عمران خان کے "یو ٹرن"

عمران خان یو ٹرن کے ماہر ہیں۔ بلکہ یو ٹرن کے بادشاہ ہیں۔ بات بات پر یو ٹرن لے لیتے ہیں۔ وہ اکثر گاڑی میں جارہے ہوں اور آگے نون لیگ والوں نے کنٹینر لگا کر راستہ بند کیا ہو تو ڈرائیور سے فوراً کہہ دیتے ہیں کہ یو ٹرن لے لو۔ڈرائیور پریشان ہو جاتا ہے کہ انہیں اچانک کیا ہو گیا ہے۔ کیا ہوا جو روڈ بلاک ہے۔ ہوا میں اُڑ کر بھی تو جایا جا سکتا ہے ۔خان صاحب کی یہی حرکتیں مخالفین کو تنقید کرنے کا موقع دیتی ہیں۔ اتنا بڑا یو ٹرن لیں گے تو شریک کیسے خاموش رہ سکیں گے۔ خان صاحب کا خانساما بھی خان صاحب کی اس عادت سے کافی پریشان رہتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ خان صاحب اکثر حکم دیتے ہیں کہ جلدی سے کھانا تیار کردو بہت بھوک لگی ہے۔ اور جب گیس کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے دو تین گھنٹے کی تاخیر سے کھانا تیار ہو جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ اتنی دیر کیوں کر دی۔ اب میری بھوک مر چکی ہے۔ اس میں یو ٹرن لینے والی کون سی بات ہے۔ جب کھانا تیار ہو چکا ہے تو اُسے کھابھی لینا چاہیے۔ اب خان صاحب کے سیکریٹری کی زبانی خان صاحب کے یو ٹرن کی کہانی سنیے۔ سیکریٹری شکوہ کر رہا تھا کہ ایک دن خان صاحب نے مجھے بڑی ایمرجنسی میں بلایا کیونکہ ایک بہت ہی اہم میٹنگ میں شامل ہونا تھا۔ سیکریٹری جب تیار ہو کر خان صاحب کے آفس پہنچا تو انہوں نے بڑے آرام سے کہہ دیا کہ میٹنگ کینسل ہو گئی ہے۔ سیکریٹری کو خان صاحب کے یو ٹرن سے زیادہ اس بات کا افسوس تھا کہ اُس نے تیارہونے میں جو سوا گھنٹہ صرف کیا ہے وہ بیکار گیا۔
یو ٹرن لینا خان صاحب کی آج کی نہیں بلکہ اُس وقت کی عادت ہے جب وہ کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ جاوید میانداد بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ انڈیا کے ساتھ فائنل میچ تھا۔ میچ کا آخری اوور تھااور انڈیا کی آخری وکٹ بچی تھی۔اور اُسے جیتنے کے لیے چھ گیندوں پر صرف نو سکور درکار تھے۔ آخری اوور عبدلقادر نے کروانا تھا ۔ عبدالقادر نے اوور کروانے کے لیے جب گیند سنبھالی اور اُسے تھوک لگا کر اپنے ٹراؤزر پر رگڑ رگڑ کر چمکا دیا تو خاں صاحب نے اُسے اوور کروانے سے منع کر دیا۔ خاں صاحب چونکہ ٹیم کے کپتان تھے اور کپتان کا حکم ماننا ٹیم کے ہر کھلاڑی پر فرض ہوتاہے۔ اس لیے عبدلقادر نے بھی نہ چاہتے ہوئے اپنے کپتان کا حکم مانا اور گیند عمران خان کے طرف اُچھال دی۔عمران خان نے گیند کو ہاتھ میں لیا، اُسے غور سے دیکھا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد گیند کو وسیم اکرم کی طرف اُچھال دیا۔وسیم اکرم نے دوسری ہی گیند پر مخالف ٹیم کی وکٹ اُڑا کر رکھ دی ۔ اور یوں وہ میچ پاکستان جیت گیا۔ میچ جیتنے کی خوشی ایک طرف لیکن میانداد بتاتے ہیں کہ پوری ٹیم خان صاحب کے اتنے بڑے یو ٹرن پر حیران تھی۔ اور یہ حیرانی کافی عرصہ تک چھائی رہی ۔ تجزیہ نگار کئی دنوں تک تبصرہ کرتے رہے کہ اگر عمران خان وسیم اکرم کو اوور نہ دیتے تو شائد یہ میچ ہاتھ سے نکل جاتا۔ پاکستان میچ تو جیت گیا تھا لیکن یو ٹرن کا طعنہ جو مخالف ٹیم نے ہمیں دیا تھا وہ آج تک نہیں بھولے۔

