالفین کو بلا دھڑک اشتعال انگیز لہجے میں تنقید کا
نشانہ بنایا اور 30 نومبر کو اسلام آباد میں فانل راﺅنڈ کھیلنے کے لیے جمع
ہونے کی کال بھی دی گئی ہے۔ پی ٹی آئی کے جلسوں میں معمول سے بڑھ کر اشتعال
انگیزی دیکھنے میں آرہی ہے اور عمران خان کے اتحادی شیخ رشید احمد کا لب
ولہجہ پہلے سے کہیں زیادہ تلخ، دھمکی آمیز اور غیر مصالحانہ ہے۔ عمران خان
کا کہنا ہے کہ 30نومبر کو اسلام آباد میں فیصلہ کن جنگ ہوگی، ساتھ دینے کے
لیے سب نکلیں۔جبکہ ننکانہ صاحب میں عمران خان کی موجودگی میں شیخ رشید احمد
کا کہنا تھا کہ لوگو :عمران خان کی کال پر نکلو چور ڈاکو ٹولے سے نجات حاصل
کرو، جلاﺅ گھیراﺅ کرو، مارو یا مرجاﺅ اورانسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت
کی جانب سے عمران خان اور طاہر القادری کو اشتہاری قرار دے کر ان کے ناقابل
ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جانے کے بعد شیخ رشید کا کہنا تھا کہ اگر
عمران خان کو گرفتار کیاتو میں پورے ملک میں آگ لگا دوں گا۔ تحریک انصاف کے
ننکانہ جلسے میں اشتعال انگیز تقریر میں عوام کو حکومت کے خاتمے کے لیے
ابھارنے اور ریاستی اداروں کے درمیان منافرت پھیلانے کی کوشش پر شیخ رشید
احمد کو متعدد محکموں نے نوٹس بھجوا دئے اور شیخ رشید کے مقابلے میں الیکشن
لڑنے والے اکمل مرزا نے ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کے لیے تھانہ
کینٹ میں درخواست جمع کرائی۔ مبصرین کے مطابق اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کے
ترجمان نے کہا ہے کہ شیخ رشید کے بیانات ان کے ذاتی ہیں اور اس کو تحریک
انصاف کی پالیسی نہ سمجھا جائے، لیکن شیخ رشید کے بیانات کو پی ٹی آئی اور
عمران خان سے الگ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا، کیونکہ شیخ رشید نے اشتعال
انگیز بیانات پی ٹی آئی کے جلسوں میں کیے ہیں، ان بیانات کے وقت عمران خان
بھی موجود تھے،انہوں نے اپنے جلسوں میں اس قسم کے بیانات دینے سے نہیں روکا،
جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان بیانات کے حوالے سے شیخ رشید اور عمران خان کا
نظریہ ایک ہے، جبکہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ میں عمران خان کے ساتھ ہوں،
ہمارا ساتھ ٹوٹ نہیں سکتا۔ عمران خان نے اپنے جلسے میں اشتعال انگیزی کے
ساتھ حکومت پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ دھرنے کو ناکام بنانے کے لیے 270
کروڑ روپے آئی بی کو دیے گئے اور اس پیسے سے صحافتی شخصیات کو خریدنے کی
کوشش کی گئی اور 30 نومبر کے خوف سے مزید پیسہ دیا جا رہا ہے۔ ڈی جی آئی بی
آفتاب سلطان نے عمران خان کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان
کے الزامات بے بنیاد اور غلط بیانی پرمبنی ہیں، آئی بی کے ایک ایک پیسے
کاحساب رکھا جاتا ہے، ایک پیسہ بھی کسی کو نہیں دیا اور نہ ہی کسی سے لیا،
عمران خان ایک قومی ادارے کو سنی سنائی باتوں پر بدنام نہ کریں۔ پی ٹی آئی
کے جلسوں میں اشتعال انگیز تقاریر کے حوالے سے وزیر اعظم کے ترجمان مصدق
ملک نے کہا ہے کہ ملک میں دھرنا سیاست کو پرون چڑھانے والی جماعت تحریک
انصاف کے جلسوں میں تقریریں کرتے ہوئے لوگ اشتعال انگیزی پھیلا رہے ہیں،
انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ملک میں کوئی آ ئین اور قانون بھی نافذ العمل ہے۔
مبصرین کے مطابق دھمکی آمیز بیانات کا مقصد حکومت کی اقدامی صلاحیت کو
جانچنا اور اشتعال دلاکر کسی غیر سیاسی اور غیر جمہوری اقدام پر اکسانا ہے،
تاکہ محاذ آرائی بڑھے۔ ظاہر ہے کہ گرما گرمی ہلچل اور گہما گہمی اپوزیشن کے
مفاد میں اور شاید یہی عمران خان کا مقصد ہے۔
دوسری جانب جہلم میں اتوار کو پاکستان تحریک انصاف کی ریلی پر فائرنگ میں
نو افراد زخمی ہوئے۔ پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگ ن نے ایک دوسرے پر
فائرنگ کا الزام عاید کیا۔ جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب نے پی ٹی آئی کی ریلی پر
فائرنگ کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی پی او جہلم سے رپورٹ طلب کی اور وفاقی وزیر
اطلاعات نے جہلم میں پاکستان تحریک انصاف کی ریلی پر فائرنگ کی مذمت کرتے
ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف اس واقعے کی ذمہ داری مسلم لیگ نواز پر
