ملک کے مختلف حصوں میں عراق و
شام میں سفاکیت و درندگی کی انتہا کا مظاہرہ کرنے والی تنظیم داعش ( دولت
اسلامیہ عراق والشام)کی موجودگی کی خبروں نے گذشتہ چند ہفتوں میں خاصی
اہمیت حاصل کی ہے،یہ خبریں کئی شہروں میں داعش اور اس کے نام نہاد خود
ساختہ خلیفہ ابوبکر البغدادی کے حق میں کی جانے والی وال چاکنگ اوربعض
مقامات پر بینرز و پوسٹرز سامنے آنے سے متعلق ہیں یا پھر عالمی میڈیا میں
آنے والی ان رپورٹس پر مبنی ہیں جو داعش سے مربوط ہونے والے بعض منحرف
طالبان کمانڈرز کے دعووں کا پتہ دیتی ہیں، عالمی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا
میں اس دہشت گرد عالمی گروپ کو اب ایک بڑا خطرہ کے طور پر پیش کیا جا رہا
ہے جس کا ہدف یہ محسوس ہوتا ہے کہ داعش کے نام سے عام پاکستانی عوام
بالخصوص ان کے نظریاتی و مسلکی مخالفین کو ڈرایا جائے اور ان پر خوف و وحشت
کے پہرے بٹھا دیئے جائیں ہم نے دیکھا کہ داعش کی موجودگی کے دعووں بالخصوص
اس میں بھرتی کیئے جانے والے دہشت گردوں کا تعلق بھی کرم ایجنسی و ہنگو ،کوئٹہ
وغیرہ سے بتایا گیا ہے جو پہلے ہی فرقہ وارانہ جنگوں اور لڑائیوں کے حوالے
سے ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں،جبکہ یہ علاقے پاکستان کے انتہائی حساس بارڈر
ایریاز میں بھی شامل ہیں،یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستانی افواج کے سپہ
سالار جنرل راحیل شریف نے اپنے حالیہ دورہ امریکہ میں اس حوالے سے بہت کھل
کے بیان دیا ہے،ان کا کہنا ہے کہ ملک پر داعش کا سایہ بھی نہیں پڑنے دینگے
بلکہ انہوں نے پاکستان و افغانستان دونوں کی بات کی ہے،قبل ازیں یہ خبریں
بھی سامنے آ چکی ہیں کہ طالبان تحریک سے وابستہ کچھ کمانڈر ز نے باقاعدہ
خود ساختہ خلیفہ ابوبکر بغدادی کی بیعت کر کے اس میں شمولیت کر لی ہے۔تحریک
طالبان اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف جاری آپریشن کے نتیجہ میں ہونے
والے بٹوارے اور تقسیم کے بعد یہ امر لازمی تھا کہ دہشت گرد کسی نئے نام سے
صف بندی کریں گے اور اپنے تخریبی و دہشت گردانہ کام کو جاری رکھیں گے،لہذا
ہم نے دیکھا کہ دہشت گرد اس کے بعد ایک طرف تو داعش میں شمولیت کا اعلان کر
رہے ہیں اور دوسری طرف ان کی کاروائیاں اب جنداﷲ اور جماعت الاحرار کے نام
سے کی جا رہی ہیں یاد رہے کہ ان دونوں جماعتوں نے داعش کے خود ساختہ خلیفہ
ابوبکر کی اطاعت قبول کرنے کا اعلان بھی کیا ہوا ہے۔پاکستان و افغانستان کے
عوام و خواص طویل عرصہ سے مختلف قسم کی دہشت گردی سے متاثر چلے آ رہے
ہیں،اسی(۸۰) کے عشرے میں افغانستان پر روس کی یلغار سے جو خطرات پاکستان نے
محسوس کیئے اور اس کے مقابل امریکہ کے ساتھ ملکر جہادی پالیسی اختیار کی اس
نے دونوں ممالک میں ایسی آگ لگا ئی ہے جس کا خمیازہ آج بھی ہم بھگت رہے ہیں
اس پالیسی کے نتیجہ میں ہی پاکستان کا ہر شہر مقتل بنایا گیا،ہر گلی خون
