اور اب سراج الحق۔۔۔
(Farrukh Shahbaz, Lahore)
ان دنوں شہر لاہور سراج الحق کی
تصاویر سے بھرا نظر آتا ہے ۔جماعت اسلامی سیاست کے نئے ٹرینڈز کو دیکھتے
ہوئے متاثر کن نعرے بھی لا رہی ہے۔جیسے لاہور کی مختلف شاہراؤں پر’’ ظلم کے
خلاف مظلوم کے ساتھ،We are with Haqجیسے مختصر مگر اچھے نعرے بھی لکھے نظر
آتے ہیں۔جماعت اسلامی مینار پاکستان کے مقام پر پاور شو کرنے جا رہی
ہے۔جماعت کی تشہیری مہم دیکھ کر سچ پوچھیں تو اچھا لگا پورے پاکستان میں اس
پروگرام کی گونج سنائی دے رہی ہے۔اس مہم کا ایک رخ نہایت دلچسپ ہے سراج
الحق کی تصاویر کا زیادہ سے زیادہ استعمال اس کمپین کی خوبصورتی میں اضافہ
کر رہی ہے۔سراج الحق کی شخصیت کا سحر ان دنوں عوام پر طاری ہے،ان کی سادگی
کے قصے زبان زد عام ہیں۔سوشل میڈیا پر نومنتخب امیر جماعت اسلامی کی وہ
تصاویر پسند کی جارہی ہیں جس میں وہ کبھی کسی عام دوکاندار کے پاس کھڑے نظر
آتے ہیں تو کبھی اپنے کارکنوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے نظر آتے
ہیں۔اب سب عوامل کا فائدہ بہرحال جماعت اسلامی کو ملنے جارہا ہے۔
خیبرپختونخواہ کے دور افتادہ گاؤں میرزو میں پیدا ہونے والے سراج الحق کی
شخصیت کے اتنے پہلو ہیں کہ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔آپ اپنی
سادگی،درویشی کے اعتبار سے عوامی حلقوں میں ڈسکس ہو رہے ہیں۔اگر امیر جماعت
کے ماضی پر نظر ڈالی جائے توپتا چلتا ہے کہ دونوں ادوار میں بطور وزیر ان
کا دروازہ ہر خاص و عام کے لیے کھلا رہا۔ بلا تفریق مذہب و مسلک اور سیاسی
وابستگی کے کوئی بھی ان سے مل سکتا تھا۔ اسی لیے ان کی شخصیت ہردلعزیز رہی۔
انھوں نے سول سیکرٹریٹ میں خود خطبہ جمعہ اور نمازوں کی امامت کرواکر ایک
اور مثال قائم کی۔
سراج الحق دو دفعہ صوبائی وزیر خزانہ رہے، مگر انھوں نے قومی خزانے کو قومی
امانت سمجھا۔ حکومتی وزیر کے طور پر اندرون و بیرون ملک انھوں نے ایک نئی
ریت ڈالی اور ان دورہ جات میں ہوٹلوں کے بے تحاشا سرکاری اخراجات چھوڑ کر
اسلامک سینٹرز میں رہنا پسند کیا۔ اندرون ملک بغیر کسی پروٹوکول کے پبلک
ٹرانسپورٹ میں سفر ان کی خاصیت رہی۔ بطور وزیر انھوں نے سرکاری رہائش گاہ
کا استعمال نہیں کیا ۔ گاؤں میں خاندانی گھر کے علاوہ ان کی کوئی جائیداد
نہیں ہے۔ وہ اپنی ذاتی گاڑی کے مالک بھی نہیں ہیں۔
سراج الحق اردو، پشتو، انگریزی، فارسی، عربی اور دیگر زبانوں پر دسترس
رکھتے ہیں۔ اردو اور پشتو میں آپ کی تقاریرعوامی حلقوں میں پسند کی جاتی
ہیں۔ آپ جماعت اسلامی اور صوبائی حکومت کی طرف سے مشرق وسطیٰ اورکئی یورپی
ممالک کا دورہ کرچکے ہیں۔ آپ کی صلاحیتوں اوراہم دینی و سیاسی حیثیت کی
بدولت دنیا بھر سے آپ کو عالمی کانفرنسوں میں مدعو کیا جاتا رہا ہے۔ابھی
ابھی کے پی کے ،کے ایک نوجوان کا تبصرہ پڑھا ہے وہ لکھتا ہے-
’’ سراج صیب بہت ہردلعزیز شخصیت ہیں۔ پورے علاقے میں کوئی فوتیدگی ہو سراج
صیب پہنچ جاتے ہیں‘ کوئی بیمار ہو اس کی عیادت کرتے ہیں۔ لوگوں کے درمیان
مصالحت کراتے ہیں۔ لوگ بچوں اور غریبوں کو نظرانداز کرتے ہیں‘ مگر وہ انھیں
خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ مجھے وہ دن ہمیشہ یاد رہے گا جب میں چھٹی جماعت کا
طالب علم تھا اور سراج صیب پہلی بار وزیر بن کر ہمارے گاؤں آئے تھے۔لوگوں
سے بھری گاڑیاں آگے پیچھے چل رہی تھیں۔سراج صیب ایک بوڑھے عالم کو اپنی سیٹ
پر بٹھا کر خود پیچھے بیٹھ گئے‘ ان کی گاڑی کے اردگرد بچے کھڑے تھے۔ ہم
پہلی بار کسی کی یہ شان دیکھ رہے تھے‘ اتنے میں سراج صیب نے ہمارا حال
احوال پوچھا‘ ہماری کلاس کا پوچھا۔ یہ تو بچوں کے ساتھ ان کا رویہ ہے جبکہ
امسال رمضان میں ایک دینی تقریب سے واپس جا رہے تھے۔ راستے میں بازار کے
جتنے دودھ‘ مسالا اور پکوڑے بیچنے والے ملے، سب سے گلے ملے۔ ایک ادھیڑ عمر
پکوڑے والے کو گلے لگایا‘ تو اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ کئی آنکھیں خوشی
کے آنسوؤں سے نم ہو گئیں۔میرے دل سے دعا نکلی‘ سراج صیب! اﷲ آپ کو ہمیشہ
سلامت رکھے کہ کسی غریب کی خوشی کا سبب تو بنتے ہو‘ بھلے یہ بے سہارا لوگ
اپنے بڑوں سے اور کیا مانگتے ہیں‘ بس یہی پیار کے چند بول اور خوشی و فخر
کی چند گھڑیاں۔ سراج الحق نے پچھلی بار بہت کام کیے۔ اسکول‘ کالج‘ ہسپتال
اور پل بنائے۔ سڑکیں‘ کوچے اور بائی پاس تعمیر کیے۔اب ضلع دیر اچھا خاصا
ترقی یافتہ ہو گیا ہے‘‘۔ بہرحال یہ تو خاصی کمال کی بات ہے کہ ایک گڈریے کو
بھی جماعت نے صوبے کا سینئر وزیر اوراپنا امیر منتخب کر لیا اس کی مثال صرف
جماعت جیسی منظم اور حقیقی جمہوری جماعت میں ہی ملتی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ
کیاجماعت اسلامی اب عوام کو اپنی طر ف متوجہ کر پائے گی۔۔۔؟ |
|