علم سائنس مسلمانون كي مرهون منت هي
(moulana ajmal shareef hudawi , musore)
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے
آباء کی جو دیکھی ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ
غنی روز سیاہ پیرکنعاں را تماشا کن کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخارا
اس میں دو رائے نہیں کہ موجودہ دور میں سائنس وٹیکنالوجی کی ترقیاں آسمان
کو چھورہی ہیں ۔ دن بدن رونما ہونے والی نت نئی ایجادات (inventions) نے
ساری دنیا کو مسحورکرلیا ہے ۔انسان کے ہر شعبۂ حیات میں سائنس بدن میں روح
کے مثل جاگزیں ہوچکا ہے ۔ چہاردانگ عالم میں اس کو ماڈرن علم سے تشبیہ دیا
جاتا ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ سائنس کی ان ترقیوں کا سہرا یوروپ کی نشاۃ ثانیہ
(Renaissance) پر باندھا جاتاہے ۔دورحاضر کی تمام دریافتوں کا ضامن صرف
برطانیہ کے صنعتی انقلاب (Industrial revolution ) کو ٹھرایا جاتاہے ۔ مگر
حقیقت اس کے برعکس ہے اسلئے کہ سائنس کی داغ بیل اور اور اسکی نشونما
مسلمانوں سے ہوئی تھی ۔ سب سے پہلے فطرت میں غور وخوض کرنے کا جذبہ اسلام
کی کوکھ سے جنم لیاتھا ۔
اسلام اور سائنس
پیغمبراسلام ﷺ کی بعثت سے قبل کسی بھی دورمیں تحقیقات کا عمل وجود میں نہ
آیا تھا ۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسلام سے پہلے انسا ن کی رسائی اس شعبۂ فن تک
نہ ہوسکی جس کو آج سائنس کہا جاتاہے ۔ اسلئے کہ ہر دور میں شرک کی کالی
گھٹا کسی انسان کو کھوج کا موقعہ تک فراہم نہ کرتی ۔لوگ پتھر ، درخت ، سورج
، چاند اور ستاروں کی پرستش کرتے تھے ۔چاند کو پوجنے والے یہ افراد چاند پر
قدم رکھنے کی جراء ت کیسے کرتے ، سیلاب کو خدا کا جز سمجھنے والے سیلاب کو
مغلوب کرکے بجلی کی دریافت کیسے کرتے ۔ فطرت کو خدا ماننے والے فطرت کی
اشیاء کو تسخیر و تحقیق کے زمرے میں لاکر سائنس کو کسطر ح وجود بخشتے ۔ اسی
کو سماجیات کے فادر آگسٹ کامٹے (Auguste Comte ) نے theological stageکا
نام دیا تھا۔شرک کا یہ غلبہ صرف عوام تکہ ہی محدود نہ تھا بلکہ اسکا وسیع
دامن سیاست پر بھی قابض تھا۔قدیم زمانے کے بادشاہ اپنی رعایا کو یہ باور
کراکے حکومت کرتے کہ وہ زمین پر خدا کی اولا ہیں اور خدا ان کے اندر حلول
کر آیا ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ جب بھی کوئی توحید کا دعوی کرتا یہ حکمراں اسکے
خلاف بر سر پیکار ہوجاتے ۔ کوئی انکے عقید ے کے برعکس کوئی چیز پیش کرتا تو
اسے موت کے گھاٹ اتا دیا جاتا تھا ۔ یہی سبب تھا کہ جب قدیم یونان میں زمین
اور سورج کی گردش کے تعلق سے دو نظرے وجو د میں آئے تو مسیحی بادشاہوں نے
پٹالمی (Ptolemy) کے نظریہ کو کہ سورج زمین کی گردش میں ہے سراہا تھا۔ اور
دوسرے نظریہ کے ماننے والوں کی سرزنش کی جاتی تھی ۔ کیونکہ مسحیت کا عقیدہ
تھا کہ مسیح زمین پر خدا کے بیٹے ہیں ۔ لہذا زمین کو یہ تقدس حاصل ہے کہ وہ
خدا کی جنم بھومی ہے اور خدا کی جنم بھومی کبھی دوسرے کرہ کی تابع
