حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ
اپنی تصنیف حیات الصحابہؓ تحریر کرتے ہیں کہ حضرت جبیر بن نفیر ؓ فرماتے
ہیں جب قبرص جزیرہ فتح ہوا تو وہاں کے رہنے والے سارے غلام بنا لیے گئے اور
انہیں مسلمانوں میں تقسیم کر دیا گیا وہ ایک دوسرے کی جدائی پر رو رہے تھے
میں نے دیکھا کہ حضرت ابوالدرداءؓ اکیلے بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں میں نے
پوچھا اے ابوالدرداء! آج تو اﷲ نے اسلام اور اہل اسلام کو عزت عطا فرمائی
ہے تو آپ کیوں رو رہے ہیں؟ فرمایا اے جبیرؓ! تیرا بھلا ہواس مخلوق نے جب اﷲ
کے حکم کو چھوڑ دیا تو یہ اﷲ کے ہاں کتنی بے قیمت ہو گئی۔ پہلے تو یہ
زبردست اور غالب قوم تھی اور انہیں بادشاہت حاصل تھی لیکن انہوں نے اﷲ کا
حکم چھوڑ دیا تو ان کا وہ برا حال ہو گیا جو تم دیکھ رہے ہو۔
ابن جریر کی روایت میں اس کے بعد یہ بھی ہے کہ اب تو ان کا وہ برا حال ہو
گیا جو تم دیکھ رہے ہو کہ ان پر اﷲ نے غلامی مسلط کر دی اور جب کسی قوم پر
اﷲ غلامی مسلط کر دیں تو سمجھ لو کہ اﷲ کو ان کی کوئی ضرورت نہیں(کیونکہ ان
کی اﷲ کے ہاں کوئی قیمت نہیں رہی)
قارئین کچھ باتیں آج غیر رسمی انداز میں آپ کے سامنے پیش کرنا مقصود ہیں۔
پاکستان کا قیام اس صدی کی سب سے بڑی کرامت قرار دی جاتی ہے۔ ایک طرف تو
ہندو اکثریت تھی جو کئی سو سال کی غلامی کا انتقام مسلمانوں سے لینا چاہتی
تھی اور دوسری جانب برٹش راج تھا کہ جس نے ہندوستان کا اقتدار طاقت اور
سازشوں کے ذریعے مسلمانوں سے چھینا تھا۔ برٹش ایمپائر بھی مسلمانوں کو اپنا
بڑا دشمن خیال کرتی تھی اور اسی وجہ سے شراکت اقتدار کے ہر مرحلے میں
ہندووں کو تو نوازا جاتا تھا لیکن مسلمانوں پر بہت کم اعتماد کیا جاتا تھا۔
مسلمانوں میں بھی احساس زیاں اس قدر زیادہ تھا کہ نفرت میں آ کر مسلمانوں
نے انگریزی تعلیم کو بھی کافرانہ تعلیم خیال کرتے ہوئے اس کا بائیکاٹ کر
دیا جبکہ ہندووں نے انگریزی تعلیم اپنائی اور اسی سسٹم کا حصہ بن گئے جو
انگریز چلا رہا تھا۔ ایسے موقعے پر سر سید احمد خان کی علی گڑھ تحریک سامنے
آئی جس نے مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ علم اور حکمت تو دراصل
مسلمانوں کو میراث ہے اور انگریزی زبان نے سائنس اور دانش کی باتیں سیکھنا
کفر نہیں بلکہ عین اسلام ہے۔ مجموعی طور پر پورے ہندوستان میں مسلمانوں کی
حالت انتہائی خراب تھی معاشی اور معاشرتی سطح پر مسلمانوں کا شمار تیسرے
درجے کے شہریوں میں ہوتا تھا۔ ایسے موقع پر علامہ محمد اقبال ؒ نے برصغیر
کے مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن کا خواب دیکھا اور اس خواب کے سکیچ میں
رنگ بھرنے کیلئے محمد علی جناحؒ کو قائل کیا کہ وہ اس بکھری ہوئی قوم کی
باگ ڈور سنبھالیں اور مسلمانوں کو ایک قوم بنا دیں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ
جو پہلے ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے لیکن کانگرس کی منافقانہ پالیسیوں سے
مایوس ہو کر لندن لوٹ چکے تھے وہ علامہ محمد اقبال ؒ کے قائل کرنے پر واپس
برصغیر آئے اور مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر دو قومی نظریہ نہ صرف پیش کیا
بلکہ 14اگست1947ء کو اسے حقیقت کا روپ دے دیا۔ تمام ہندوستانی اور بین
