30 نومبر کا جلسہ: حکومت اور پی ٹی آئی آمنے سامنے

14اگست سے ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑی حکومت پاکستان اور پاکستان تحریک انصاف بھرپور طریقے سے سیاسی دھینگا مشتی میں مشغول ہیں۔ فریقین اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ملک میں کئی ماہ سے جاری اس سیاسی کشمکش میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور پی ٹی آئی کی جانب سے 30 نومبر کو اسلام آباد میں اپنے اہم ترین اور فیصلہ کن راﺅنڈ کی کال کے بعد سے اس محاذ آرائی میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک طرف پاکستان تحریک انصاف نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو دھرنے کے مقام پر ہی جلسہ کرنے کے لیے درخواست دی ہے اور وہ ہر حال میں اس جگہ پر جلسہ کر کے اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے تیاریوں میں مصروف ہے اور جلسے کی کامیابی کے لیے ہر حد عبور کرنے کے لیے تیار ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ ”اب ان کا صبر ختم ہوگیا ہے۔ اگر 30 نومبر کو ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی کی گئی تو وہ تمام حدود کو پھلانگ کر ان کی راہ مسدود کرنے والے تمام فریقین کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ 30 تاریخ کو پاکستان کی جنگ ہے، جس میں ہم سب کو اپنے حقوق کے لیے کھڑا ہونا ہے اور نوجوانوں کے ساتھ خواتین کو بھی نکلنا ہوگا۔“ تحریک انصاف کی جانب سے 30 نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والے جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے طاہر القادری و سراج الحق سمیت 90 سیاسی رہنماﺅں کو دعوت نامے بھجوانے کی تجویز بھی سامنے آئی ہے۔ جبکہ دوسری جانب حکومت کے تیور کچھ مختلف دکھائی دے رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ 30 نومبر کو صورتحال خراب کرنے کی کوشش کی گئی تو سختی سے نمٹا جائے گا۔ اسلام آباد پولیس کو دو واٹر کینن اور 12 ہزار سے زاید آنسو گیس کے شیل فراہم کر دیے گئے ہیں۔ نادرا چوک سے ریڈ زون میں سپریم کورٹ، پارلیمنٹ ہاﺅس اور ڈپلومیٹک انکلیو کو جانے والے راستے پر کنٹینر رکھ دیے گئے۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے آزاد کشمیر اور پنجاب کے مختلف اضلاع سے 30 ہزار اضافی نفری منگوانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ وزیر اعظم نوازشریف کا کہنا ہے کہ 30 نومبر کو کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ جبکہ وزیر داخلہ چودھری نثار کا کہنا ہے کہ شاہراہ دستور پر کسی کو جلسے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ تحریک انصاف کو جلسے کی اجازت ہے، لیکن دھاوا بولنے کی نہیں، ریاستی طاقت کو کمزوری نہ سمجھا جائے، حکومت تشدد کا جواب قانون کی طاقت سے دے گی۔ واضح رہے کہ عمران خان کے اتحادی عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کر کے عوام کو ریاست کے خلاف ا ±کسانے پر ننکانہ صاحب کی مقامی عدالت کے حکم پر مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