خان صاحب کے یو ٹرن پہ یو ٹرن سے خود تحریک انصاف والے بھی تنگ ہیں۔ایک دفعہ شیری مزاری بتا رہی تھیں کہ ایک سیاسی جلسے کے لیے خان صاحب کو ایک دھواں دار تقریر لکھ کر دی گئی ۔ لیکن جس دن جلسہ تھا اُسی دن کوئی ایسا واقعہ پیش آیا کہ ملکی سیاست کا منظر نامہ ہی بدل گیا۔ خاں صاحب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ فوراً اپنی تقریر کو خود ہی بدل کر حالات کے مطابق ڈھال لیا۔ وہ ہمارا کامیاب جلسوں میں سے ایک جلسہ تھا۔ لیکن اچانک تقریر کے بدلنے سے پارٹی کے اندر جو بے چینی چھا گئی تھی اُسے بڑی مشکل سے ہینڈل کیا گیا تھا۔ صرف یہی نہیں۔ اکثر پارٹی میٹنگ میں کسی اہم ایجنڈے پر بحث ہو رہی ہوتی ہے۔ اور خان صاحب کسی معاملے پر اڑ جاتے ہیں۔ اور پھر جمہوری طرز عمل پر ممبران کی اکثریت کا فیصلہ مان کر ایک اور یوٹرن لے لیتے ہیں۔

خان صاحب کے مخالفین کو تو اس بات کا موقع ملنا چاہیے کہ وہ کب یو ٹرن لیں اور کب اُن پر لعن طعن کی جائے۔اس پراجیکٹ پر جناب پرویز رشید صاحب، جناب خواجہ سعد رفیق صاحب، جناب طلال چوہدری صاحب، جناب رانا ثناء اﷲ صاحب، محترمہ ماروی میمن صاحبہ اور محترمہ عظمیٰ بخاری صاحبہ بہت خلوص دل سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ابھی عمران خان نے جو تازہ تازہ یو ٹرن لیا ہے اُس پر تو مخالفین کی تنقید سوفیصد بنتی ہے۔ عمران خان پورے تین مہینے کنٹینر پر کھڑے ہو کر (حالانکہ وہاں کرسی بھی رکھی ہوئی ہے جس پر وہ بیٹھ بھی سکتے ہیں) دھرنے والوں سے ہر روز خطاب کے دوران ایک ہی بات پر زور دیتے رہے تھے۔ وہ بات یہ تھی کہ میاں نواز شریف صاحب دھاندلی کر کے وزیر اعظم بنے ہیں اس لیے وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دیں۔جب تک وہ استعفیٰ نہیں دیں گے وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے۔چین سے بیٹھنے والی بات بھی ایک یو ٹرن ہے۔ حالانکہ جب شیخ رشید صاحب پر جوش خطاب فرما تے ہیں تو خاں صاحب چین سے ہی بیٹھے ہوتے ہیں۔ اور بڑے مزے سے شیخ صاحب کے منہ سے آگ نکالنے کا کرتب دیکھتے ہیں۔جب شاہ محمود قریشی صاحب حکومت پر گرج برس رہے ہوتے ہیں تو اُس وقت بھی خان صاحب کے دل کو بڑا چین اور بدن کوبڑا سکون ملتا ہے جو اُن کے چہرے پر عیاں ہوتا ہے۔جب گو نواز گو کے نعرے کی گونج خان صاحب کی سماعتوں کی نظر ہوتی ہے تووہ اپنا سارا دکھ بھول جاتے ہیں۔جب ڈی جے بٹ کے مرتب کردہ نغموں کی دھنوں پر جواں جسم تھرکتے ہیں تب بھی خان صاحب ساری پریشانیوں کو بھلا کر چند لمحوں کے لیے نشے میں جھوم جاتے ہیں۔لیکن ان ساری سہولیات کے باوجود خان صاحب نے ایک نیا پتہ پھینک دیا ہے۔ اور ایک ایسا یو ٹرن لیا ہے کہ سیاست کے سب پنڈتوں کو انگشت بدنداں کر دیا ہے۔ایسا یو ٹرن جو زندگی میں کسی نے نہ لیا ہو اور نہ سوچا ہو۔ایسا یو ٹرن جو سیاست کی دنیا میں بھونچال پیدا کر دے۔ایسایو ٹرن جو خوشی سے ناچنے پر مجبور کر دے۔ ایسا یو ٹرن جو حیران بھی کر دے اور پریشان بھی۔آخر وہ کون سا یوٹرن ہے جس نے سیاست میں ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ آخر وہ کیسا یو ٹرن ہے جس نے ایونوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ آخر وہ کیسا یو ٹرن ہے جس نے سیاست کے سارے اصول ہی بدل ڈالے ہیں۔۔۔ وہ یوٹرن یہ تھا کہ اگر میاں نواز شریف صاحب وزارت عظمیٰ سے مستعفی نہیں ہونا چاہتے تو بے شک نہ ہوں۔ لیکن ایک ایسی کمیٹی تشکیل دے دی جائے جو غیر جانبدارانہ الیکشن میں دھاندلی کی تحقیقات کرے۔اگر الیکشن میں دھاندلی ثابت ہو جائے تو میاں صاحب مستعفی ہو جائیں اور اگر حکومت کے مطابق الیکشن صاف اور شفاف تھے تو عمران خان اپنا دھرنا چھوڑ دے گا۔لیکن حکومت اس بات پر راضی نہیں ہو رہی۔ حالانکہ پہلے حکومت کا بھی یہی موقف تھا۔ اور اب وہ مکر رہی ہے۔۔۔ اس سے بڑا یو ٹرن اور کیا ہو سکتا ہے۔۔۔؟؟؟

Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 109812 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.