الاقوامی تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ یہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کا
کریکٹر تھا کہ جس نے پاکستان بنا دیا۔ قائد نے پاکستان بنانے کے دوران اپنی
صحت قربان کر دی اور پاکستان بننے کے بعد اپنی جان بھی اس وطن کی بنیادوں
پر نچھاور کر دی اور اپنا تمام مال ومتاع بھی قوم کے نام کر دیا۔ یہ آزادی
بہت بڑی نعمت تھی پاکستان اﷲ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا تحفہ تھا اس تحفے کی
ناقدری کی گئی اور دولت کے پجاری سیاست دانوں اور فوجی آمروں نے جب کفران
نعمت کیا تو 1971ء میں پاکستان دو لخت ہو گیا۔ یہ بہت بڑا صدمہ تھا اور
ایک لحاظ سے بہت بڑی وارننگ تھی کہ قوم سبق سیکھے اور صاف ستھرے لوگوں کو
اقتدار تک پہنچائے۔1947ء سے لے کر آج تک پاکستان کی شہ رگ کشمیر بھارت کے
قبضے میں رہی اور پاکستان نے کشمیر حاصل کرنے کیلئے ناصرف اسلامی دنیا کی
سب سے بڑی فوج کھڑی کی بلکہ تین باقاعدہ روائتی جنگیں بھی بھارت کے ساتھ
لڑیں اور درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں بے قاعدہ غیر روائتی جھڑپیں ہزاروں
شہیدوں کے مقدس خود سے مزین ہیں۔ چند ادوار اس دوران ایسے آئے کہ جب یوں
لگا کہ جیسے بے شرم حکمرانوں نے کشمیر پر سودے بازی کر لی ہے اور لاکھوں
شہیدوں کے خون کا سودہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ماؤں بہنوں کی عزتوں کو بھی
نیلام کر دیا ہے لیکن اﷲ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ایک طویل عرصے کے بعد
دوبارہ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستانی قوم،پاکستانی سیاسی قیادت،
پاکستانی فوج اور قومی سلامتی کے تمام ادارے کشمیر کی آزادی کے ایجنڈے پر
متحد اور متفق ہو کر ایک ہی پیج پر اکٹھے ہو چکے ہیں۔ ہم نے اس دوران ریڈیو
پاکستان کے حصے ریڈیو آزادکشمیر ایف ایم93میرپور کے مقبول ترین پروگرام
لائیو ٹاک ود جنید انصاری میں 800سے زائد قومی شخصیات کے انٹرویوز گزشتہ
چند سالوں کے دوران کیے۔ ان انٹرویوز میں پاکستان کے مایہ ناز جوہری
سائنسدان فخر امت مسلمہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان، پاکستان میں تعلیمی انقلاب کے
بانی ڈاکٹر عطا ء الرحمن، پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان،وفاقی
وزیر احسن اقبال، وفاقی وزیر برجیس طاہر، وفاقی وزیر جنرل عبدالقادر بلوچ،
وزیر اعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید، صدر آزادکشمیر سردار یعقوب خان،
سابق وزراء اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری، راجہ فاروق حیدر خان، سردار
عتیق احمد خان، سابق صدر ووزیراعظم سردار سکندر حیات خان ، میڈیا سے تعلق
رکھنے والے سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر معیدپیر زادہ، مظہر عباس، خوشنود علی خان
اور رحیم اﷲ یوسف زئی سے لے کر ہائی پروفائل رکھنے والی سینکڑوں شخصیات
شامل ہیں۔ خیال اور آوازکے اس سفر میں ریڈیو آزادکشمیر کے سٹیشن ڈائریکٹر
چوہدری محمد شکیل خضرراہ کی طرح ہمیں گائیڈ کرتے رہے جبکہ سینئر صحافی راجہ
حبیب اﷲ خان ہمارے ساتھ ساتھ رہے۔ جب بھی کشمیر کے حوالے سے ہماری گفتگو
ہوتی رہی تو قومی شخصیات کا ایک ہی موقف رہا کہ کشمیر پاکستان کی بقاء کا
مسئلہ ہے اور پاکستان کشمیر کے بغیر ادھورا اور نامکمل ہے۔ ان شخصیات کا یہ