ڈال کر اپنا مذاق نہ اڑوائے۔ حکومتی حلقے جہلم میں ہونے والی فائرنگ کو بھی
ملک میں اشتعال انگیزی پھیلانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ وفاقی وزیر
اطلاعات ونشریات پرویز رشید کہتے ہیں کہ اگر 30نومبر کو کچھ ہوا تو عمران
خان کو اس کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی۔ عمران خان نے 30 نومبر کو دہشت گردی
کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ ان کی اشتعال انگیز تقاریر پر کارکنان سرکاری
عمارتوں پر حملہ آور ہوئے، فوٹیج موجود ہےں۔ چیئرمین تحریک انصاف نے پی ٹی
وی پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ شیخ رشید کی تقریر سے ملک میں فساد ہوا تو ذمہ
دار عمران خان ہوں گے۔جبکہ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نوازشریف اور وزیراعلیٰ
شہبا زشریف نے تحریک انصاف کے30 نومبر کے احتجاج کے اعلان کے بعد پیدا ہونے
والی صورتحال اور اس سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی طے کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے
کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی، جو بھی قانون
ہاتھ میں لے گا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ مبصرین کے مطابق
30نومبر کو عمران خان اسلام آباد میں بڑے اجتماع کے ذریعے حکومت کے خلاف
آخری اور فیصلہ کن راﺅنڈ کھیلنے کا اراہ رکھتے ہیں، انہوں نے یہ کہہ کر
عوام کو چونکا دیا کہ 30 نومبر تک انصاف نہ ملا تو جو کچھ ہوگا اس کا ذمہ
دار میں نہیں حکومت ہوگی، ان کی موجودگی میں شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ
لوگو :عمران خان کی کال پر نکلو اس کرپٹ، بے ایمان، لٹیرے، کمی کمین، چور
ڈاکو ٹولے سے نجات حاصل کرو، جلاﺅ گھیراﺅ کرو، مارو یا مرجاﺅ، عمران خان
اور شیخ رشید احمد کے مخالفین ان تقریروں کو دونوں لیڈروں کی مایوسی اور 30
نومبر کی کال کے حوالے سے ممکنہ ناکامی کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں، تاہم
سنجیدہ فکر حلقے تحقیقاتی کمیشن کے حوالے سے حکومت کی بے نیازی اور عمران
خان کے دھمکی آمیز بیانات کو تشویش ناک سمجھتے ہیں، کیونکہ خدشہ یہ ہے کہ
تحریک انصاف کے پرجوش کارکن اور حامی کسی غلط راستے پر چل پڑے تو یہ ملک
وقوم کے لیے نقصان دہ ہوگا۔پی ٹی آئی کی پالیسی کے حوالے سے اتحادی جماعت
جماعت اسلامی بھی تشویش کا شکار ہے۔ امیر جماعت اسلامی نے اسپیکر اسد
قیصرکے توسط سے تحریک انصاف کی قیادت کو پیغام ارسال کیا کہ پی ٹی آئی
چیئرمین عمران خان کی جانب سے 30 نومبر کو احتجاج اور دھرنے کے حوالے سے جو
اعلانات کیے جارہے ہیں، ان سے جماعت اسلامی میں تشویش پائی جاتی ہے۔ ایسے
اشارے مل رہے ہیں کہ تحریک انصاف صوبائی حکومت کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے۔ اگر
تحریک انصاف کی قیادت خیبر پی کے اسمبلی کو تحلیل کرتی ہے تو جماعت اسلامی
اور ان کی راہیں جدا ہوں گی اور جماعت اسلامی اپنے طور پر فیصلے کرے گی۔
جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی راولپنڈی شاخ میں بھی اختلافات کھل کر سامنے
آگئے ہیں۔ پی ٹی آئی عہدیداران نے اس فیصلے کو پارٹی قوانین کی خلاف ورزی
قرار دیتے ہوئے قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین نے رکن
پنجاب اسمبلی اعجاز خان جازی کو راولپنڈی ضلع کے صدر عارف عباسی سمیت دس
عہدیداران معطل ہونے کے بعد قائم مقام صدر بنانے کا اعلان کیا۔ تاہم پی ٹی
آئی پنجاب شمالی کی سیکرٹری جنرل حنا منظور نے ایک پارٹی اجلاس میں اقبال
نیازی کو شمالی پنجاب کا قائم مقام صدر اور چوہدری زبیر کو راولپنڈی کا
قائم مقام صدر مقرر کیا۔ اسی شام عجاز خان جازی نے بھی سیٹلائٹ ٹاﺅن میں پی
ٹی آئی کے دفتر میں ایک اجلاس کا انعقاد کیا، جس میں اسلام آباد میں تیس
نومبر کے جلسے میں لوگوں کی شرکت کے حوالے سے ایک منصوبے کو حتمی شکل دی
گئی، تاہم صرف تین مقامی رہنماﺅں نے اس اجلاس میں شرکت کی۔ پارٹی کے ایک
سنیئر عہدیدار کے مطابق ضلع کے 2300 عہدیداران کو اجلاس میں طلب کیا گیا
تھا، مگر انہوں نے شرکت سے انکار کرتے ہوئے پی ٹی آئی شمالی پنجاب کے سنیئر
نائب صدر کو راولپنڈی کا قائم مقام صدر بنانے کا مطالبہ کیا۔ |
|