(satellite) نہیں بن سکتی ۔ شرک عالم فطرت میں تحقیق کرنے پر دیوار آہین
بنا ہواتھا ۔مگرجب اسلام نے شرک کو مغلوب کرکے توحید کا درس دیا تب فطرت کی
تحقیق کا راستہ ہموار ہوا ۔ اسلام نے اس ذہن کو فروغ دیا کہ خدا صرف ایک ہے
اور باقی تما م چیزیں اسکی مخلوق ہیں اور دانشمندی اسی میں ہے کہ مظاہر کی
ان چیزوں کو دیکھ کر خدا کی معرفت حاصل کرے نہ کہ اسی کو اپنا معبود سمجھ
بیٹھے ۔ توحید کی ان تعلمیات سے وہ تما ترقیاں منظر عام پر آئی جو قدرت پر
فتح کے نتیجہ میں انسان کو حاصل ہوتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قدیم سائنس کی
پسماندگی شرک کی وجہ سے تھی اور جدید سائنس کا دارومدا ر توحید کی بنیاد پر
ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ اسلام دنیا کو صرف سائنس کا علم دینے آیا تھا مگر
اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ اگر اسلام جلوہ گر نہ ہوتا تو
سائنس کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند رہتا ۔ توحید کی بنا پر جو فکری
انقلاب آیا اسی نے سائنسی تحقیقات کا بیج بویا تھا ۔
مسلمانوں کا عروج
اسلام کی آفاقی تعلیمات کو سینے سے لگانے والے مسلمان ایک ہزار سال تک وہی
حیثیت کے حامل رہے جو آج روس اور امریکہ کو حاصل ہے ۔ اس وقت مسلمانوں کا
رعب ودبدبہ ساری دنیا پر تھا ۔ مسلمان پورے عالم میں علم وتہذیب کے تنہا
مالک تھے ۔ عربی زبان دنیا کی واحد علمی زبان تھی ۔اپنی تحقیقات اور یونانی
اور دیگر علوم کے ترجمے سے مسلمان سائنس وفلسفہ میں دنیا کی امامت کررہے
تھے ۔ اور ساری دنیا کے لوگ اکتساب علم اور اپنی علمی تشنگی کو بجھا نے کے
لئے اسلامی علمی مراکز دمش ، بغداد ، غرناطہ اور قرطبہ کی جانب ٹھیک اسی
طرح رخت سفر باندھتے تھے جسطرح آج اعلی تعلیم کیلئے امریکہ اور یورپ کے
شہروں کی جانب رخ کرتے ہیں ۔ جب مسلمانوں کا یہ علوم وفنون کا دور دورہ تھا
اس وقت پورے یورپ پر ڈارک ایحس( dark ages) کے سیاہ بادل منڈلا رہے تھے
۔تیرھویں اور چودھوی صدی میں مسلمان کی طاقت عروج پر تھی اور ہر فن میں
دوسری قوموں سے کافی حد تک آگے بڑھ گئے تھے ۔ اسی لئے ورلڈ بک
انسائیکلوپیڈیا کا مقالہ نگار رقمطراز ہے ۔ The term \" dark ages \"
cannot be applied to the splendid Arab culture which
spread over North Africa and into spain.
یعنی عرب کی شاندار ثفاقت جو شمالی افریقہ اور اسپین میں پھیلی ہوئی تھی اس
پر ڈارک ایجس کا لفظ نہیں بولا جاسکتا ہے ۔ کیونکہ کہ مسلمان اس زمانے میں
ترقی کی اوج ثریا پر پہنچے ہوئے تھے جب کہ اس زمانے میں یورپ پر
اندھیراچھایا ہوا تھا ۔اس دور نے مسلمانوں کو جابر بن حیان ، یعقوب بن
اسحاق الکندی ، ابو عبد اللہ البطانی ، ابن سینا ، ابوالنصر الفارابی ،
زکریا الرازی جیسے مایہ ناز سائندانوں کو پیدا کیا ۔ علم کیمیاء صرف چاندی
سے سونا بنانے کے خبط کا نام تھا ۔مگر خالد بن یزید بن معاویہ نے اسے ایک
طبیعی علم ٹھرایا ۔ عباسی خلافت میں یہ علم اور مزید فروغ دیا گیا ۔
