حالیہ دنوں جب پورے ملک میں نام نہاد مودی لہر چل رہی ہے
اور یکے بعد دیگرے ہندوستان کی ریاستیں بھگوا رنگ میں رنگتی جارہی ہیں ،جموں
و کشمیر سے ایک خوش آئند خبر آئی ہے ۔الیکٹرانک میڈیا نے جموں و کشمیر
اسمبلی انتخابات کے پیش نظر رائے دہندگی کا سروے کیا اور اپنے متعینہ اصول
و ضوابط کی روشنی میں خبر دی ہے کہ جموں و کشمیر میں’ مودی لہر‘ کے
مقابلے’مفتی لہر‘تیز ی سے چل رہی ہے جس کے نتیجے میں’ پیپلس ڈیمو کریٹک
پارٹی‘ جموں و کشمیر کی سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی ہے۔میڈیا نے اعداد
و شمار بتاتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر اسمبلی کی جملہ۸۴سیٹیں ہیں جن میں
سے پی ڈی پی ۳۵سے ۵۰سیٹیں تک حاصل کر ے گی جب کہ بی جے پی کی جھولی میں۲۰سے
۳۰سیٹیں ہی آسکتی ہیں ۔کانگریس اور نیشنل کانفرنس بڑے نقصان میں رہیں گی۔
میڈیا کے مفروضہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں ’مودی
لہر‘بالکل ناکام ہو کر رہ گئی ہے۔اس کے کیا اسباب ہیں ؟اور کیوں جموں و
کشمیر میں بھگوارتھ رک گیا ؟کیوں لوگ ’مودی لہر کو مسترد ‘کر رہے ہیں؟ ان
سوالوں کے جواب میں بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس کے لیے جہاں دیگر عوامل کار
فرما ہیں وہیں حال میں آنے والی قیامت خیز باڑھ اور مرکزی حکومت کی جانب سے
مبینہ لاپروائی ،فرقہ پرستی و بازآبادکاری میں سستی کا مظاہرہ،محض بیان
بازیاں اور کار ندارد وغیرہ۔ایسے اہم ترین عوامل ہیں جنھوں نے جموں و کشمیر
میں بی جے پی نیاڈ بودی۔
تمام دنیا نے یہ تماشا دیکھا کہ جموں و کشمیر کے عوام گردن گردن پانی میں
پھنسے تباہی کی مار جھیل رہے تھے ،وہاں زندگی کا قافیہ بالکل تنگ ہو کر رہ
گیا تھا،اس وقت اور مرکزی حکومت یا تو ’بیان بازی‘کررہی تھی یا پھرمجرمانہ
خاموشی اختیار کیے ہوئے تھی۔ اس قیامت صغرا پراسے افسوس تک کی بھی فرصت
نہیں تھی۔اسی کے ساتھ جموں و کشمیر کے عوام بھی اب مودی کے جعل،فریب اور
بناؤٹی چہرے کو جان چکے ہیں ۔انھیں یہ حقیقت اچھی طرح معلوم ہو گئی کہ اگر
ہم نے اپنی کمان بھارتیہ جنتاپارٹی کوسونپ دی تو اب کی بار ہمارا پتّا ہی
صاف ہو جائے گا۔
دفعہ۳۷۰ کے ہٹانے سے بھی بی جے پی صاف منع کر دیا اور اس کے ارادے افسپا کی
منسوخی کے بھی نہیں ہیں۔یہی دو بڑے مسائل کشمیریوں کی زندگی کو جہنم بنائے
ہوئے ہیں جن کی آگ میں وہاں کے عوام گزشتہ ۶۰؍برس سے جل رہے ہیں ۔ ہرپارٹی
نے ان مسائل کو دورکر نے کی یقین دہانیاں کر اکے انھیں دن کے اجالے میں بے
وقوف بنایا۔سابق نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحادی حکومت نے بھی سبز باغ
دکھائے،اسی طرح ابتدا میں بی جے پی نے بھی اسی طرح کے کارڈ کھیلے مگرچونکہ