بھی کہنا تھا کہ ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے بعد اب بھارت کے لیے یہ ناممکن
ہے کہ وہ پاکستان کو کسی روائتی جنگ کے ذریعے شکست دے سکے۔ اس حوالے سے
ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ہمیں انٹرویو دیتے ہوئے یہ تاریخی
جملہ دہرایا کہ اﷲ تعالی کی مہربانی سے پاکستان ناقابل تسخیر بن چکا
ہے۔لیکن انہوں نے یہ اپیل بھی کی کہ پاکستانی قوم مہربانی فرما کر اپنے ووٹ
کی طاقت کو سمجھے اور کسی بھی ضمیر فروش کو ایسی پوزیشن پر نہ پہنچائے کہ
وہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو کمپرومائز کر سکے۔
قارئین آج منظر ایک مرتبہ پھر بدلہ ہوا ہے آج ایک طرف تو کشمیری نژاد
پاکستانی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں
کشمیر کی آزادی کی بات کر رہے ہیں تو دوسری جانب پیپلز پارٹی کے چیئرمین
بلاول بھٹو زرداری مرسوں مرسوں کشمیر نہ دیسوں کے نعرے لگا رہے ہیں اور
تیسری جانب پاکستانی سپہ سالار جنرل راحیل شریف پوری دنیا میں کشمیر کے
مسئلے کو حل کرنے کا پیغام دے رہے ہیں کشمیر ایک مرتبہ پھر پاکستان کی
خارجہ پالیسی کا فرنٹ پیج بن چکا ہے۔ یہاں بقول چچا غالب ہم یہ کہتے چلیں
دیا ہے دل اگر اس کو بشر ہے کیا کہیے
ہوا رقیب تو ہو، نامہ بر ہے کیا کہیے
یہ ضد کہ آج نہ آئے اور آئے بِن نہ رہے
قضا سے شکوہ ہمیں کس قدر ہے کیا کہیے
رہے ہے یوں گہ و بے گہ کہ کوئے دوست کو اب
اگر نہ کہیے کہ دشمن کا گھر ہے کیا کہیے؟
زہے کرشمہ کہ یُوں دے رکھا ہے ہم کو فریب
کہ بن کہے ہی انہیں سب خبر ہے کیا کہیے؟
سمجھ کے کرتے ہیں بازار میں وہ پرسش حال
کہ یہ کہے کہ سررہ گزر ہے کیا کہیے؟
تمہیں نہیں ہے سررشتہ وفا کا خیال
ہمارے ہاتھ میں کچھ ہے کیا کہیے؟
انہیں سوال پہ زعم جنوں ہے کیوں لڑیئے؟
ہمیں جوابسے قطعِ نظر ہے کیا کہیے؟
حسد سزائے کمالِ سخن ہے کیا کیجئے
ستم بہائے متاعِ ہُنر ہے کیا کہیے؟
کہا ہے کس نے کہ غالب بُرا نہیں لیکن
سوائے اس کے کہ آشفتہ سر ہے کیا کہیے
قارئین اسی حوالے سے ہم نے ایف ایم93میرپور ریڈیو آزادکشمیر پر ایک خصوصی
مذاکرہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ڈھونگ اور فراڈ الیکشن پر گفتگو کرنے
کیلئے رکھا۔ مذاکرے میں گفتگو کرتے ہوئے آزادجموں وکشمیرہائی کورٹ کے سابق
چیف جسٹس سربراہ جموں کشمیر لبریشن لیگ جسٹس عبدالمجید ملک نے کہا کہ بھارت
ڈھونگ انتخابات کے ذریعے کبھی بھی تحریک آزادی کشمیر کو شکست نہیں دے سکتا۔
کشمیری قوم جس دلیری کے ساتھ سات دھائیوں سے بھارتی تشدد اور ریاستی جبر و
استبداد کا مقابلہ کر رہی ہے دنیا کی کوئی دوسری قوم اس کی مثال پیش کرنے
سے قاصر ہے۔ کشمیری صرف اور صرف حق خود ارادیت چاہتے ہیں بھارتیہ جنتا
پارٹی کے نو منتخب وزیراعظم نریند ر سنگھ مودی مقبوضہ کشمیر میں آئینی
تبدیلی کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کا سٹیٹس تبدیل کرنا چاہتے ہیں انکی یہ خواہش
تحریک آزادی کشمیر کو کبھی بھی ختم نہیں کر سکتی۔ تمام عالمی برادری یہ بات
اچھی طرح جانتی ہے کہ کشمیری قوم اپنی آزادی کیلئے لاکھوں جانوں کا نذرانہ
پیش کر چکی ہے اور آنے والے برسوں میں مہذب دنیا کو کشمیریوں کو آزادی
دلوائے بغیر امنِ عالم برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ اقوام متحدہ کے پلیٹ
