تھر پارکر میں اموات سیاست کی نذر....!
(عابد محمود عزام, karachi)
تھرپارکر میں بھوک، پیاس اور
بیماریوں کا عفریت مسلسل انسانی جانیں نگلنے میں مشغول ہے۔ معصوم بچے پے
درپے حکومتی نااہلی کی نذر ہو رہے ہیں۔ ایک عرصے سے پانی کی قلت، بھوک اور
افلاس نے تھر پارکر میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ بھوک سے بلکتی اور سسکتی زندگی
مسلسل موت کو خراج ادا کر رہی ہے۔ رواں ماہ اب تک تقریباً 85، جبکہ گزشتہ
55 روز میں 117 بچے حکومتی عدم توجہی کا شکار ہوکر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو
بیٹھے ہیں۔ ایک حکومتی رپورٹ کے مطابق تقریباً 11 ماہ میں تھر کے قحط میں
500 افراد اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں، جن میں 96 مرد، 106 خواتین اور
300 بچے شامل ہیں۔ تھر کے قحط سے 2 لاکھ 57 ہزار 336 خاندان متاثر ہوئے ہیں،
جن میں تعلقہ مٹھی کے تقریباً 45 ہزار 500 ڈیپلو میں 44 ہزار، اسلام کوٹ
میں 41 ہزار سے زاید، چھاچھرو میں 42 ہزار، تعلقہ ڈھائی میں 40 ہزار 144
اور ننگر پار کر میں 41 ہزار 272 خاندان متاثر ہوئے ہیں۔ جبکہ 3 ہزار 812
جانور چارہ نہ ملنے کے باعث ہلاک ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں سندھ حکومت نے تھر
میں قحط کی صورتحال کا سامنا کرنے والے سوا 4 کروڑ سے زاید انسانوں اور
جانوروں کا علاج کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ جن میں تقریباً سوا لاکھ مرد،
ایک لاکھ 35 ہزار سے زاید خواتین اور تقریباً سوا لاکھ بچے شامل ہیں۔ اس
طرح حکومتی دعوے کے مطابق مجموعی طور پر 3 لاکھ 77 ہزار 680 افراد کا علاج
کیا گیا، جبکہ پونے 4 کروڑ سے زاید جانوروں کو ویکسین لگائی گئی ہے۔ واضح
رہے تھر میں قحط سے متاثر ہونے والے افراد کی اصل تعداد حکومتی رپورٹ سے
کہیں زیادہ ہے۔ ذرائع کے مطابق تھر پارکر کے سیکڑوں گاﺅں میں پانی کا بحران
شدت اختیار کرگیا ہے۔ چھاچھرو اور ڈاھلی میں لوگ ایک ایک لقمے اور پانی کی
بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ متاثرین کو امدادی اشیا، پانی، خوراک اور دواﺅں
کے حصول میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ انتظامیہ اور محکمہ صحت کی جانب سے
دعوﺅں کے باوجود تھرپارکر کے متاثرہ دیہات میں صحت کی ٹیمیں مقرر نہیں کی
جا سکیں، جس کے باعث مختلف امراض پھیل رہے ہیں۔ جبکہ تھرپارکر کی انتظامیہ
ریلیف کی گندم تقسیم کرنے میں بھی بری طرح ناکام ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے
تھرپارکر کے قحط متاثرین کو دی جانے والی امدادی گندم کا چوتھا مرحلہ مکمل
ہو گیا ہے، مزید گندم فراہم کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جارہے ہیں۔
امدادی اشیا پانی، خوراک اور دواو ¿ں کے منتظر بے بس لوگوں کا صبر جواب دے
گیا، لہٰذا بچوں اور خواتین سمیت چھاچھرو کے متاثرہ لوگوں نے ٹائر جلا کر
انتظامیہ کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے۔ مظاہرین نے الزام لگایا ہے کہ ریلیف
کی گندم کو ملی بھگت سے فروخت کیا جا رہا ہے۔
تھر میں قحط کی وجہ سے حالات دگرگوں ہیں، جبکہ سندھ حکومت سیاست چمکانے میں
مصروف ہے۔ حکومتی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تھر میں
قحط کی صورتحال پر وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی زیر صدارت اجلاس میں
پیپلز پارٹی کے جیالے بھی آپس میں گتھم گتھا ہوگئے اور وزیر اعلیٰ کوئی
نتیجہ نکالے بغیر چلے گئے۔ غذائی قلت کے شکار تھر میں دن بدن حالات سنگین
سے سنگین تر ہوتے جارہے ہیں، لیکن ان حالات میں تھر میں ہونے والی اموات کو
اپنی کوتاہی ماننے کی بجائے حکومت سندھ کی جانب سے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے
ہوئے مضحکہ خیز بیانات دیے جا رہے ہیں، جو یقینا مشکلات میں گھرے تھر کے
عوام کو تکلیف پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں۔ کبھی وزیر اعلیٰ سندھ کہتے ہیں
کہ تھر میں اموات بھوک سے نہیں، بلکہ غربت سے ہورہی ہیں۔ کبھی تھر میں ہونے
والی اموات کا ذمہ دار سابقہ حکومتوں کو ٹھہرایا جاتا ہے اور کبھی سندھ
حکومت کے کسی وزیر کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ ملک بھر میں روزانہ 600 بچوں