یورپ کی نشاۃ ثانیہ اور مسلمانوں کی غفلت
علوم وفنون میں دنیا کی امامت کرنے والے مسلمان آخر دور جدید میں زوال کی
منزلیں کیوں طے کررہے ہیں ؟ اور ڈارک ایجس میں زندگی بسر کرنے والے یوروپی
آج ترقی کی چوٹی پرکیسے پہنچ گئے ؟ ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے والے کے
لئے یہ بات نکھر سامنے آئے گی۔ کہ جب تک خلافت عربوں کے ہاتھ میں مسلمانوں
نے علمی اور سیاسی میدان میں کامیاب رہے مگر جوں ہی خلافت کا تخت ترکوں کے
ہاتھ میں آیا تو مسلمان سیاسی میدان میں بے مثل رہے مگر علمی میدان میں
کمزور ہوتے چلے گئے ۔اسلامی سلطنت کا مرکز بغداد سے آستانہ ہوگیا ۔ اسلئے
کہ عرب علم کی قدر کرتے تھے اور علماء پر درہم ودینا ر کی بارش کرکے انہیں
ہر طرح کی سہولیات مہیا کرتے مگر ترک انہیں علماء کو اپنے خطرے کا باعث
سمجھ بیٹھے ۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کی آخری خلافت عثمانیہ رہی اسکے بعد
کوئی خلافت کرۂ ارض پر نمودار نہ ہوی ۔ مسلمان اپنے ہاتھوں سے علم کی
لازوال دولت کھوچکے تھے ۔ مگر تاریک فضاؤں میں بسنے والے یوروپی مسلمانوں
کوصلیبی جنگ میں شکست دینے کی تابڑ توڑ کوششیں کی ۔ ۱۰۹۵ ء سے لیکر ۱۲۷۰
ء تک تقریبا آٹھ صلیبی جنگیں (crusade wars) ہوئی مگر سلطان صلاح الدین
ایوبی نے انہیں ہر جنگ میں ہزیمت پر ہزیمت دی ۔ مسلمان جب منجنیقوں سے آگ
کے گولے ان پر برساتے تھے تو عیسائیوں کو خوف وہراس میں ایسا ظاہر ہوتا کہ
کوئی زہریلہ اژدہا اپنے منہ سے آگ کے شعلے پھینک رہا ہے ۔ اس کا سبب یہ تھا
کہ مسلمانوں کے پاس علم کا وہ بیش بہا ہتھیار تھاجس سے عیسائی پر لرزہ طاری
ہوجاتا تھا ۔ مسلم قوم علم ریاضی ، علم کیمیاء ، علم فلکیات پر دسترس رکھتی
تھی ۔ مگر عیسائیوں کے پاس( Greek Fire) کے علاوہ اور کوئی مضبوط ہتھیار
نہیں تھے ۔ عیسائیوں نے کبھی مسلمانوں کو شراب دے کر ورغلانے کی کوشش کی تو
کبھی حسین وجمیل برہنہ دوشیزاؤں کے ذریعہ انکے ایمان کو لوٹنے کی سعی کی
۔مگر عیسائیوں کے تمام منصوبے طشت ازبام ہوئے ۔ آخرانہوں نے اپنا طریق کار
بدل دیا جنگ وجدال کو چھوڑ کر روحانی جنگ (Spritual Crusade) کا حربہ
استعمال کیا ۔انہوں نے طے کیا کہ ہمیں عربی زبان سیکھنی ہے اور مسلمانوں کے
علوم کو پڑھ کر انہیں اسی نیزہ سے شکست دینا ہے جس نیزہ سے ہم شکست کھاتے
آرہے ہیں ۔ مسلمانوں کے علم کو چھیننے کی انہوں بے حد کوشش کی ۔ یوروپ کی
ہر تعلیم گاہوں میں انہوں نے اسلامی کتب کو داخل کروادیا ۔ عربی اسلامی کتب
کا ترجمہ اپنی زبان میں بڑے زور وشوروں سے ہواحتی کہ کلیساؤں کے پوپ خوف
کھائے کہ کہیں عیسائی اسلام کو قبول تو نہیں کررہے ہیں ۔اسی دور کو انہوں
نے نشاۃ ثانیہ(Renaissance) کا نام دیا نہ کہ مسلمانوں کی تقلید یا اتباع
قوم مسلم ۔ایک طرف سولہویں صدی کی نشاۃ ثانیہ پورے یوروپ کی کایا پلٹ رہی
تھی تو دوسری جانب مسلمان طاقت وسیاست کے نشے میں مخمور ہوکر علم کی دولت
