اس وقت جب عوام کو بہت سے بحران
درپیش ہیں وہاں اب نیا بحران یہ پیدا ہوگیا ہے کہ سوئی گیس کے گھریلو
صارفین کو گیس پریشر میں شدید کمی کا سامنا ہے۔ شہر کے بعض علاقوں میں تو
سارا سارا دن گیس بالکل غائب رہتا ہے اور خواتین خانہ کو تہجد کے وقت بیدار
ہوکر کھانا بنانا پڑ تا ہے۔ اور حالات یہ بتا رہے ہیں کہ موسم سرما کی آمد
کے ساتھ ہی گیس بحران کی شدت میں اضافے کا خدشہ ہے۔ سوئی گیس کے پریشر میں
کمی کے باعث لوگ اور بالخصوص گھریلو خواتین احتجاج پر مجبور ہیں۔ سوئی گیس
جو پہلے لوگوں کو ذرا کم مشقت کے ساتھ میسر تھی اب وہ بالکل ناپید ہوتی
جارہی ہے ، جس کی ایک بڑی وجہ کثیر تعداد میں CNG سٹیشن کا قیام ہے جہاں
گیس کی مجموعی پیداوار کا کثیرتعداد میں استعمال بلکہ ناجائز اصراف کیا
جارہا ہے۔ اس قت ملک میں 3400 سے زائد CNG اسٹیشنز موجود ہیں۔ ایک سی این
جی اسٹیشن تقریباً 1 ہزار گھروں کے برابر گیس استعمال کرتا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گیس کی کل پیداوار کا تقریباً 19 فیصد گھریلو
استعمال، 38 فیصد توانائی، 16 فیصد فرٹیلائیزر، 9فیصد سی این جی اسٹیشن، 15
فیصد صنعت جب کہ 3 فیصد دیگر استعمال پر خرچ ہوتا ہے۔ گیس کی کل پیداوار
3428 ملین مکعب کیوبک فٹ ہے جس میں سے 2458 ملین مکعب کیوبک فٹ سندھ میں
پیدا ہوتا ہے جوکہ اس پیداوار کا 71 فیصد بنتا ہے۔ اس وقت سندھ میں تقریباً
600 سے زیادہ CNG اسٹیشنز جوکہ ملک کے مجموعی اسٹیشنز کا تقریباً 17.5 فیصد
بنتا ہے، اس میں سے کراچی میں تقریباً 350 اسٹیشنز ہیں۔ اس وقت پاکستان میں
دنیا میں سب سے زیادہ گاڑیاں CNG پر چلائی جاتی ہیں اور سب سے زیادہ CNG
اسٹیشنز ہیں۔جبکہ جس طرح ہمارے ملک میں CNGاستعمال کی جاتی ہے اس سے
CNGسیکٹر پر صرف 9فیصد سوئی گیس کا صرف ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔
آخر اس بحران تک ہم کیسے پہنچے اس کا اندازہ CNGسٹیشن پر جاکر بخوبی لگایا
جاسکتا ہے جہاں امیر لوگ لمبی لمبی قطار یں بناکر اس طرح CNG بھروانے میں
مصروف ہیں جیسا کہ غریب عوام کو شناختی کارڈ بنوانے کے لیے نادرا کے دفاتر
کے باہر اپنی جوتیاں گھسانا پڑتی ہیں۔ ملک میں گیس جوکہ توانائی کا ایک
non-revenueable ذریعہ ہے اس کو جس بے دردی سے ٹرانسپورٹ میں ضایع کیا گیا
اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔بڑی بڑی بسیں اور ویگنیں جن کا کام ہی ایک
جگہ سے دوسری جگہ لوگوں کو لے جانا ہے دن رات گیس کے ختم ہوتے ہوئے ذخائر
میں برابر کی ذمے دار ہیں۔ ان میں سے اکثریت عوام سے ڈیزل کے کرائے لیتی ہے
اور گاڑیوں میں معیاری سی این جی سلنڈر کی جگہ آکسیجن سلنڈر استعمال کیے
گئے ہیں جس سے کئی ہزار لوگوں کی جانیں بھی ضایع ہوئیں ۔ اس کے علاوہ وہ
لوگ بھی جو 1500 CC سے زیادہ بڑی گاڑیاں اور ڈرائیور رکھنا تو برداشت
کرلیتے ہیں، لیکن گاڑیوں میں پٹرول کی جگہ گیس ڈلوانے کو ترجیح دیتے ہوئے