کی اموات ہوتی ہیں، ان پر اتنا واویلا نہیں کیا جاتا جتنا تھر پر کیا جاتا
ہے اور یہ کہ میڈیا جان بوجھ کر تھر پارکر کے معاملے کو ہائی لائٹ کر رہا
ہے۔ ان حالات میں حکومت سندھ کی ذمہ داری تو یہ ہے کہ وہ تھر میں ہونے والی
اموات پر قابو پانے کے لیے جلد از جلد غذائی قلت کو ختم کرے اور تھر پارکر
کے عوام کو مستقل طور پر خود کفیل کرنے کا انتظام کرے، لیکن سندھ حکومت کی
نااہلی کا اندازہ اس بات سے لگایے کہ ذرائع کے مطابق سندھ حکومت نے سپریم
کورٹ میں تھر میں مسلسل اموات کی تحقیقات روکنے کے لیے درخواست دائر کی ہے۔
سندھ ہائیکورٹ نے تھرپارکر میں نوزائیدہ بچوں کی مسلسل اموات کے حوالے سے
انکوائری کمیشن قائم کرنے کا کہا تھا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ازخود
نوٹس کے باووجود سندھ ہائی کورٹ نے سیکڑوں متاثرہ گھرانوں کو فوری ریلیف
دینے اور ذمے دار حکام کو سزا دینے کا کہا ہے، جس کے لیے بعد میں سندھ
حکومت نے ہائیکورٹ میں جامع رپورٹ جمع کروائی تھی۔ حکومت کو یقین ہے کہ کچھ
عناصر کے ہوا دیے جانے کے سبب یہ معاملہ اب تک موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ میڈیا
کے بعض نمائندے بھی بے بنیاد خبروں اور رپورٹس کے بل پر رائی کا پہاڑ بنا
رہے ہیں ، جو سراسر زمینی حقائق کے بر عکس ہے۔ حکومت سندھ نے عدالت عظمیٰ
سے استدعا کی ہے کہ ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔ واضح رہے
کہ 17مارچ کو عدالت نے چیف سیکرٹری سندھ سے وضاحت طلب کی تھی کہ صوبائی
حکومت نے پانچ سال اقوام متحدہ کے انتباہ کے باوجود ضروری اقدام کیوں نہیں
کیے، جبکہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے بھی سپریم کورٹ کو ایک خط
لکھ کر تھر کی سنگین صورتحال بیان کی تھی اور قرار دیا تھا کہ تھر کے عوام
کو بنیادی حقوق کی عدم فراہمی آئین کے آرٹیکل 9 اور 14 کی خلاف ورزی ہے۔
سپریم کورٹ سے آرٹیکل (184)3 کے تحت لوگوں کو بنیادی حقوق فراہم کرنے کو
کہا گیا تھا۔ یاد رہے کہ گزشتہ مہینے سندھ ہائی کورٹ نے تھرپارکر میں قحط
سالی سے ہونے والی ہلاکتوں پر سندھ حکومت سمیت متعلقہ محکموں ریونیو، خوراک
اور صحت سے علیحدہ علیحدہ رپورٹ طلب کی تھی اور گزشتہ دنوں خود پیپلز پارٹی
کے وزیر منظور وسان کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بھی تھر میں ہونے
والے اموات کا ذمہ سندھ حکومت کو ٹھہرایا گیا تھا۔
ایک عرصے سے تھر کے پھول جیسے بچے غذائی قلت، افلاس، بھوک و پیاس کے باعث
مرجھا رہے ہیں، جبکہ صاحب اقتدار طبقہ اپنی ذمہ داریوں سے غافل سیاست
چمکانے میں مصروف ہے۔ رواں سال مارچ کے مہینے میں تیزی کے ساتھ تھر میں
بچوں کی اموات ہوئیں تومیڈیا کی نشاندہی کے بعد حکومت سندھ خواب غفلت سے
بیدار ہوئی اور تھر کے عوام کے لیے امدادی سرگرمیوں کا عمل شروع کیا، لیکن
حکومت کی جانب سے تھر میں بھیجی جانے والی امداد مستحق عوام تک نہ پہنچ
سکی۔ اب ایک بار پھر بچوں کی اموات میں تیزی آنے پر میڈیا نے نشاندہی کی،
لیکن اس بار حکومت سندھ نے عوام کو امدادی سامان پہنچانے کی بجائے تھر
پارکر میں ہونے والی بچوں کی اموات کو سیاست اور اپنے مضحکہ خیز بیانات کی
نذر کردیا۔ حکومت سندھ ان اموات کی ذمے داری اپنے سر لینے کو تیار ہی نہیں
ہے، بلکہ ان اموات کا ملبہ سابقہ حکومت اور میڈیا پر ڈال رہی ہے۔ جب صوبے
کے حکمران ہی عوام کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتے تو پھر تھر کے زخموں کا
مداوا کون کرے گا؟ پیپلز پارٹی اپنا قصور ایم کیو ایم کے سر ڈال رہی ہے،
حالانکہ صوبے میں ایک عرصے سے حکومت تو پیپلز پارٹی کی اپنی ہے اور ویسے
بھی موجودہ حالات سے نمٹنا تو موجودہ حکومت کی ہی ذمہ داری ہے۔ یہ بات واضح
ہے کہ قحط سالی، زلزے یا سمندری طوفان کی طرح ایک دم سے نازل تو نہیں ہو
جاتی، اس پر قابو نہ پانا صرف حکومت نااہلی ہوسکتی ہے۔ حکومت سندھ کو چاہیے
کہ اس مشکل کی گھڑی میں تھر کے عوام کو تمام ضروریات زندگی فراہم کرے۔ پینے
کا صاف پانی ہنگامی طور پر عوام کو مہیا کیا جائے۔ جہاں دنیا میں صحراﺅں پر
شہر آباد ہورہے ہیں، وہاں تھر کی قسمت کو کیوں نہیں سنوارا جاسکا ؟ |
|