سے محروم ہوتے چلے گئے ۔ عیسائی مشنریز نے اس میں بہت زیادہ تگ ودو کی ۔
پھر یہی عیسائی مسلمانوں کی عطاکردہ علمی دولت سے لیس ہوکر دنیا کی طرف پلٹ
آئے تو مسلمان یوروپ کی ترقی اور عروج سے متاثر ہوکر یوروپ کی زبان اور
علوم سیکھنے کا رجحان پیدا ہوا ۔ مگر طرز تعلیم بدل گیا مسلمان یوروپ کے
رنگ میں رنگ گئے ۔ لہذا مسلم لیڈران کی قیادت نے مسلمانوں کو یورپ کا غلام
بنادیا ۔ ہندوستان میں سرسید احمد خاں جو پہلی جدت پسندکے بانی(Modernist
organisation) تھے انہوں نے ۱۸۷۵ ء میں علی گڑھ کالج قائم کیا اور اسی میں
اپنی ساری زندگی صرف کردی ۔ یہاں تک کہ وہ ۱۹۲۰ ء میں یونیورسٹی کی شکل
اختیار کرگیا ۔ وہ یورپی طرز کی تعلیم کے سخت حامی تھے ۔ اگر ترقی کا تصور
کرتے تو ان کے ذہن میں زرق وبرق وردیاں پہنے کرنل اور میجر مسلم نواجوان
نظر آتے ۔ ان کی اس تحریک کو اینگلو محمڈن کلچر (Anglo-Muhammadan
Culture)کہاجاتا ہے ۔ترکی میں مصطفی اتاترک کمال پاشاہ کا نعرہ تھا’’ غرب
دوغرو‘‘یعنی غرب کی جانب سفر ۔ اتاترک کا خواب تھا کہ مسلمان ہیٹ اور پتلون
میں نظر آئے ۔ مسلم محرکوں کو نے یوروپی تعلیم سیکھنے کا نام یوروپ کی
تقلید سمحجھا ۔ اسی وجہ سے مسلمان دورحاضر میں یوروپ کے غلام ہیں ۔ ہاتھ
پہننی جانے والی گھڑی سے لیکر جنگ کے سازوسامان تک کا آج مسلمان دوسری
قوموں کا محتاج ہے ۔ ایک ہی نوعیت یہ دو واقعات میں اتنا فرق کسطرح وجود
میں آیا ۔اس کا جواب ذہنیت کے اس فرق میں ہے جو دونوں میں پایا جاتاہے
۔یوروپ اسلامی تعلیم سیکھی تاکہ مسلمانوں کو شکست دے اور مسلمانوں نے یوروپ
کی کی تعلیم اس لئے سیکھی کہ اسکے نقال بن جائے اور انکے سامنے عزت کی نگاہ
سے دیکھے جائے ۔ ذہنیت کے اس فرق نے مسلمانوں کو ترقی کے آسمان سے زوال کے
چوراہے پر لا کھڑا کردیا ۔ یوروپ نے جب مسلمانوں کی تعلیم سیکھی تو
مسلمانوں کی تقلید کانام نہیں پرویا بلکہ اپنی پرانی ترقی کی نشاۃ کا نام
دیا ۔ مگر مسلمانوں نے اپنی قدیم ترقی کو پس پشت ڈال کر یوروپ کی تعلیم کو
انکی تقلید کا نام دے دیا ۔ یہ تاریخ جہاں مسلمانوں کی غلطی کی نشاندہی
کرتی ہے وہی یہ سبق دیتی ہے کہ انہیں وہی ہتھیار استعمال کرنا چاہئے جس سے
مغرب نے انہیں شکست دی تھی ۔ مسلمان مغربی علوم اس لئے سیکھیں کہ اسکے
ذریعہ انہیں شکست دے اور اسلام غالب آجائے ۔ اگر مسلمانوں میں یہ ذہن پیدا
ہوجائے تو نتیجہ وہی اخذ ہوگا جو مغربیوں کا حاصل ہوا تھا مسلمانوں کے
مقابلے میں ۔
دور حاضر میں مسلمانوں کوداعش جیسی تنظیمیں دھوکہ دے رہی ہیں کہ مسلمانوں
کو خلافت اسلامیہ کی ضرورت ہے مگر یہ صراصر حماقت ہے کیونکہ مسلمانوں کو
خلافت اسلامیہ کی نہیں بلکہ خلافت علمیہ کی ضرورت ہے ۔ جب تک مسلمان علم کے
میدان میں اپنا لوہا نہیں منوائینگے تب تک مسلمان شکست کی ٹھوکریں کھا تے
پھرینگے ۔اسلام کا پہلا سبق علم کے حصول پرہے ۔ لہذا مسلمان جہالت کی گھٹا
ٹوپ تاریک سے نکل علم کے اجالے میں اپنا بسیرا ڈالے تو وہ دن دورنہیں کہ
مسلمانوں کی خوابیدہ شان وشوکت پھر سے لوٹ آئیگی- |
|