اس کی نیت خراب تھی اس لیے بہت جلد مکاری اور فریب کاری سامنے آگئی اور
عوام بی جے پی کی اُس گھناؤنی سازش سے آگاہ ہو گئے جو اس نے معصوم کشمیریوں
کو کھدیڑ کر وہاں کشمیری پنڈتوں کو آباد کر نے کے ناپاک ارادے سے کی تھی۔اس
طرح گویا جموں و کشمیر کو دوسرا اسرائیل بنانے کی مذموم کوشش کی تھی۔
حالیہ دنوں بی جے پی رہنماؤں کے بیانات کی روشنی میں ایک نئی بات اور سامنے
آئی ہے وہ یہ کہ ’اب جموں و کشمیر کا نام بد ل کر ،جموں کشمیر و لداخ یا
جموں و کشمیر‘ہی رہنے دیا جائے جس میں لداخ کی اکائی کو بھی شامل کر دیا
جائے۔‘
قارئین کرام!یہ کس طرح کی سازش کی جارہی ہے۔ریاستوں کے نام تبدیل کر نے کے
یہ کیسے منصوبے ہیں ۔پتا نہیں بھگوا اس ملک کا کیا بنانے والے ہیں ۔اﷲ خیر
کر ے۔کہیں اس سے بڑی کوئی اور مصیبت ہم پر نازل نہ ہوجائے۔
آئیے جموں وکشمیر کے عوام کی اس پہل کا استقبال کر یں کہ انھوں نے مودی لہر
کو مستردکر دیا اور مضبوط،مقامی،عوام کی ہمدرد اور صاف ستھری شبیہ والی
پارٹی کا انتخاب کیا ہے۔
یقینا یہ خبر ہم تمام انصاف پسند باشندگان ہند بالخصوص مسلمانوں کے لیے تو
انتہائی مسرت کی باعث ہے کہ اب ’مودی لہر ‘رکنے والی ہے اور وطن عزیز کلّی
طورپر بھگوا رنگ سے محفوظ رہنے والا ہے۔خوشی کا مقام اس لیے بھی ہے کہ جموں
کشمیر ملنے والی اس تاریخی شکست کے بعد فروری میں منعقد ہونے والے دہلی
اسمبلی کے انتحابات میں بھی بی جے پی اقتدار سے محروم ہوجائے گی اور دہلی
بھگوا رنگ کے اثر سے محفوظ ہوجا ئے گی۔
دہلی والے یہ بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہاں مقامی سطح پر بھارتیہ
جنتا پارٹی کبھی انصاف سے کام نہیں لے گی۔اقتدار اس کے ہاتھ میں آتے ہی اس
کا فرقہ وارانہ رویہ عروج پر پہنچ جائے گا ۔پھر ہر دن یہاں ترلوک
پوری،بوانہ اور دیگر حساس علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات ہونے لگیں گے۔اس
کے علاوہ پولیس کی من مانی،رشوت خوری ،غیر سماجی عناصر کی غنڈہ گر
دی،دلالیاں، مہنگائی اور پانی کی قلت ، خاص طور سے صفائی ستھرائی کی بد
انتظامی یہاں کے بڑے مسائل میں سے ہے جن کی طرف بھا رتیہ جنتا پارٹی نے
بلدیہ میں رہنے کے باوجود کبھی توجہ نہیں دی۔ان تمام وجوہات کے سبب دہلی کے
عوام ان کی اولین ترجیح عام آدمی پارٹی کی جھاڑو کے ساتھ دینا ہوگی۔چو نکہ
وہ عام آدمی پارٹی کے ’وہ ۴۹‘دن نہیں بھولے ہیں جن میں دہلی کا شمار اچھی
ریاستوں میں ہونے لگا تھا۔ کانگریس کو بھی یہاں کے عوام بارہا آزما چکے ہیں
اس لیے اس سے زیادہ پر امید نہیں ہیں۔
خدا کر ے کہ جموں و کشمیر میں ’پیپلس ڈیمو کریٹک پارٹی‘میڈیا کے بتائے ہوئے
ان اعداد و شمار سے بھی زیادہ سیٹوں پر سبقت حاصل کرے اور دہلی میں بھی
بھگوا اقتدار سے محروم رہیں۔
ایں دعا ازمن وجملہ جہاں آمین باد! |