آخر جہادکا صحیح مفہوم کیا ہے.........؟
(moulana ajmal shareef hudawi , mysore )
دور حاضر میں ہر کس وناکس لفظ
جہادسے رطب اللسان ہے ۔ جہاں کہیں بھی تشد د وفساد کی بھنک نظر آئے لوگ
خوامخواہ جہاد کا لفظ تھوپ دیتے ہیں ۔ ڈیویڈ ہینس (David Haines)کے سرقلم
کے خوفناک واقعہ کے بعد پوری دنیا میں اسلاموفوبیا (Islamophobia) کی لہر
ہے ۔ ہرکوئی تشدد پسند تنظیم داعش کو جہادی تحریک کہہ رہا ہے ۔ طالبان ،
القاعدہ ، مجاہدین اور جیش محمد جیسی نام نہاد تنظیموں کو جہادی گروپ تسلیم
کیا جاتاہے ۔ ہندوستان میں اسی نوع کی ایک ’ لو جہاد‘ وجود میں آئی جس کی
تشہیر میں ہمہ دم ایک طرف یوگی آدتیہ ناتھ یوپی میں مصروف ہے تو دوسری جانب
اسی قسم کا زہر اندور میں اوشاٹھاکرے اگل رہی ہے ۔ غرض کہ اسلام کی شبیہ
بگا ڑی جارہی ہے ۔ اسلام کو دہشت کا مذہب تصور کیا جارہاہے ۔ کچھ مسلمانوں
کی شدت پسندی سے پورے مذہب کی پاکیزہ عظمت کو قصور وار ٹھرایا جارہا ہے ۔
عالمی سطح پر جہاد کو تشدد کے ہم معنی سمجھا جاتا ہے ۔اس ضمن میں سوالوں کا
ایک سیلاب امڈآتا ہے ۔کیا واقعی اسلام شدت پسندی کا مذہب ہے؟ کیا اسلام
دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے ؟ کیا قرآن لوگوں کوامن کا سبق نہیں سکھاتا ؟
کیا پیغمبر اسلامﷺ کا مشن لوگوں میں نفرت پھیلانا تھا؟ اگر حقیقت کا آئینہ
پہن کر ان سوالوں کا جواب تلاش کیا جائے تو صرف اور صرف واحد جواب ابھر کر
سامنے آئیگا کہ ہر گز اسلام دہشت کا مذہب نہیں اور نہ ہی قرآن کی تعلمیات
لوگوں کو فساد کی دعوت دیتی ہے ۔ مسلمانوں میں سے کچھ افراد کا جہاد کی آڑ
میں ہتھیار سے لیس ہونا اس بات کی سراسر دلیل نہیں کہ اسلام کی بنیاد دہشت
گردی یا شدت پسندی پر ہے ۔ ورنہ سارے عالم میں کوئی دین دہشت کی چنگل سے بچ
نہیں پائیگا ۔ اسی لئے ڈیویڈ ہینس کا بھائی مائیک ہینس نے کہا کہ اس کے
بھائی کے قتل کے الزام میں نفس
اسلام کو ذمہ دار ٹھرانا درست نہیں ۔
اسلامی نقطہ ء نظر میں جہاد
اسلام ایک امن وامان کا مذہب ہے ۔ اسلام نے کبھی اپنے ماننے والوں کو دہشت
کی تعلیم نہیں دی ۔ اسلام کا جب عرب میں ظہور ہوا تو زمانہ جاہلیت میں
بھٹکنے والے عرب درندے تھے ۔ ایک دوسرے کی قتل وغارت گری انکا شیوہ تھا ۔
معمولی سے معمولی معاملہ پر عربی قبائل ایک دوسرے کے خون چوسنے پر آمادہ
ہوجاتے ۔ عورتوں کو زندہ درگورکرنے میں فخر محسوس کرتے ۔مگر اسلام نے اخوت
وبھائی چارگی اور باہمی محبت کا سنہرا درس دیا ۔ اسلام نے عورتوں کو انکا
حق دلا یا ۔ جہاد ایک متبرک و پاکیزہ لفظ ہے جسے تہس ونہس کرنے کی کوشش کی
جاتی ہے ۔ لغت میں جہاد کا اصل جہد ہے جس کے معنی ہیں کوشش کے ۔ انتہائی جد