فارم پر بھارت خود یہ قرار داد لے کر گیا تھا کہ مناسب وقت آنے پر کشمیریوں
کو رائے شماری کا حق دیا جائے گا اور کشمیری اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں
گے۔پروگرام میں وزیرسماجی بہبود آزادکشمیر محترمہ فرزانہ یعقوب، معروف
تجزیہ کار خوشنود علی خان، چیئرمین ہیومن رائٹس کمیشن ہمایوں زمان مرزا اور
سینئر صحافی چیف ایڈیٹر روزنامہ کشمیر نامہ راجہ سہراب خان نے بھی شرکت کی۔
ایکسپرٹ کے فرائض سینئر صحافی راجہ حبیب اﷲ خان نے انجام دیئے۔ جسٹس
عبدالمجید ملک نے کہا کہ بھارت میں تمام سیاسی جماعتیں کشمیر کے حوالے سے
ایک جیسا ہی موقف رکھتی ہیں اور نریندر مودی بھی اسی ذہنیت کی عکاسی کر رہے
ہیں کشمیر کے مسئلے کا حل انتہائی سیدھا سادہ ہے کہ کشمیر کو دونوں ممالک
پاکستان اور ہندوستان اپنی فوجوں سے خالی کر دیں اور انخلاء کے بعد بین
الاقوامی اتحاد کے زیر نگرانی ایک شفاف رائے شماری کا عمل کروا کر کشمیر کا
فیصلہ کر دیا جائے یہ مسئلہ نہ تو دو ممالک کا سرحدی ایشو ہے اور نہ ہی
وسائل کی جنگ ہے بلکہ ڈیڑھ کروڑ کشمیری انسانوں کی زندگی اور موت کا ایشو
ہے۔ وزیرحکومت محترمہ فرزانہ یعقوب نے کہا کہ متعصب بھارتی وزیراعظم نریندر
مودی نے مقبوضہ کشمیر میں زمینی تبدیلیوں کیلئے جو سازشیں شروع کی ہیں اس
کے نتیجے میں تحریک آزادی کشمیر میں مزید تیزی آ رہی ہے ۔ پاکستان اور
آزادکشمیر کے سیاسی زعما نے گول میز کانفرنس کے ذریعے بھارتی دھونگ الیکشن
مسترد کر دیے ہیں اور آل پارٹیز حریت کانفرنس بھی مقبوضہ کشمیر میں انتخابی
عمل کو رد کر چکی ہے۔ مشن 44پلس کے ذریعے نریندر مودی مقبوضہ کشمیر کا
خصوصی سٹیٹس ختم کرنا چاہتے ہیں ایسا کرنے سے وہ تحریک آزادی کو مزید تقویت
فراہم کریں گے۔ فرزانہ یعقوب نے کہا کہ میں اس بات کی قائل ہوں کہ پاکستان
اور آزادکشمیر سے جتنے بھی بین الاقوامی وفود تحریک آزادی کشمیر کے حوالے
سے بین الاقوامی برادری کی طرف روانہ کیے جائیں ان وفود میں آزادکشمیر کے
سینئر صحافی، کالم نگار، تجزیہ کار، شاعر اور دیگر دانشور شامل ہونے چاہیں
کیونکہ یہ لوگ کشمیرکی آزادی کا کیس پڑھے لکھے انداز میں منطقی مدلل طریقے
سے دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔ ہم کوشش کریں گے کہ جلد از جلد اسے
لازمی طور پر قانون کا حصہ بنایا جائے سینئر تجزیہ کار خوشنود علی خان نے
گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ وقت گزر چکا ہے کہ جب ایک
فوجی آمر نے ایک مخصوص ذہنیت کے تحت تحریک آزادی کشمیر کو نقصان پہنچایا
تھا اور بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے تقسیم کشمیر کی باتیں کی جا رہی تھیں۔
آج پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف بھی کشمیر کی آزادی کی بات کر رہے ہیں
اور جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے بھی لاکھوں کے اجتماع سے خطاب
کرتے ہوئے اپنی تقریر کا بنیادی نکتہ کشمیر ہی رکھا ہے۔ خوشنود علی خان نے
کہا کہ کارگل جنگ کے دوران میں تمام کاروائی سے آگاہ تھا اور آج بھی دل سے
ایمان رکھتا ہوں کہ تمام پاکستانیوں کے دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔
میڈیا پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ کشمیریوں کی آزادی کی آواز حریت کو
