سیلاب یا عذاب + مجرم حکومت یا عوام ؟؟
(Dr Mian Ehsan Bari, Bahwalnagar)
2010ء میں بھی ایک بڑ اسیلاب آیا
تھا اس سیلاب کے دوران جو حکومتی بے ضابطگیاں اور خامیاں زیادہ نقصان کا
باعث بنی تھیں ان کا جائزہ لینے کیلئے جو جسٹس منصور کی سربراہی میں کمیشن
بنایاگیا تھا ا س کی رپورٹ کو درخوراعتناہی نہ سمجھنا اور خامیوں ،
کوتاہیوں کی نشاندہی کے باوجود انہیں دور نہ کرنا بیوروکریسی اور گڈ گورننس
کے منہ پر طمانچہ ہے۔ سیلابی مال ہڑپ کرجانا، بازاروں میں بیچ کر کرپٹ
حکومتی ذمہ داروں اور سرکاری کارندوں کا اپنی توندیں مزید موٹا کرنا سیلاب
متاثرین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف عمل ہے۔بلاشبہ قدرتی آفات پر کسی
کا اختیار نہیں ہوتا لیکن جو آفات باربار آتی ہیں ان سے بچنے کے اقدامات و
انتظامات ہر اچھی حکومت کرتی ہے لیکن پاکستان وہ بدقسمت ملک ہے جہاں
حکمرانوں نے نعرے بازی اور فوٹو سیشن کروانے کے علاوہ ایسا کبھی نہیں سوچا۔
اسی لئے امسال سیلابوں نے پہلے سے بھی زیادہ تباہی مچائی ہے ۔چیف
میٹرالوجسٹ کے بقول انہوں نے جولائی میں ہی صوبائی حکومت کو شدید بارشوں کے
بارے میں پشین گوئی کردی تھی ۔قرآن مجید کو ہم ’’کتاب ثواب‘‘ سے زیادہ
اہمیت نہیں دیتے ، اسی لئے حکمران اور عوام اس سے کبھی راہنمائی نہیں لیتے
۔حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے میں قدرتی آفات سے نمٹنے کی مثال دی گئی ہے
محض ایک خواب کی ہی بنیاد پر مستقبل میں آنے والے بدترین قحط اور خشک سالی
سے نمٹنے کیلئے بہترین منصوبہ بندی کی گئی اسی میں ہمارے لئے بہترین سبق ہے
ممکنہ سیلاب جب مقبوضہ کشمیر کے پہاڑوں سے شروع ہوتا ہے تو پہلے ہی پشین
گوئی ہوجاتی ہے پھر خوگوش کی طرح خواب غفلت کے مزے لوٹتے رہنے کا کیا جواز
ہے؟ جو پہلے اقدامات اس کے تدارک کیلئے کئے جاسکتے ہیں وہ تو ضروری امر ہیں
مثلاً دریاؤں ے اندر بنی ہوئی ناجائز تجاوزات ، پشتوں اور بندوں کی
مضبوطی(جبکہ ایسی فراہم کردہ رقوم جعلی بلوں کے ذریعے برسر اقتدار ٹولا اور
بیوروکریٹ آپس میں بانٹ لیتے ہیں) ڈیموں اور پانی کے ذخائر کی مرمت اور
تعمیر، عوامی آگاہی کہ سیلاب کی صورت میں کس نے کہاں منتقل ہونا ہے اور اس
کے لئے مناسب وسائل کی فراہمی وغیرہ اس طرح سے ریلیف کا نظام بھی پہلے تیار
ہونا چاہئے ۔حکومتی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹیز کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر
ہے سرکاری سطح پر صرف فوج کا کام ہی قابل تحسین ہے یا پرائیویٹ سیکٹر میں
سیاسی جماعتوں کا باالخصوص دینی مزاج کی حامل تنظیموں کا کہ درددل رکھنے
والے لوگ ابھی تک دنیا میں موجود ہیں ۔پاک فوج نے تو لوگوں کو بچاتے ہوئے
اپنے جوانوں کی بھی جانیں قربان کی ہیں ۔ سویلین حکمران ہوں یا مک مکا کرتی
ہوئی اپوزیشن انکی کارکردگی صرف فوٹو گرافی تک ہی سامنے آئی ہے ۔اسی لئے تو
انہیں ’’گو زرداری گو‘‘ اور ’’نو عمران نو‘‘ کے نعرے سننے پڑے حالانکہ