وجہد کرنے کو جہاد کہا جاتا ہے اور جہد کے مادے میں مبالغہ کا مفہوم ہے ۔
مشہور عربی لغت لسان العرب میں ابن منظور رقمطرازہے کہ جہد کے معنی مبالغہ
آمیزش کے ہیں مثلا کہا جاتاہے جھدت جھدی واجتھدت رای ونفسی حتی بلغت مجھودی۔
یعنی میں نے ہرطرح پوری کوشش کی یہاں تک کہ میں اپنی آخری کوشش تک پہنچ گیا
۔ حالات کی نسبت سے کبھی یہ جہاد یا جد وجہد کا عمل دشمنوں سے مقابلہ تک
پہنچتا ہے ۔ اسی لئے اس عمل کو جہاد کا نام دے دیا گیا ۔ حقیقت میں جنگ
وجدال کو عربی میں قتال کہا جاتا ہے نہ کہ جہاد ۔ جہاد تو جنگ کے لئے عارضی
معنی ہے کیونکہ اس کا مفہوم انسان کی پوری زندگی سے وابستہ ہے ۔ قرآن مجید
میں بھی جہاد یا اسکے مشتقات اسی معنی میں مستعمل ہیں جو معنی لغت میں
بتایا گیا ہے یعنی کسی مقصد کے حصول کے لئے مبالغہ آمیز کوشش کرنا ۔ لفظ
جہاد قرآن میں صرف چار بار (سورہ توبہ آیت ۲۴ ، سورہ فرقان آیت ۵۲ ، سورہ
ممتحنہ آیت ۱ اور سورۃ حج آیت ۷۸) مستعمل ہوا ہے ۔اور سب جگہ یہ لفظ کوشش
اور جد وجہد کے معنی میں ہے نہ کہ براہ راست طور پر جنگ وقتال کے معنی میں
ہے ۔ٍلہذا جہاد زندگی کی ایک حقیقت ہے ۔ جہاد نہ کوئی پر اسرار چیز ہے اور
نہ تشدد کے ہم معنی ہے ۔وہ سادہ طور پر بھر پور کوشش کے لئے استعمال کیا
جانے والا ایک لفظ ہے ۔ پیغمبر اسلام ﷺ جب ایک غزو ہ سے واپس تشریف لائے تو
فرمایا تھاھبتطم من الجھادالاصغر الی الجھاد الاکبر یعنی تم جہاد اصغرسے
جہاد اکبر کی جانب لوٹ آئے ہو ۔صحابہ نے دریافت کیا یا رسول اللہ جہاد اکبر
کیا ہے ؟سرکار نے فرمایا جھاد النفس ۔ اس حدیث سے یہ بات روز روشن کی طرح
عیاں ہوتی ہے کہ اسلام میں دشمنوں کا دفاع جہاد اصغر ہے جبکہ جہاد اکبر خود
انسان اپنے نفس کا مجاہدہ کرناہے ۔ انسان نفسیاتی خواہشات کا ایک پتلا ہے ۔
خدا عزوجل کے آگے سر خم کرنے کیلئے انسان اپنے نفس کی خواہشات کو ضبط کرنا
ہوگا اور اسے خدا کا پیروکا ربنا نا ہوگا ۔ یہی اسلام میں جہاد اکبر ہے ۔
اسلامی جنگوں کا پس منظر
دشمنان عناصر کا اسلامی جنگوں کی پشت پناہی میں یہ الزام تراشنا کہ اسلام
اپنے ماننے والوں کا دہشت کی تعلیم دیتا ہے سچائی کی رو سے بالکل غلط ہے
۔تاریخ شاہد ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺنے تادم حیات کبھی جنگ وجدال اور دنگا
وفسا د کی دعوت نہ دی ۔ انہوں نے تو جھگڑالوں عربوں کو پیار ومحبت کا درس
دیا تھا۔ آپ ﷺہمیشہ اخلاق حسنہ سے لوگوں کو توحیدسے روشناس کراتے تھے ۔
نبوت کے بعد آپ نے تیرہ سال تک مکہ میں دعوت الی اللہ کا کام انجام دیا
۔مکہ کے کفار ظلم وستم کے کوہ ہمالہ مسلمانوں پر توڑتے تھے ۔ گرم ریت پر