طاقت ور انداز میں بین الاقوامی برادری کے سامنے رکھے۔ مجھ سمیت پرنٹ و
الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ہر پاکستانی اور کشمیری صحافی کو اس حوالے سے
اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔سینئر صحافی راجہ سہراب خان نے گفتگو کرتے ہوئے
کہا کہ آزادکشمیر کے حکمرانوں کو چھوڑ کر ہر کشمیری اپنے مقبوضہ کشمیر کے
بہن بھائیوں کے ساتھ دلی محبت رکھتاہے اور اپنے بہن بھائیوں کی آزادی کیلئے
اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ تحریک آزادی کے بیس کیمپ میں نظریاتی حکومت
کا برسراقتدار آنا ضروری ہے۔ راجہ سہراب خان نے کہا کہ ہم نے ایک نئے اخبار
کا اجراء اس لیے کیا ہے کہ اس اخبار کے ذریعے ہم تحریک آزادی کو زیادہ سے
زیادہ طاقت فراہم کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرمین
ہمایوں زمان مرزا نے کہا کہ بے نظیر بھٹو شہید اور ذوالفقار علی بھٹو شہید
نے کشمیر پر ہمیشہ دلیرانہ موقف اپنایا اور دنیا نے ان کے موقف کو تسلیم
بھی کیا۔ آزادکشمیر کے موجودہ وزیراعظم تحریک آزادی کیلئے کچھ بھی نہیں
کررہے جبکہ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے ملین مارچ کے ذریعے لندن کی
سرزمین پر تمام دنیا کو کشمیر کی آزادی کا پیغام کامیابی کے ساتھ دیا ہے۔
قارئین ہم دل سے اس بات پر ایمان اور یقین رکھتے ہیں کہ جو قوم اپنی آزادی
کے حصول کیلئے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے سکتی ہے اسے دنیا کی کوئی بھی
طاقت غلام نہیں رکھ سکتی۔ کشمیری قوم نے گزشتہ سات دھائیوں کے دوران ہر
آزمائش اور امتحان میں جس جرات اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہے ہم امید
رکھتے ہیں کہ بہت جلد مقبوضہ کشمیر میں بھی منظر بدل جائے گا۔ جس طرح
پاکستان کا قیام بھی اس صدی کی سب سے بڑی کرامت ہے اسی طرح کشمیر کی آزادی
بھی ایک ایسی کرامت بن کر سامنے آئے گی کہ تمام دنیا ششدر ہو کر رہ جائے
گی۔ یہاں پر غور کرنے کی ضرورت اُن لوگوں کو ہے کہ جنہوں نے کشمیری شہدا کے
خون کو نیلام کیا اور مال وزر کی ہوس میں انہوں نے تمام حدیں پار کر دیں۔
یہاں بقول فیض احمد فیض ہم یہ کہیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل پہ لکھا ہے
جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
سب تاج اُچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
یقیناً وہ دن آنے والا ہے کہ جب ان تمام لوگوں کو ضمیر فروشی کی سزائیں بھی
ملیں گی اور سزا جزا اسی دنیا میں ان کا مقدر ہو گی۔ کشمیر اﷲ کی مہربانی
سے بہت جلد آزادہونے والا ہے۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے۔
جوش ملیح آبادی مرنے سے کچھ دیر پہلے ذرا ہوش میں آئے
ان کے ارد گرد کافی احباب موجود تھے ایک صاحب پوچھنے لگے
’’جوش صاحب کیا حال ہے؟‘‘
جوش ملیح آبادی نے جواب دیا
’’حال ٹھیک ٹھاک ہے بس ذرا انتقال ہو رہا ہے‘‘
یہ کہہ کر جوش ملیح آبادی نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے آنکھیں بند کر لیں۔
قارئین جوضمیر فروش یہ انتظار کر رہے ہیں کہ کب تحریک آزادی کشمیر کے
پروانے جل کر خاک ہو جائیں وہ یاد رکھیں کہ یہ پروانے زندہ وجاوید رہیں گے
اور ان کے ناپاک عزائم ہی جل کر خاک ہوتے رہیں گے۔ اﷲ کشمیریوں کے حال پر
رحم فرمائے۔آمین۔ |