نظر آتے ہیں۔ فرٹیلائیزر انڈسٹری کو بھی اپنی Operating Cost کم کرنے کے
لیے مارکیٹ سے انتہائی کم نرخوں پر گیس فراہم کی جارہی ہے، دن رات اس قدرتی
وسیلے کا بے دریغ استعمال کا الزام ہم سب پر لازم ہے کسی نے اس بات کی طرف
توجہ ہی نہیں دی کہ آخر ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہئیں؟ اگر ترجیحات کو
دیکھا جائے تو سب سے پہلے اس گیس پر حق جو گھریلو صارفین کا ہے اس کے بعد
توانائی ، پھر صنعت، پھر فرٹیلائیزر کو آنا چاہیے جب کہ ٹرانسپورٹ کا شعبہ
سب سے آخر میں آنا چاہیے، پبلک ٹرانسپورٹ کے شعبے میں سی این جی کا استعمال
اب بند کردینا چاہیے۔ اور ہمارے پڑوسی ملک کی طرح جہاں ڈیزل پر سبسڈی دی
جاتی ہے حکومت کو یوں ہی بڑی ویگنوں اور بسوں میں ڈیزل کے استعمال کو
دوبارہ فروغ دینا چاہیے۔ اسی طرح ایل پی جی کے استعمال کی بھی ترغیب دی
جانی چاہیے، ہمارے پٹرولیم کے وفاقی مشیر صاحب کافی عرصے سے سی این جی کی
درآمد کی بات کر رہے ہیں، لیکن یہ سب چیزیں صرف فائلوں تک ہی محدود ہیں۔
گیس کے لائن لاسز جو ہمارے ہاں دنیا میں سب سے زیادہ ہیں ان کو کنٹرول کرنے
کی شدید ضرورت ہے اور وہ گیس جو مختلف اشیا کے استعمال پر جلاکر ضایع کی
جارہی ہے اس کو بھی سسٹم میں لانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس مقصد کے
لیے پرائیویٹ سیکٹر کے تعاون سے سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے۔ اس وقت ملک میں
کئی ایسے گیس کے کنوئیں موجود ہیں جہاں گیس تو بہت موجود ہے مگر اس کو پائپ
لائن میں لانا ابھی تک سود مند ثابت نہیں ہوا۔ اس مقصد کے لیے بھی ہنگامی
اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔
اس وقت ملک کو بجلی کے شدید بحران کا سامنا ہے۔ گیس کی بچت کے ساتھ اس گیس
کو CNGکی بجائے بجلی بنانے میں استعمال کرکے معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے
انتہائی اہم کردار ادا کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ گیس درآمد کرنے کے لیے
ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ گیس کے نئے ذخائر کی تلاش، تھرکول
منصوبے پر پیشرفت اور بڑی گاڑیوں میں سی این جی ڈلوانے پر پابندی اس بحران
کی سنگینی میں کسی حد تک کمی کرسکتی ہے۔ بحیثیت قوم ہم ہمیشہ قلیل مدتی
منصوبہ بندی پر توجہ دیتے ہیں اور ہمیشہ طویل المدتی تجاویز کو نظرانداز
کرتے ہیں جس کا نتیجہ ایک بحران کی شکل میں ہمیں منہ چڑھا رہا ہوتا ہے۔
گھریلو صارفین کو گیس پریشر میں کمی کے بحران سے نجات اور اس مسئلہ کے
دیرپا حل کیلئے حکومت وقت اور ہم سب کو ملکر قوم میں CNGکے استعمال کے
حوالے سے اجتماعی شعور بیدار کرنا ہوگا۔ موجودہ حکومت کو گھریلو گیس صارفین
کے لیے گیس پریشر میں اضافہ کرنا چاہیے ، اس کے ساتھ ساتھ CNGسیکٹر میں
کفایت شعاری سے سوئی گیس کے استعمال کو یقینی بنانے کے لیے سخت پابندیاں
عائد کرنا چاہیے تاکہ اس انمول نعمت کے ضیاع کی بجائے اس سے زیادہ سے زیادہ
استفادہ کیا جاسکے۔ |