لٹا کر انہیں طرح طرح کی اذیتیں پہنچاتے تھے ۔ اگر آپ چاہتے تو مسلمانوں کو
جنگ پر آمادہ کرتے مگر آپ نے ہمیشہ امن وسکون کے راستے کو اختیار فرمایا
تھا ۔ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ ایک دن تما م سردارن مکہ آپ کو قتل کرنے کا
منحوس منصوبہ بنائے تو آپ مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائے ۔ پھر مدینہ میں اسلام
پھیلتاپھولتا گیا توکفار نے مسلمانوں کو نیست ونابود کرنے کا ارادہ کیا اور
اس صوت حال میں مسلمانوں کو جہاد کو حکم صادر ہوا۔لہذا قرآن کی آیت نازل
ہوئی اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا (سورہ حج۳۹) یعنی جنگ کی اجازت ظالموں
سے اپنی جانوں کی حفاظت کی خاطر دی گئی ہے۔ اس کے بعدبھی پیغمبراسلامﷺ نے
صلح حدیبیہ، فتح مکہ اور غزوہ خندق کے ذریعے ہمیشہ امن وآشتی کی راہ پر
گامزن رہنے کا امت کو سبق دیا ۔ اسلام میں جتنی بھی جنگیں ہوئی سب دفاعی
تھیں ۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے کبھی کسی پر حملہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی کو اسکی
اجازت مرحمت فرمائی ۔ مگر کسی جانب سے حملہ ہوا تو اس سے بچاؤ کیا۔ ظاہر ہے
جب کسی پر اسلحہ کا حملہ کیا جائے تو اسکے دفاع کے بغیر ہاتھ پر ہاتھ دھر ے
رہنا دانشمندی نہیں ہے ۔جتنی بھی جنگیں آپ کو پیش آئی سب کی سب اسی نوعیت
کی تھی ۔ اسلام کی تمام جنگوں میں دفاع (Defence) تھا ۔ اگر کوئی گروہ
اسلام کے خلاف جارحیت کرتا تو حسب استطاعت اس سے مقابلہ کیا جاتاتھا ۔
اسلام کی عام پالیس ہوتی کہ حتی الامکان جنگ سے اعراض کیا جائے ۔ یہ پالیسی
اسلام کے اصل مقصد ومدعا کے عین مطابق ہے ۔ کیونکہ اسلام کا مقصد لوگوں کو
جہنم کے راستے سے ہٹا کر جنت کی راہ ہموار کرنا ہے نہ کہ یہ وہ جس جاہلیت
کی زندگی میں ہیں انہیں وہی مار کر ختم کردیا جائے ۔ مسلمان جب جنگ کا رخ
کرتے تو ہر ایک کو ہدایت دی جاتی کہ جو لوگ مسلح ہیں صرف انہیں کے خلاف
ہتھیار کا استعمال کیا جائے ۔ نہتے شہریوں کے خلاف ہتھیار اٹھانا اسلامی
اصولوں کے خلاف تھا ۔ بچوں ، عورتوں، بوڑھوں اور عام لوگوں کو کبھی جنگ کا
نشانہ نہیں بنایا جاتا تھا ۔
اسلام سلامتی کامذہب ہے
اسلام ایک امن وسلامتی کا مذہب ہے ۔ خود لفظ اسلام عربی لفظ ’’سلم‘‘ سے
نکلا ہے جسکا معنی ہے سلامتی ۔ اور حدیث میں آتا ہے المسلم من سلم المسلمون
من لسانہ ویدہ یعنی مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان
محفوظ رہے ۔ قرآن کی تلاوت بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کی جاتی ہے جو
