کراچی: سرکلر ریلوے کی بحالی....ایک سراب....!
(عابد محمود عزام, karachi)
کراچی ملک کا سب سے بڑا صنعتی
اور تجارتی شہر ہے۔ بدامنی کے بعد اس شہر کا سب سے بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ ہے۔
کراچی میں ماس ٹرانزٹ سسٹم کی غیر موجودگی میں عوام کو ٹوٹی پھوٹی منی بسوں
اور بسوں میں سفر کرنا پڑتا ہے، جبکہ صبح اور شام کے اوقات میں اپنی منزلِ
مقصود تک پہنچنے کے لیے بسوں کی چھتوں پر سفر کرنا بھی ایک معمول ہے۔ کراچی
میں ٹرانسپورٹ کا واحد متبادل اور کچھ حد تک آرام دہ ذریعہ چنگ چی اور آٹو
رکشہ ہیں، لیکن وہ بھی کم فاصلے کے سفر کے لیے موزوں ہیں۔ حکومت سندھ نے
کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسائل کو حل کرنے میں کبھی دلچسپی نہیں لی۔
ٹرانسپورٹ کے مسائل کی وجہ سے کراچی کے عوام انتہائی مشکلات کا شکار ہیں۔
ایک عرصے سے کراچی میں ٹرانسپورٹ کے کئی منصوبے التوا کا شکار ہیں، لیکن
حکومت سندھ ان منصوبوں کی تکمیل کو سنجیدگی سے لے ہی نہیں رہی ہے۔ رواں سال
وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی جانب سے جون کے اختتام تک کراچی کی سڑکوں
پر 36 سی این جی بسیں لانے کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن یہ اعلان بھی ماضی
میں کیے گئے اعلانات کی طرح خام خیالی ہی ثابت ہوا۔ اسی طرح ٹرانسپورٹ کا
ایک اور منصوبہ شہید بینظیر بھٹو ڈیزل بس سروس ہے، جس کے ذریعے سندھ کے بڑے
شہروں کو کراچی سے ملایا جائے گا۔ 34 کروڑ روپے میں سو بسوں کے اس منصوبے
کی منظوری 27مارچ 2012کو دی گئی تھی، لیکن حکومت سندھ کی عدم دلچسپی کو
دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ حکومت سندھ کے تحت چلنے والے ٹرانسپورٹ کے ان
منصوبوں کا بھی وہی حال ہوگا جو سرکلر ریلوے کا ہوا ہے۔ ان حالات میں کراچی
میں ٹرانسپورٹ کے مسائل میں کمی لانے کے لیے کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کی
بحالی امید کی ایک کرن ثابت ہوسکتی تھی، لیکن سندھ حکومت کی جانب سے عدم
دلچسپی کے باعث جاپان کی ڈونر ایجنسی جائیکاکی سرکلر ریلوے کی بحالی کے
منصوبے سے دستبردار ی سے امید کی یہ کرن بھی مدہم ہوگئی ہے۔ ذرائع کے مطابق
حکومت سندھ کی مسلسل عدم دلچسپی کے باعث جائیکا کمپنی نے کراچی سرکلر ریلوے
منصوبے میں کی جانے والی سرمایہ کاری سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
جاپانی ڈونر ایجنسی جائیکا نے 2005ءمیں سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے 2.6
ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔ ذرائع کے مطابق
کراچی سرکلر ریلوے کے پرانے ٹریک جس کی لمبائی 73 کلومیٹر ہے، اس پر
تجاوزات اور رہائشی کالونیاں بن چکی ہیں، جس کے باعث جائیکا حکام کا کہنا
تھا کہ ان گھروں کے رہائشیوں کو متبادل جگہ پر رہائشی یونٹ بنا کر دیے
جائیں، جس کے بعد جائیکا اس منصوبے پر سرمایہ کاری کرسکتی ہے، کیونکہ اس کے
بغیر بین القوامی قوانین اس منصوبے پرسرمایہ کاری کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔
کراچی سرکلرریلوے کی زمین پرتجاوزات خالی کرانے کا ایشو عرصہ دراز سے ایک
معمہ بنا ہوا ہے۔ اس منصوبے کے سلسلے میں وزارت ریلویز کے اعلیٰ حکام کے
مطابق وہ کراچی سرکلر ریلوے کی زمین پر تجاوزات کرکے ساڑھے 4 ہزار گھر
بنانے والوں کو متبادل جگہ پر گھر بنا کر نہیں دے سکتے۔
واضح رہے کہ کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ1969 میں پاکستان ریلوے کی جانب سے
شروع کیا گیا تھا، تاکہ کراچی کے عوام کو ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولتیں فراہم
کی جائیں اور سڑکوں پر سے ٹریفک کے رش کو کم کیا جاسکے۔ اس منصوبے کے لیے
ڈرگ روڈ سے سٹی اسٹیشن تک خصوصی ٹرینیں چلائی گئیں، جس پر سالانہ 60 لاکھ
لوگوں نے سفر کیا، یہ منصوبہ کراچی کے عوام میں بے انتہا مقبول ہوا اور
اپنے آغاز کے اگلے دس سالوں میں یعنی 1970ءسے 1980ءتک کراچی سرکلر ریلوے کے
تحت روزانہ 104 ٹرینیں چلائی جانے لگیں، جس میں سے 80 ٹرینیں اصل ٹریک پر
چلا کرتی تھیں، جبکہ 24 ٹرینیں لوکل لوپ پر چلا کرتی تھیں، تاہم 1990ءکی