انسانی کاذائقہ چکھ چکی ہے،دہشت گردی،خون آشامی،قتل وغارت، لوٹ مار ،خوف و
وحشت اور درندگی کی کون سی قسم ہے جس کے دل دہلا دینے والے مناظر ہماری
آنکھوں کے سامنے نہیں گذرے،دہشت گردی کے جو تجربات آج عراق و شام میں
دہرائے جا رہے ہیں ہم ان سے بدرجہ اتم واقف ہیں،ہمارے لیئے یہ سب منظر نئے
اور نا آشنا نہیں ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ہم یہ سب مناظر
دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں ہمارے ہاں اب یہ معمولات زندگی کا حصہ سمجھا
جانے لگا ہے،اب تو کسی دن ایسا منظر سامنے نا آئے تو اضطراب سا محسوس ہوتا
ہے اب تو کسی دن کوئی دھماکہ نہ ہو تو ہمیں محسوس ہوتا ہے ہم پاکستان میں
نہیں کہیں اور بستے ہیں ،اب تو اخبار کی سرخیاں بارود نہ اگلیں ،خون
آشامیوں کی تصاویر نہ دکھائیں اور نوحہ و ماتم کرتی ماؤں بہنوں کی
پکارسامنے نا لائیں تو عجب سا محسوس ہوتا ہے۔داعش نامی دہشت گرد گروہ جسے
امریکہ ،اسرائیل،ترکی،سعودیہ،اور دیگر عرب ممالک نے شام و عراق میں بربادی
لانے کیلئے تیار کیااس کی سفاکیت اور درندگی نیز سخت نظریات جن میں انبیاء
،اولیاء اوصیا،آئمہ،و اصحاب نبی کے مزارات کی تباہی اور اپنے مخالفین چاہے
ان کا تعلق ان کے اپنے مذہب سے ہی کیوں نہ ہو کو تہہ تیغ کرنے کے دل دہلا
دینے والے مناظر فلما کر پوری دنیا میں نشر کرنا،عراق میں نہایت ہی سرعت سے
کئی صوبوں پر کنٹرول حاصل کرنا اوراپنے مفتوحہ علاقوں میں نام نہاد اسلامی
خلافت کاا علان کرنادر اصل دنیا پراپنی طاقت و قوت ثابت کرنا اور ا سے اپنی
جانب متوجہ کرنا تھا جس میں انہیں کامیابی حاصل رہی ہے خوش قسمتی یا بد
قسمتی یہ سب اس وقت ہوا ہے جب ہماری مسلح افواج نے یہاں دہشت گردوں کی جنت
وزیرستان اور دیگر قبائیلی علاقہ جات میں آپریشن ضرب عضب شروع کر رکھا ہے
اور ان سفاک درندوں کو ان کی اوقات یاد کروائی جا رہی ہے،دہشت گردوں کی
شکست و ریخت کے اس دور میں پاکستان کے گلی کوچوں اور شہروں میں داعش کی وال
چاکنگ اور موجودگی کی اطلاعات یقینا بعض عناصر کیلئے چونکا دینے والی خبر
کا درجہ رکھتی ہیں مگر ہمارے لیے حیران کن ہرگز نہیں اس لیئے کہ اس ملک کے
گلی کوچوں اور شہر و دیہات میں داعشی فکر کے حامل ہزاروں مدارس و مراکز
موجود ہیں جن میں تعصب،تنگ نظری،سخت گیری اور جامد سوچ کو پروان چڑھایا
جاتا ہے اورگزشتہ چار دہائیوں سے خصوصی طور پرہمارے معاشرے میں یہ زہر
افشانی کی جا تی رہی ہے،اسی زہر افشانی کے نتیجہ میں ہی داعش ،القائدہ،جنداﷲ،لشکر
جھنگوی،طالبان اور کئی دیگردہشت گرد تنظیمیں معرض وجود میں آتی ہیں ،اب اگر
داعش سامنے آ گئی ہے تو کوئی نئی قیامت نہیں آنے والی،ہم ان تمام قیامتوں
کو دیکھ اور چکھ چکے ہیں جو داعشی لانا چاہتے ہیں۔ داعش کا خوف اس کی
سفاکیت و درندگی ہے جس کے مظاہرے بہ طور پاکستانی ہم نے ان شامیوں اور