بالکلیہ رحمت کا پیغام ہے اس لئے کہ خدا رحمن ورحیم ہے اور اسکے پیغمبر بھی
سارے عالم کیلئے رحمت ہیں ( وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین سورہ انبیاء :
۱۰۷)اور مسلمانوں کا ٹھکانہ بھی سلامتی کا گھر ہے ( واللہ یدعو الی دار
السلام سورہ یونس :۲۵) ۔ اسلام پورا ایک سلامتی کا پیغام دینے والا مذہب ہے
۔ اسلام نے ہمیشہ قتل وغارت گری کی مذمت کی ہے جسکا ثبوت قرآن کی بیشمار
آیتیں دیتی ہیں ۔ فتنہ وفساد کو اسلام قتل سے بھی سخت ٹھرایا ہے قرآن میں
ہے الفتنۃ اشد من القتل ( سورہ بقرۃ : ۱۹۱) ۔
موجودہ دور میڈیا کا دور ہے ۔ ہر طرف اسلامی تعلمیات کو غلط صورت میں پیش
کیا جاتا ہے ۔ قرآنی آیات کا حوالہ دے کر سادہ لوح مسلمانوں کو جنگ کی دعوت
دی جاتی ہے ۔قرآن خدا کا کلام ہے جو ۲۳ برس تک مسلسل حالات کے پیش نظروقفہ
وقفہ سے نازل ہواتھا۔ اسکی آیات کبھی کسی واقعہ کی نشاندہی کررہی ہوگی مگر
جب یہی آیات لوگوں کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں تو اسکے سیاق وسباق کا ذکر
نہیں کیا جاتا اور عام طور پر لوگوں کو مشتعل کیا جاتا ہے ۔ قرآن کی ان ۲۳
سال کو دو مختلف مدتوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ایک ۲۰ سال کی تو دوسر ی ۳
سال کی مدت ۔ بیس سال کی مدت میں قرآن میں وہ احکام اتر ے جو اخلاص ، اخلاق
، عبادت ، اصلاح اور عدل سے تعلق رکھتے تھے جب کہ تین سال کی مدت میں جنگ
کے احکام اترے جب کہ پیغمبر اسلام کے مخالفوں نے ایک طرفہ حملہ کرکے اہل
اسلام کے لئے دفاع کا مسئلہ پیدا کردیا تھا ۔ گویا قرآن میں جہاد بمعنی
قتال کی آیتوں کی حیثیت استثناء ہے ۔ اور یہ اسثناء ہر مذہب کی کتاب میں
پایا جاتا ہے جیسے گیتا میں ہے (O Arjun be ready and fight (chapter3:11)
۔ اسی طرح بائبل میں ہے Do not think
that I came to bring peace on earth. I did not come to bring peace but a
sowrd. (Mathew10:34 مگر اس سے یہ مفہوم غلط ہے کہ گیتا اور بائبل دہشت کی
تعلیم دیتے ہیں لہذا یہی معالمہ قرآن کا بھی ہے ۔
داعش جیسی خلافت کا ڈھونگ رچانے والی تنظیمیں جہاد کی آیتوں کا غلط مفہوم
بتاکر اسلام کی پاکیزہ تعلمیات کومجروح کررہی ہیں ۔ آج مسلمانوں کو اگر کسی
چیز کی سخت ضرورت تو علم کی ضرورت ہے ۔ اسی لئے پیغمبر اسلامﷺ نے جنگ بدر
کے قیدیوں کو اس شرط پر رہا کیا تھا کہ وہ مسلمان بچوں کو اپنے پیسوں سے
پڑھائینگے ۔ مسلمانوں کے پاس جب تک علم کی بیش بہا دولت تھی مسلمان ہر
میدان میں سرخرونظر آتے تھے مگر جوں ہی علم کی راہ سے بھٹکے ہر میدان میں
ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔ |
|