دہائی کے آغاز سے ہی ٹرانسپورٹ مافیا نے کراچی سرکلر ریلوے کے خلاف سازشوں
کا آغاز کیا اور مافیا کی سازشوں کے نتیجے میں 1994میں کراچی سرکلر ریلوے
منصوبے کو مالی نقصانات اٹھانا پڑے اور اس منصوبے کی کئی ٹرینوں کو بند
کردیا گیا، جس کے بعد بھی نقصانات کا خاتمہ نہ ہو سکا اور بالآخر یہ
منصوبہ1999ءمیں حکومت کی جانب سے روک دیا گیا۔ اس منصوبے کی افادیت کے پیش
نظر 2005 میں حکومت نے اس منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی
توجاپان نے منصوبے کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر کا آسان قرضہ اور تمام تکنیکی
سہولتیں بھی فراہم کرنے کا اعلان کیا، تاہم اس منصوبے کے خلاف ٹرانسپورٹ
مافیا کی طرف سے ایک بار پھر سازشوں کے تانے بانے بنے جانے لگے۔ اس دفعہ
کراچی سرکلر ریلوے کی زمینوں پر جعلی قبضے کرائے گئے، دور دراز علاقوں سے
لوگوں کو لاکر کراچی سرکلر ریلوے کی زمینوں پر آباد کرایا گیا۔ ستمبر
2009ءمیں حکومت پاکستان نے کراچی سرکلر ریلوے کو از سرِنو بحال کرنے کی
منظوری دی۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے باقاعدہ منصوبہ تشکیل دیا
گیا، جس کے تحت کراچی سرکلر ریلوے مکمل طور پر جاپانی امداد اور تعاون سے
بحال کی جانی تھی، کراچی سرکلر ریلوے بحالی پر آنے والے اخراجات کا تخمینہ
1.53ارب امریکی ڈالر تھا، جو بڑھ کر ڈھائی ارب ڈالر تک پہنچ چکا۔ اس منصوبے
پر جاپان بینک آف انٹرنیشنل کوآپریشن آسان قرض کی صورت میں سرمایہ فراہم کر
نے کا پابند تھا۔ جبکہ اس منصوبے پر کام کاآغاز 2010ءکے آخر تک شروع ہونا
تھا،جو2014ءتک مکمل کر لیا جانا تھا، منصوبے کی تکمیل کے بعد ہر روز سات
لاکھ مسافر سرکلر ریلوے سے سفری سہولت حاصل کر سکتے تھے۔ جاپان کے سرکاری
ادارےJETROکی تحقیقی رپورٹ کے مطابق اس پروجیکٹ کو دو حصوں میں مکمل
کیاجانا تھا، پہلے حصے میں28.3کلومیٹر کی ریلوے لائن بچھائی جا نی تھی، جو
کراچی کینٹ سے گلستان جوہر اور دوسرے حصے میں 14.8کلومیٹر کی ریلوے لائن
گلستان جوہر سے لیاقت آباد تک اس کے علاوہ دوسرے حصے میں 5.9 کلومیٹر لائن
ڈرگ روڈ سے جناح ایئر پورٹ تک یہ لائن زمین کے اندر یا پھر برج کی شکل میں
زمین کے اوپر ڈالی جانی تھی، منصوبے کی تکمیل کے لیے کراچی میں 19 انڈر پاس
اور تین اوور ہیڈ برجز بنانا تھے، جبکہ منصوبے کی تکمیل کے بعد 23 اسٹیشن
بنائے جا نا تھے، جہاں مکمل کمپیوٹرائزڈ ٹکٹنگ کا نظام متعارف کرانا تھا،
کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ کراچی کے عوام کے لیے نہایت مفید تھا، اس سے
ٹرانسپورٹرز کی بلیک میلنگ کے ساتھ جہاں عوام سستے کرائے میں جلد منزل پر
پہنچ سکتے تھے، وہیں اخراجات میں بھی کمی واقع ہو نا تھی، لیکن حکومت سندھ
کی عدم دلچسپی کے باعث یہ منصوبہ ادھورا خواب بن کر رہ گیا ہے۔ جاپان کی
جانب سے یہ کہا جاتا رہا کہ بال پاکستان کے کورٹ میں ہے، لیکن پاکستان میں
اس منصوبے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ حالانکہ وزیر اعظم پاکستان بھی ان
منصوبوں کے تاخیر کا شکار ہونے پر برہمی کا اظہار کر چکے ہیں اور جلد از
جلد ان منصوبوں کو شروع کرنے کا حکم جاری کر چکے ہیں، اس کے باوجود یہ
منصوبہ کھٹائی میں پڑا رہا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ دنیا جانتی ہے کہ ذرائع
نقل وحمل انسانی ترقی کا بنیادی ذریعہ ثابت ہوتے ہیں اور ذرائع نقل و حمل
میں ریلوے نظام کو اولین افادیت حاصل ہے، اس حوالے سے صرف گزشتہ دہائی کے
دوران تیز رفتار ترقی کرنے والے ممالک پر نظر ڈالیں تو تھائی لینڈ ہو یا
ملائیشیا، بھارت ہو یا انڈونیشنا، سنگاپور ہو یا دبئی، ان تمام ممالک نے
اپنے اپنے ممالک میں سرکلر ریلوے نظام پر بھرپور توجہ دی ہے، جس سے ان
ممالک میں ترقی کے سفر کو تیز تر کرنے میں اہم مدد ملی ہے۔ پاکستان بدقسمتی
سے ان ممالک میں شامل ہے جہاں ایک منصوبے کے تحت ریلوے کو کمزور کیا گیا
ہے۔ کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کاکھٹائی میں پڑنا نہ صرف کراچی کے عوم کے
لیے انتہائی تکلیف کا باعث ہے بلکہ ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بھی ہوگا۔ |
|