حکومت اور پاکستان تحریک انصاف اسلام آباد میں 30 نومبر کو مجوزہ جلسے کے حوالے سے لفظی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔ فریقین اپنے موقف پر مضبوطی سے قائم ہیں۔ عمران خان احتجاج کے لیے عوامی حمایت کے حصول کے لیے کافی جدوجہد کر رہے ہیں اور اسے یادگار بنانے کا وعدہ کر رہے ہیں۔ حکومت عمومی اور وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان خصوصاً اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی چیئرمین اور ان کی جماعت کو قوانین پر عمل کرنا ہوگا یا پھر ریاستی طاقت کا سامنا کرنا ہوگا۔ مگر دونوں اطراف میں بے یقینی کی کیفیت دکھائی دے رہی ہے۔ حکومتی حلقے اس رائے پر تقسیم کا شکار نظر آتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو جگہ دی جائے یا نہ دی جائے، حکومت کے تیزی سے بار بار بدلتے موقف اس بات کا واضح ثبوت ہیں۔ بہر حال ایسا نظر آتا ہے 30 نومبر کے جلسے کے حوالے سے کسی کے پاس بھی کوئی ٹھوس حکمت عملی موجود نہیں۔ اسلام آباد میں شاہراہِ دستور پر 30 اگست کے تشدد کے بعد اسلام آباد لوگوں کے بڑے ہجوم سے کافی محتاط ہے اور اسے احساس ہے کہ اگر اسے اوپر سے واضح احکامات موصول نہ ہوئے تو وہ اس طرح کی ہنگامہ خیز صورتحال سے نمٹنے کے لیے ناکافی صلاحیت رکھتی ہے۔ جب مظاہرین نے شاہراہ دستور پر دھاوا بولا تھا تو پولیس ان کی پیشرفت کے سامنے بے بس نظر آئی تھی، کیونکہ انہیں جوابی کارروائی کے لیے واضح احکامات نہیں ملے تھے اور ابھی بھی یہ واضح نہیں کہ اگر 30 نومبر کو بھی تشدد پھوٹ پڑا تو کون مشتعل ہجوم کے خلاف کارروائی کے احکامات دے گا۔ 30 نومبر کو جلسے کے حوالے سے اسلام آباد پولیس کافی زیادہ محتاط ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی اور ضلعی انتظامیہ کے درمیان بات چیت جاری ہے۔ پی ٹی آئی ڈی چوک پر جلسے کے لیے اصرار کر رہی ہے، جہاں عمران خان کا کنٹینر موجود ہے، جبکہ انتظامیہ متبادل جگہ کی پیشکش کی کوشش کر رہی ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے پہلے ہی زیرو پوائنٹ، ایف نائن پارک، کشمیر ہائی وے اور آبپارہ میں جلسے کے انعقاد کی پیشکشوں کو مسترد کیا جا چکا ہے۔ پی ٹی آئی کے حامیوں کی آمد کے پیش نظر ڈی چوک کے ارگرد کنٹینرز کو پہلے ہی لگایا جاچکا ہے اور ایسی رپورٹس بھی آ رہی ہیں کہ حکومت کی جانب سے ریڈزون میں انٹری کو ایک آرڈنینس کے ذریعے غیر قانونی قرار دیا جاسکتا ہے۔ تاہم ابھی تک کوئی واضح رپورٹ سامنے نہیں آئی۔ حالات کو معمول پر رکھنے کے لیے انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں، لیکن حکومت نے مظاہرین کے حوالے سے اب تک کوئی واضح ہدایات جاری نہیں کی ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ہم صورتحال سے نمٹنے کی تیاری کر رہے ہیں اور اپنے اہلکاروں کے لیے تربیتی کورسز کو شروع کیا ہے، تاہم واضح ہدایات نہ ہونے کے باعث ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، ہم پالیسی ساز نہیں، پولیس اور انتظامیہ کا کام صرف احکامات پر عمل کرنا ہوتا ہے۔

پی ٹی آئی اس اہم جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے پرعزم نظر آتی ہے۔ پارٹی کی کور کمیٹی کے رکن ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کی جانب سے ان کے حامیوں کو ڈی چوک تک پہنچنے سے روکنے کی کوشش کی گئی تو پھر وہ تصادم اور ردعمل کی خود ذمہ دار ہوگی۔ نواز لیگ وفاق اور پنجاب میں حکومت کر رہی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں، وہ ہمارے 30 نومبر کے جلسے کو ناکام بنانے کے لیے ہر حربے کا استعمال کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی اپنے راستے میں آنے والے ہر قسم کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی حامیوں کو کہا جاسکتا ہے کہ وہ بڑے گروپس کی شکل میں سفر کریں، تاکہ وہ دار الحکومت کی جانب جانے والے راستوں کو بلاک کرنے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنا سکیں۔ صوبائی حکومت 30 نومبر کے جلسے کے حوالے سے اپنے منصوبوں پر سختی سے ہونٹ بند کیے ہوئے ہے، مگر ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے پی ٹی آئی ورکرز اور حامیوں کو پنجاب سے اسلام آباد میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق ”چودہ اگست کو ہمارے منصوبے عوام کے سامنے پہلے ہی آگئے تھے، مگر اس بار ہم نے انہیں خفیہ رکھا ہوا ہے اور ہم انہیں عملی شکل دینے کے لیے ایونٹ کے دن تک انتظار کریں گے۔ ذرائع کے مطابق سیکڑوں پی ٹی آئی رہنماﺅں اور ورکرز کو جلسے سے قبل حراست میں لیا جا سکتا ہے۔ عمران خان کے سخت بیانات اور حکومتی فیصلوں کے پیش نظر ملک کے موجودہ حالات میں تصادم اور ٹکراﺅ کے خدشات جنم لیتے دکھائی دے رہے ہیں، لیکن ذرائع کے مطابق 30 نومبر کو عمران خان کوئی بڑا قدم اٹھانے سے گریز کریں گے، کیونکہ جہاں عمران خان نے پاکستان میں تعینات چینی سفیر سن وے ڈانگ سے ملاقات کر کے انہیں 30 نومبر کو ہونے والے جلسے سے متعلق مختصر طور پر آگاہ کیا، وہیں اسلام آباد میں جلسے کے حوالے سے اسلام آباد میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن سے بھی ملاقات ہوئی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں امریکی سفیر نے عمران خان کو واضح پیغام پہنچایا کہ خطے میں جو نئی ڈویلپمنٹ ہو رہی ہے، اس کے تناظر میں حکومت گرانے یا پاکستان میں سیاسی عدم استحکام نقصان دہ ہوگا، تصادم کا راستہ اپنایا گیا تو امریکی حکومت سپورٹ نہیں کرے گی۔ ذرائع کے مطابق عمران خان نے امریکی سفیر کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ 30 نومبر کا جلسہ پرامن ہوگا۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701228 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.