ٹنڈومحمدخان جسے کبھی پاکستان نے سب سے
زیادہ چینی یعنی شوگر بنانے کا اعزاز حاصل تھا اور اسی وجہ سے شوگر اسٹیٹ
بھی کہا جاتا تھا ، لیکن اس شوگر اسٹیٹ کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ، جس
کی وجہ سے اس ضلع کی پانچ شوگر ملوں میں سے دو شوگر ملیں بند ہوچکی ہیں اور
باقی تین شوگر ملوں کی پروڈیکشن میں بھی خاطر خواہ کمی ،واقع ہوئی ہے ، اس
ضلع کو شوگر اسٹیٹ کا درجہ دلانے والے مزدور خود اپنے حقوق کیلئے احتجاج
کررہے ہیں ، ٹنڈومحمدخان ضلع کی حدود میں پانچ شوگر ملیں واقع ہیں ، جن میں
ٹنڈومحمدخان شوگر ملز، سندھ آبادگار شوگرملز ، فاران شوگر ملز ، سیری شوگر
ملز اور انصار ی شوگر ملز شامل ہیں ، ان شوگر ملوں میں سے سابق گورنر سندھ
مرحوم اشرف ڈبلیو تابانی کی دو شوگر ملیں ہیں جوکہ گذشتہ کئی سالوں سے
مشکلات میں گھرنے کے بعد بالآ خر بند کردی گئی ہیں اور ان ملوں میں کام
کرنے والے 12سو سے زائد ملازمین کو بھی بنا کسی نوٹس اور حساب کتاب کے بغیر
فارغ کر دیا گیا ہے ، جبکہ یہ دونوں شوگر ملیں اب بھی آبادگاروں کی کروڑوں
روپوں کی مقروض ہیں اور حکومت کے ٹیکس اور لون کی مد میں بھی قرضدار ہیں ،
لیکن اتنے سالوں سے اپنے عروج پر چلنے والی یہ دونوں شوگر ملیں زوال پزیر
کیوں ہوئیں یہ وہ سوال ہے جس سے لوگوں کے ذہنوں میں کئی سوالات جنم لے رہے
ہیں ، ٹنڈومحمدخان اور سیری شوگر ملز کی پروڈیکشن لاکھوں میں ہوا کرتی تھیں
، لیکن آخر یہ اس نہج پر پہنچ گئیں کہ کریشنگ سیزن کے آغاز پر ہی نو کین کا
شکار ہونے لگیں ، اس کی کئی وجوہات ہیں ، ایک تو یہ کہ دونوں ملیں
آبادگاروں کی کروڑوں روپوں کی مقروض ہوگئیں ، لیکن یہ کوئی خاص وجہ نہیں
کیوں کہ آبادگاروں کی مقروض کو باقی تمام شوگر ملیں بھی ہیں تو پہر وہ کیوں
بند نہ ہوئیں یا نو کین کا شکار نہ ہوئیں ، شاید شوگر سیس کی مد میں دیا
جانے والا ٹیکس ادا نہیں کیا گیا اور اسی وجہ سے سیری شوگر مل کی نیلامی کا
نوٹس حکومت نے اخبار میں شایع کروایا ، لیکن شوگر سیس کے ٹیکس تو شاید ہی
کوئی مل وقت پر ادا کرتی ہے ، اس لئے بات کچھ اور ہے ، تو پہر شاید ان ملوں
کی سی بی اے ورکرز یونین کہ بڑھتے ہوئے مطالبات ان ملوں کی بند ش کی وجہ
بنے لیکن ایسا ہر گز نہیں کیوں کہ ان ملوں میں تو حکومت کی جانب سے اعلان
کردہ اجرت بھی بڑی مشکل سے ملتی تھی ۔
|
|
شوگر ملوں کی بند ش پر انتظامیہ کیا کہتی ہے اس حوالے سے اے جی ایم سیری
شوگر مل معین الدین نے گذشتہ سال کریشنگ سیزن کے دوران نوکین کا شکار ہونے
پر آبادگاروں اور مزدوروں کیساتھ احتجاج کرتے ہوئے بتایا کہ ہماری دونوں
شوگر ملوں کو بند کروانے کیلئے اور خریدنے کیلئے کئی سالوں سے کوشش کی
