طاہرالقادری کا انقلاب کیا رنگ لائے گا؟

آج کل موسم ِسرما کے آغازکے ساتھ ہی وطنِ عزیز کی سیاسی فضاء میں گرمی کچھ زیادہ ہے ۔ 14اگست سے شروع ہونے والے پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے دھرنوں اور جلسوں کے بعد ملک کے طول و عرض میں جلسے جلوسوں کا ایک سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔ پہلے مولانا طاہر القادری نے انقلاب کا نعرہ بلند کیا اس کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی نے نیا پاکستان بنانے کی باتیں کی، قریبا دو ماہ تک یہ دھرنے اسلام آباد میں جاری رہے ۔ان دھرنوں میں دن رات خطابات کئے گئے۔ ایک ماہ کے بعد مولانا طاہر القادری صاحب واپس کنیڈا چلے گئے جبکہ عمران خان صاحب نے اپنے دھرنے کو جلسوں میں تبدیل کیا اور ملک کے بڑے بڑے شہروں میں جلسے کئے جو کہ ابھی تک جاری ہیں ۔ہر جلسے میں پی ٹی آئی نے بھر پور سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا ہے ۔ پی ٹی آئی نے 30 نومبر کو ایک اور بڑے جلسے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ علامہ طاہر القادری صاحب بھی کینڈا سے واپس آچکے ہیں اور وہ بھی میڈیامیں بیانات دیتے رہتے ہیں ۔

حکومت اپنی جگہ پر قائم ہے اور اپوزیشن اپنی جگہ پر پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے دھرنوں کے بعد دوسری جماعتوں نے بھی جلسوں کا آغاز کیا ۔مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی(پارلیمنٹرین ) نے بھی متعدد شہروں میں جلسے منعقد کیئے ۔اس کے ساتھ ساتھ ہر روز کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی طرف سے بیانات اور جلسوں کی تاریخوں کا اعلان سننے کو ملتا ہے ۔ اس طرح ہمارے ملک میں دھرنے اور جلسے جلوسوں کی سیاست کا آغاز ہوچکا ہے ۔ ہر جماعت مختلف شہروں میں سیاسی قوت کا مظاہرہ کر رہی ہے اور ان جلسے جلوسوں میں کروڑوں روپیہ خرچ کیا جا رہا ہے ۔اور اب باقی سیاسی کی دیکھا دیکھی جماعت ِ اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب نے ایک تین دوزہ جلسے کا اعلان کیا ہے اور ان کا نعرہ ہے ۔"اسلامی پاکستان ہی خوشحال پاکستان ۔ "جماعتِ اسلامی پاکستان میں اسلام کے نفاذ کی خاطرجلسہ منعقدکر رہی ہے ۔جماعت ِ اسلامی کا بھی اجتماع 21,22,23 نومبر کو لاہور میں ہونا قرار پایا ہے ۔جلسے کے پہلے روز ہی کھانے کا بے انتہا انتظام کیا گیا ۔ انواع واقسام کے کھانوں کا اہتمام کیا گیا ۔ قریبا ڈیڑھ سو کے قریب تنور لگائے گئے ۔اور اجتماع میں شامل ارکان میں کھانا تقسیم کیا گیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ لاہورمیں مینارِ پاکستان اوراس سے متصل عمارات اور سڑکوں کی سیکیورٹی میں اضافہ کیا گیا ہے ۔ لاہور کے علاوہ کسی بھی نا خوشگوار واقع سے بچنے کے لیے اسلام آباد اور دیگر بڑے شہروں میں سکیورٹی کے انتظامات میں اضافہ کر دیا گیا ہے اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بہت سی سڑکوں کو عوام کے لیے بند کر دیا گیا ہے اور ٹریفک کو متبادل رستوں کی جانب موڑ دیا گیا ۔سونے پر سوہاگہ کے مصادق عوام کا سفر کرنا بھی دوبھر ہوگیا ہے ۔روزانہ دفاتر جانے والے افراد کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔نہ جانے یہ کیسا انقلاب ہے جو کہ ہر پارٹی الگ الگ لانا چاہتی ہے ۔

ا ن سب جماعتوں کا مطالبہ ایک لیکن انداز مختلف ہے ۔ ہرجماعت کا دعوی ٰ ہے کہ وہ ملک کی تقدیر بدل دے گی ملک میں خوشحالی آئے گی ۔ بجلی اور گیس کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے گا عوام کو ریلیف دیا جائے گا ۔نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا جائے گا ۔ملکی مفاد کے لیے فیصلے کیے جائیں گے ۔ ہر سیاسی جماعت ایک سے دعوے کرتی ہے اور عوام کو ایک سے خواب دیکھاتی ہے ۔ عوام ان وعدوں کو پورا ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ خواہش رکھتے ہیں کہ بلا تفریق رنگ ونسل ، اور علاقہ پورے ملک میں ترقی کی راہیں استوار ہوں ۔ لیکن نہایت افسوس کے ساتھ کہا جاتا ہے اس ایک مطالبہ کے لیے یہ جماعتیں آپس میں متحد نہیں ہیں ۔ ہر جماعت چاہتی ہے کہ انقلاب آئے اور اس مخصوص جماعت کے منشور کے مطابق آئے ۔یہ کیسا انقلاب ہے جو ملک کے صرف چند حصوں کے لیے ہے جس میں پس ماندہ علاقوں کا ذکر تک نہیں ۔