مصیبت زدہ ذہن غیر سیاسی ہوچکا ہوتا ہے ۔بھارت کے چھوڑے ہوئے پانی سے سیلاب
میں زیادہ شدت آئی جس سے پہلے چاردنوں میں ہی 250افراد ہلاک ہوگئے ۔سیلابی
علاقوں میں طوفان نوح کا منظر تھا لاہور میں بارش کے باعث ایک مسجد کی چھت
گرنے سے 25نمازی جاں بحق ہوگئے صرف 10دنوں بعد 30لاکھ افراد متاثر ہوچکے
تھے جن میں سے تقریباً ایک لاکھ کو کیمپوں میں منتقل کیا جاسکا اوروہاں بھی
شریفوں کی حکومتوں کی کارکردگی کوئی اچھی نہ رہی۔20لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں
تباہ ہوگئیں۔ 3000دیہات تباہ ہوئے اور تیس ہزار سے زائد مکانات کو جزوی
نقصان پہنچا جبکہ بعد میں یہ تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی ۔ حکومتی چیک بھی
جعلی ثابت ہونے لگے جبکہ زیادہ تر رقوم مقامی انتظامیہ ہڑپ کرگئی ۔قومی
معیشت کو دوارب ڈالر سے زائد نقصان کا اندیشہ ہے صرف پنجاب میں انفراسٹرکچر
کو -12ارب روپے کا نقصان پہنچا ہے ۔زرعی شعبے کا کل نقصان 1250ارب سے زیادہ
کاہوا پنجاب میں80واٹر سپلائی کی سکیمیں اور 250 واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس بھی
متاثر ہوئے سیلابی پانی کی تباہی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ
قبرستان بھی ڈوب گئے اور دیہاتوں میں لاشوں سمیت قبریں پانی میں بہہ گئیں
اور مرنے والوں کیلئے قبروں کی جگہ ڈھونڈنا مشکل ہوگیا۔ شریف برادران کے
دوروں کے باوجود کئی علاقوں میں بچے بوڑھے بھوک پیاس سے بلکتے رہے ہفتوں ان
تک امداد نہ پہنچ سکی۔زیادہ جگہوں پر سیلاب زدگان کی جعلی خیمہ بستیاں اور
ہسپتال بسا کر نام نہاد خادم اعلیٰ کو خوب بیوقوف بنایا گیا اور ہیلی کاپٹر
کے اڑتے ہی ’’بھان متی کا کنبہ‘‘ گھروں کو سدھار گیا اور امدادی سامان ہڑپ
کرلیا گیا یا اس کی رقوم مادرپدر آزاد لوگوں کے پیٹوں میں زہریلے سانپوں کی
طرف گھس گئیں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو عقل کل
سمجھتے ہیں تجربہ کار اہلکاروں کی بھی نہیں سنتے جیسے کنٹینر باز لیڈران
کسی بھی مشورہ کو درخوراعتناء نہیں سمجھتے اور صرف اپنی ہی سناتے ہیں۔
موجودہ دور کا سیاسی لیڈر نہ صرف ناتجربہ کار ہے بلکہ کانوں سے بھی بہرے
ہیں صرف منہ سے آگ کے شعلے اگلنا ہی شیوہ ہے ۔پنجاب کا بجٹ توصرف اسی وجہ
سے آدھے سے زیادہ اسراف میں یا دوروں کے انتظامات پر خرچ ہوجاتا ہے۔ کاغذوں
میں اربوں روپے کے منصوبوں کا عملاً کوئی وجود ہی نہیں ملتا۔ یہ بات اظہر
من الشمس ہے کہ سیلاب تو خدائی آفت اور عذاب ہے ہی جو کہ ہماری نافرمانیوں
اور بدکرداریوں کا نتیجہ ہے مگر موجودہ حکمران اور مک مکائی اپوزیشن بھی
عذاب الٰہی سے کم نہیں جو کہ ہماری ہی خود لائی ہوئی آفت بذریعہ بیلٹ
ہے۔دعاگو ہیں کہ خدا ان عذابوں سے جان چھڑائے اور اپنے نام سے بنی ہوئی
’’اﷲ اکبر تحریک‘‘ کا کامیاب و کامران کرے تاکہ عوامی مسائل احسن طریق سے
حل ہوسکیں اور آئندہ تباہیوں کا پہلے سے تدارک کیا جاسکے ۔ |
|