جارہی ہے ، لیکن ہمارے مالکان کی جانب سے ملز فروخت کرنے سے انکار کے بعد
ایک بااثر سیاسی شخصیت جس کی سندھ میں کئی شوگر ملیں ہیں ، مختلف طریقوں سے
مالکان کو پریشرائز کررہا ہے اور اسی وجہ سے کبھی ہمیں پولیس کے ذریعے تنگ
کیا جاتا ہے تو کبھی ہمارے پاس آنے والی گنے کی گاڑیوں کو روک لیا جاتا ہے
اور کبھی ہماری ملز کو مختلف بہانوں سے سیل کروادیا جاتا ہے ، موصوف آفیسر
کا یہ بیان گذشتہ سیزن کے دوران اس وقت دیا گیا جب آفیسر کالونی پر پولیس
نے چڑھائی کی تھی اور مختلف چیک پوسٹوں پر سیر ی شوگر ملز آنے والی گاڑیوں
کو روک لیا گیا تھا ، انہوں نے تو اس بااثر شخصیت کا نام بھی لیا تھا لیکن
انتظامیہ نے اس حوالے سے ہمیں کوئی بھی ثبوت نہیں فراہم کیا تھا اس لئے ہم
ان کا نام نہیں دے رہے ہیں ، لیکن سمجھنے والے سمجھ گئے ہونگے کہ یہ بااثر
شخصیت کو ن ہے ۔
|
|
اس تمام صورتحال کے پیش نظر ٹنڈومحمدخان شوگر ملز نے تو گذشتہ سال اپنے
کریشنگ سیزن کا آغاز ہی نہیں کیا اس سے پہلے ہی اختتام کر کے ملازمین کو
جبر ی چھٹیاں دے دی گئیں ، جبکہ سیری شوگر ملز کو بھی وقت سے پہلے ہی بند
کردیا گیا ، جس کے بعد سے اب تک ان دونوں شوگر ملوں کو تالے لگے ہوئے ہیں
اور اب دوسرا سیزن اسٹارٹ ہونے والا ہے ، لیکن ان ملوں کے کریشنگ سیزن
اسٹارٹ کرنے کے دور دور تک کوئی امکانات نہیں ، جس کے باعث ان ملوں میں کام
کرنے والے سینکڑوں ملازمین بیروزگاری کا شکار ہوگئے ہیں ، اس حوالے سے
دونوں شوگر ملوں میں قائم سی بی اے ورکرز یونین کے رہنماؤں ارشد نوناری اور
اقبال ہاجانو کا کہنا ہے کہ دونوں ملوں کی بند ش کے پیچھے انتظامیہ کی
نااہلی کیساتھ ساتھ ایک بااثر سیاسی شخصیت ملوث ہے ، جس کی سندھ کی شوگر
انڈسٹریز پر آجارا داری قائم ہے ، دونوں ملوں کے ملازمین کو نہ تو فارغ کیا
گیا ہے اور نہ ہی انہیں کوئی بقایا جات ادا کئے گئے ہیں ، بس ملوں کو تالے
لگار کر سیکیورٹی گارڈ بٹھا دیئے گئے ہیں اور تمام آفسران کو بھی لمبی
چھٹیوں پر بھیج دیا گیا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ ان جاگیرداروں اور سرمایہ
داروں کی اس ساری جنگ میں مزدوروں نے کیا قصور کیا ہے ، ان دونوں ملوں میں
ملازمین کی بڑی تعداد کا تعلق مقامی علاقوں سے ہے اور ان کے بیروزگار ہونے
سے ٹنڈومحمدخان کی زراعت اور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ، ہم صدر
پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان ملوں کی بند ش کے
معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے ملوث افراد کیخلاف سخت کاروائی کریں اور ان ملوں
میں کام کرنے والے سینکڑوں مزدوروں کو انصاف فراہم کریں ۔ |