ان سب جلسے جلوسوں کی سیاسی اہمیت اپنی جگہ ، پاکستان کے حالات بدل دینے کے دعوے اپنی جگہ درست اور ان دعوؤں میں سچائی بھی ہو گی ۔لیکن ان تمام جماعتوں میں سے کسی ایک جماعت کے قائد نے بھی نہ تو سوچااور نہ ہی کیا کہ ان جلسوں جلوسوں پر خرچ ہونے والا پیسہ اسی ملک کے ایک حصے تھر میں جان دیتے ہوئے بچوں، بوڑھوں پر خرچ کیا جائے۔ اس قحط زدہ علاقے میں راشن ، پانی کی فراہمی کے لیے کوشش کریں ۔اس علاقیکو بھی آپ کی امداد کی ضرورت ہے جہاں ابھی موت کی پرچھائیاں ڈھلی نہیں تھیں کہ پھر سے قحط ، موت کے بادل اس علاقے کا احاطہ کیے ہوئے ہیں ۔ آپ ملک کی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں ضرور بدلیں ، عوام بھی آپ کے ساتھ ہیں لیکن یہ دم توڑتے بچے بھی تو اسی ملک کا مستقبل ہیں۔ یہ بھی ہمارے ہی بچے ہیں ۔ ان کی جانب بھی کچھ نظر کیجئے۔ان بچوں کو بھی جینے کا حق ہے ۔ انہیں بھی غذا اور پانی چاہیے ۔ یہ تو آپ سے تعلیم اور اچھے سکول ، کتابیں ، کاپیاں بھی نہیں مانگ رہے ۔ یہ تو صرف اور صرف آپ سے زندگی کی بھیک مانگ رہے ہیں ۔ ان کی سسکیاں چاہے وہ اہل ِ اقتدار ہوں اور پھر اپوزیشن جماعتیں ان تمام سیاست دانوں کو پکار رہی ہیں جو کہ اسلام ٓآباد میں توگیس کی فراہمی کی خاطر جلسہ منعقد کرتے ہیں لیکن ان بچوں کی جان بچانے کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں کرتے ۔ ان بچوں کوتو گیس بھی نہیں چاہیے ۔ ایک طرف تو مسلۂ مشکلات کے حل کا ہے جبکہ دوسر ی طرف سوال صرف اور صرف زندگی کا ہے ۔ آپ نے نوجوانوں کے مسقبل کو سنوارنا ہے ضرور سنواریں ان کو روزگار کی فراہمی کا وعدہ ضرور کریں ، لیکن ایک بار تھر کے ان جان سے جاتے نوجوانوں کو بھی دیکھیے یہ بھی اسی ملک کا حصہ ہیں ۔یہ بھی گوشت پوست کے انسان ہیں انھیں آپ سے نوکریاں نہیں چاہیں ، نہ ہی یہ ڈگریاں اٹھائے روزگار ڈھونڈ رہے ہیں ۔ انھیں تو آپ سے صرف اور صرف پانی چاہیے ۔ آپ سب ایک ہی جانب کیوں دیکھ رہے ہیں ۔ اس علاقے کو کیوں بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔وزیر اعلی ٰ سندھ ہوں یا وزیر اعظم پاکستان ہوں ، سب اپنی اپنی سیاست میں مصروف ہیں ۔ اور تھر کے باسی روز جان کی بازی ہار رہے ہیں ۔ ان مفلوک الحال لوگوں کے لیے ان جلسوں میں کوئی بات نہیں کی جاتی ۔ اہل ِ اقتدار تو ایک جانب اپوزیشن نے بھی ان کے بارے میں کوئی قرداد تک پیش نہیں کی ۔ اگر بات کی جاتی ہے تو ان شہری علاقوں کی مشکلات کی جنہیں غذائی قلت ، یا پانی کی کمی کا سامنا نہیں ہے ۔ تھر اور چولستان کا علاقہ بھی تو ہمارے ہی ملک کا حصہ ہے ۔یہ جاں بلب لوگ بھی تو اسی وزیر سندھ ا ور اسی اپوزیشن کی جانب مدد طلب نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے کل کے جلسے ہی کو ایک نظر دیکھیں ۔ جماعت اسلامی کے اجتماع میں سات رنگ کے کھانے بانٹے گئے ۔ کسی نے یہاں تک نہیں سوچا کہ حسب ِ ضرورت کھانا یہاں بانٹا جائے اور بقایا کھانا ان بھوک سے بلکتے لوگوں کو دیا جائے ۔لیکن ایسا نہ تو کسی نے سوچا اور نہ ہی کیا ۔

حکومت ہو یا اپوزیشن کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ اس علاقے کے بسنے والوں کی حالت ِ زار پر بھی غور کریں ۔تاریخ عالم َجب لکھی جائے گی تو ہمیں ایک بے حس قوم کے طور پر یاد کیا جائے گا ۔ جن کے ِ سیاست دان اور عوام عجیب بے حسی کا مظاہرہ کر تے رہے ایک جانب توشہری علاقوں میں بسنے والوں کی مشکلات کے حل کے لیے سڑکوں پر نکلے ، جلسے منعقد کر تے رہیجبکہ دوسری جانباسی قوم کے بہن بھائی اور بچے بھوک اور پیاس کی وجہ سے جان کی بازیاں ہارتے رہے ۔تھر کے بچے ، بوڑھے جوان ان تمام سیاست دانوں سے چاہے وہ اہل ِ اقتدار ہوں یا ان کا تعلق اپوزیشن سے ہو گذارش کرتے ہیں کہ خدارا ان کی مدد کریں ۔ اوراس آفت زدہ علاقے میں غذا اور پانی کی فراہمی کے لیے کوشش کریں ۔
Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 164223 views i write what i feel .. View More