عراقیوں سے پہلے دیکھے ہیں جو آج اس کا شکار ہیں داعش کا تعارف عورتوں کی
عزتوں کی پائمالی اور بازار لگا کر فروخت کرنا ہے جس کا شکار ہمارے قبائلی
ایک عرصہ تک رہے ہیں جہاں طالبان کو جو پسند ہوتا تھا وہی اسلام کا حکم
ہوتا تھا کسی میں مجال نا تھی کہ انکار کرے،داعش کا خوف اور ڈر اس کے گلے
کاٹنے کی وجہ سے ہے تو اس کا آغاز ہمارے ملک سے سپاہی لائق حسین سے شروع
ہوا اور پیر قیوم صدہ (پاراچنار)میں ٹرک ڈرائیورز کے گلے ،بازو،زبانیں
کاٹنا انتہا تھی افواج پاکستان کے اسیران کے گلے کاٹنے کے کتنے واقعات نے
دہلا کے رکھ دیا تھا،بلوچستان اور کراچی میں بھی یہ سفاکیت ہم نے دیکھی ،داعش
کی سفاکیت چوکوں چوراہوں میں لا کر گولیوں سے بھون دینا ہے تو ہمارے ملک
میں یہ کام طالبان سوات،وزیرستان اور دیگر ایجنسیز میں ہر روز کرتے
تھے،چوکوں میں مخالفین کو جاسوس قرار دیکر کھمبوں سے لٹکانا ان کا محبوب
مشغلہ رہا ہے،ہاتھ پاؤں کاٹنا ،پھانسیاں دینا اور زندہ انسانوں کو بھڑکتی
آگ میں ڈال دینا داعش کا ایک روپ ہے جس سے ڈرایا جاتا ہے تو یہ بھی کچھ نیا
نہیں ایسا سب تو ہمارے ہاں معمولات زندگی میں رہا ہے،طالبان میں ایسے ایسے
سفاک اور درندے تھے جو انسانی کھوپڑیوں سے فٹ بال کھیلنے کا مشغلہ اپنائے
ہوئے تھے،جو فوجیوں کو لائن میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیتے تھے،عام
لوگوں کو بسوں سے اتار کے تہہ تیغ کر دیتے تھے،جن کا نام دہشت کی علامت
تھا،جو سفاکیت کا دوسرا نام تھے،جو چھلاوا کہلاتے تھے اور ہاتھ میں نہیں
آتے تھے افواج پاکستان کی قربانیوں سے آج ان کا نام بھی لینے والا کوئی
نہیں پاکستانی افواج یا قوم کو خوف زدہ کرنے یا ڈرانے کیلئے اگر وزیرستان
سے بھاگتے چوہے طالبان یا ان کے سرپرست داعش کا نام استعمال کر رہے ہیں تو
انہیں عراق و شام میں ان کی درگت کو بھی نہیں بھولنا چاہیئے،کس طرح اﷲ کے
شیروں کے سامنے یہ چوہے مارے جا رہے ہیں اس کا اندازہ بھی کر لیں اور
بھاگنے والے چوہوں کو ذرا سنبھالیں کہ ان کا اگلا کام اب ان کے پالنے والوں
کے محفوظ سمجھے جانے والے گھروں میں سوراخ کرنا ہو گا۔ سعودی عرب کو تو اس
کا اندازہ ہو چکا ہے جہاں سے خطبہ حج میں بھی ان کیخلاف بھرپور آواز بلند
کی گئی ہے اور خطرے سے متوجہ کیا گیا ہے جو خوش آئند ہے۔پاکستان ایک ایٹمی
ملک ہے جس کی افواج دنیا کی مانی ہوئی اور قابل ترین افواج سمجھی جاتی
ہیں،یہ عراق نہیں جہاں داعشی بغیر کسی مزاحمت کے تین اہم ترین صوبوں پر
قابض ہو گئے اور مرکزی حکومت کو پتہ بھی نا چلا اور وہ ہر دن آگے بڑھتے چلے
گئے سپہ سالار پاکستان جنرل راحیل شریف نے جس اعتماد کیساتھ کہا ہے کہ داعش
کا سایہ بھی نہیں پڑنے دینگے اس کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ داعشی یا
طالبانی فکر و انداز کو مزید برداشت نہیں کیا جائے گا ۔ |