مودی سرکار کی ہندو دہشت گردی کی سرپرستی

بھارتی ریاست ہریانہ میں ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی کی حکومت آتے ہی مسلم کش فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ہندو انتہا پسند تنظیموں آر ایس ایس، بجرنگ دل،رام سینا و دیگر کے اہلکاروں کی بڑی تعداد ہریانہ میں پلول ضلع کی تحصیل ہتھین میں واقع جامع مسجد میں گھس گئی اور عشاء کی نماز پڑھنے والے مسلمانوں پر بدترین تشدد شروع کر دیا ۔ بعد ازاں ہندو انتہا پسندوں نے کہرام مچاتے ہوئے 32دوکانوں اور 38 مکانوں کو آگ لگاڈالی۔ اس سے قبل چھ اکتوبر کو بھی ریاستی انتخابات سے قبل ہند و انتہا پسندوں نے مذکورہ مسجد کو متنازعہ قرار دیتے ہوئے اس کی دیواریں اور مسجد میں موجود قرآن پاک و دیگر مذہبی کتابیں شہید کر دی تھیں جس سے پورے علاقہ میں فسا د بھڑک اٹھا تھا۔ بعد ازاں عدالت سے مسلمانوں نے مسجد کے حوالہ سے اسٹے بھی لے لیا تھا مگر کچھ دنوں کی خاموشی کے بعد گذشتہ روز ایک بار پھر ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کے گھروں پر حملے شروع کر دیے اور گھروں و دوکانوں کو آگ لگاتے ہوئے لوٹ مار کا آغاز کر دیا۔ ریاست میں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد یہ پہلا مسلم کش فساد ہے جس میں تین درجن سے زائد دوکانوں اور مکانات کو نذرآتش کیا گیا ہے۔ضلع مجسٹریٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس وقت حالات کنٹرول میں ہیں اور مسلمانوں و ہندوؤں کے تین سو کے قریب افراد کے خلاف مختلف دفعات کے تحت کیس درج کئے گئے ہیں۔ مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ نمازیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر مسجد کی توسیع کی گئی تھی مگر ہندو انتہا پسندوں نے چند دن قبل اس کی دیواروں کو گرا دیا اور وہاں موجود مقد س کتب کو نذرآتش کر دیا تھا۔ بعد میں مشترکہ پنچایت میں اس مسئلہ کو حل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا مگر ہندو انتہا پسندوں نے گذشتہ روز مسلمانوں کے گھروں پر ہلہ بول دیا۔ چند دن قبل فسا د کے بعد اس مسجد میں نماز کی ادائیگی پر پابندی لگا دی گئی تھی اور گذشتہ روز انتظامیہ کی اجازت کے بعد پہلے کی طرح مسلمان نما ز پڑھنے مسجد آئے تھے کہ ہندو انتہا پسندوں نے دھاوا بول دیا۔ علاقہ میں ایک ہزار کے قریب آبادی ہے جس میں مسلمانوں کی تعداد پانچ سو کے قریب ہے لیکن ہندوؤں کو انتہا پسند تنظیموں کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے وزارت داخلہ کو ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بعض ریاستوں میں واقع مدارس میں بنگلہ دیشی اساتذ ہ ہیں جن کا تعلق مبینہ طور پر کالعدم قرار دی گئی تنظیم جماعت المجاہدین بنگلہ دیش سے ہے اور یہی استاد نوجوانوں کو جہادی نظریات سے وابستہ کر رہے ہیں۔اس رپورٹ کے بعد بنگلہ دیشی اساتذہ کا پتہ چلانے کیلئے بھارت سرکار نے باقاعدہ سروے کروانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ مغربی بنگال کے ضلع بردوان میں مدرسہ میں تعلیم دینے والے تقریباً تمام اساتذہ بنگلہ دیشی شہری ہیں جہاں پر 2 اکتوبر کو ایک دھماکہ میں 2 افرادہلاک ہوئے تھے۔ وزارت داخلہ کو بھجوائی گئی خفیہ رپورٹ میں ان مدرسوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جہاں پر بنگلہ دیش یا پاکستانی نژاد اساتذہ ہیں۔ اس طرح کے مدارس نوجوان ذہنوں میں سرگرمی کے ساتھ تحریکی جذبات پیدا کررہے ہیں۔ وزارت داخلہ کے عہدیدار نے کہا کہ ہمیں اس بات کی تشویش ہے کہ ایسے کئی بیرونی اساتذہ ہیں جو ہندوستان کے کئی مدارس سے وابستہ ہوکر ہندوستانی شہریوں کو ورغلا رہے ہیں۔ رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ یہ لوگ جعلی شناختی دستاویزات بناتے ہوئے یہاں پر قائم ہیں۔ اس لئے سروے کے ذریعہ ان کا پتہ چلایا جائے گا۔ بردوان کے مدرسوں میں بنگلہ دیش کے اساتذہ نے شناختی کارڈز جیسی جعلی دستاویزات اپنے پاس رکھی ہوئی ہیں۔ یہ سروے ابتداء میں مغربی بنگال، آسام، اترپردیش اور بہار جیسی بین الاقوامی سرحدوں سے متصل ریاستوں میں کروایا جائے گا اس کے بعد دیگر ریاستوں میں بھی سروے کیا جائے گا۔رپورٹ کے مطابق بھارت میں مدرسوں کی جملہ تعداد کے بارے میں سرکاری طور پر کوئی اعداد و شمارنہیں ہیں تاہم غیرسرکاری طور پر اس طرح کے چھوٹے اور بڑے مدارس کی تعداد 35 ہزار بتائی جارہی ہے جہاں پر تقریباً 15 لاکھ طلبہ زیرتعلیم ہیں۔بھارتی شہرحیدرآبادکے علاقہ جگتیال میں ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کی عیدگاہ پر بی جے پی کا پرچم لہرا دیاجس پر مسلمانوں میں سخت اشتعال پھیل گیا ہے۔ مسلمانوں کو گذشتہ روز جب جگتیال میں عید گاہ رحمت پورہ کے مینار پر بی جے پی پرچم لہرانے کاعلم ہوا تو مسلمانوں کی بڑی تعداد جمع ہو گئی اور انہوں نے شدید احتجاج کرتے ہوئے ہندو انتہا پسندوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔اس موقع پر انچارج ڈی ایس پی نرسیا اور سرکل انسپکٹر نریش کمار پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ وہاں پہنچ گئے اور اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ شرپسندوں کو جلد گرفتارکر لیاجائے گا۔ مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی کی ہدایات پر رکن اسمبلی سید احمد پاشا قادری نے ایس پی کریم نگر سے رابطہ قائم کر کے عید گاہ پر پرچم لہرائے جانے کی شدید مذمت کی اور ہندو انتہا پسندوں کی گرفتاری پر زور دیا۔ مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ مقدس مقامات کی بے حرمتی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ اس سے قبل مسجد چوک سرکل پر ایک خط ڈاک صدر مسجد کمیٹی روانہ کیا گیا تھا جس میں مسلمانوں کوہندوستان چھوڑ کر پاکستان چلے جانے کی دھمکی، برقعہ کے خلاف اوراﷲ تعالیٰ کے نام کی گستاخی کی گئی تھی جس پر مقدمہ بھی درج کیا گیا مگر کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کی گئی جس سے شرپسندوں کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں۔ بھارت میں مظفر نگر فسادات سے متاثرہ افراد کی کثیر تعداد نے گذشتہ روز شاہ پور پولیس اسٹیشن کا گھیراؤ کیا اور زبردست احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے ریاستی چیف منسٹر اکھیلیش یادو کو ایک یادداشت پیش کی جس میں مسلم کش فسادات کے سلسلہ میں ہونے والی اموات اور فسادات میں ملوث افراد کی گرفتاری کا مطالبہ کیاگیا۔اس دوران انہوں نے یکم دسمبر سے بھوک ہڑتال کی دھمکی بھی دی۔مظفر نگر فسادات میں ملوث قرار دیے گئے ملزمین تاحال فرار ہیں۔فساد متاثرین دو دن سے مظاہرے کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے ان کے مطالبات کو پورا نہ کیا تو وہ بھوک ہڑتال شروع کر دیں گے۔ فسادات کی روک تھام کے لئے بنائی گئی ایک ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام بھارتیہ کسان مزدور منچ کے ارکان نے احتجاجی ریلی بھی نکالی اور ملزمان کی گرفتاری میں حکومت کی ناکامی کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ فسادات ہوئے ایک سال ہوگیا ہے، مگر اب تک ملزمین کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔
Mumtaz Awan
About the Author: Mumtaz Awan Read More Articles by Mumtaz Awan: 267 Articles with 175974 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.