ایک وقت تھا کہ بی اے کی ڈگری
کسی کسی کے پاس ہوتی تھی۔صبح سے شام تک ڈھونڈنا شروع کر دیتے تو بڑی مشکل
سے چند ایک افرادایسے ملتے تھے جن کے پاس بی اے کی ڈگری ہوتی تھی اسکی وجہ
یہ تھی کہ لوگوں کا تعلیم پر دھیان نہ ہونے کے برابر تھا اکثر کاشتکاری اور
اپنے آباؤ اجداد کے پیشے اپنانے کو ترجیح دیتے تھے۔مگر وقت کے ساتھ ساتھ
لوگوں میں شعور آتا گیا اور تعلیم کی طرف رجحان بڑھنے لگا۔ ایک دفعہ آرمی
کی بھرتی ہو رہی تھی اور مجھے میرا ایک دوست زبردستی اپنے ساتھ آرمی سلیکشن
آفس فیصل آباد لے گیا جہاں ہم بھی بھرتی ہونے کے لئے آئے ہوئے دوسرے لڑکوں
میں بیٹھ گئے ۔بھرتی کے لئے کارروائی شروع ہو ئی تو ایک میجر صاحب نے اعلان
کیا کہ کوئی لڑکا بی اے پڑھا لکھا ہے؟ میں فوراََ کھڑا ہو گیااور میں نے
دیکھا کہ میرے سوا وہاں اور کوئی بی اے کی ڈگری والا نہیں تھا۔یعنی ایک
ہزار سے زائد مجمع میں سے صرف میں ہی تھا جس کے پاس بی اے کی ڈگری تھی میں
بغیر کسی فزیکل ٹیسٹ کے آرمی میں سلیکٹ ہو گیا اور مجھے میڈیکل کے لئے نئی
تاریخ دے دی گئی پھر کسی بناء پر میں نے آرمی جوائن نہیں کی۔میرے بتانے کا
مقصد یہ کہ اس وقت بی اے کی ڈگری والے لوگ بہت کم تھے مگر آج وقت کے ساتھ
لوگوں کا تعلیمی معیار بھی بڑھا ہے۔اب تو بی اے ،ایم اے اور ساتھ بہت سی
ڈگریوں والے آپ کو سڑک پر جاتے بے شمار مل جائیں گے۔اب تو ایک چپڑاسی کی
پوسٹ پر بھرتی ہونے کے لئے بی اے سے کم پڑھے لکھے افراد کو میرٹ لسٹ سے
خارج کر دیا جاتا ہے۔ یعنی درجہ چہارم کے سویپر کے بھرتی ہونے کے لئے بھی
بی اے کی ڈگری ہونا بھی تھوڑا ہے۔ ریٹائرڈ آرمی چیف اور سابقہ صدر پاکستان
پرویز مشرف نے سترہویں ترمیم پاس کروائی جس کے تحت بی اے سے کم پڑھے لکھے
افراد الیکشن نہیں لڑ سکتے میرے خیال سے یہ فیصلہ بالکل درست تھا اس سے
پہلے ہمارے حکمران اکثر ان پڑھ یا تھوڑا پڑھے لکھے تھے ،سابقہ صدر کا فیصلہ
اس لحاظ سے بھی ٹھیک تھا ان کا خیال تھا کہ ایک پڑھی لکھی نسل ان پڑھ لوگوں
کے ماتحت کیسے رہ پائے گی؟ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ اگر اسمبلیوں میں
بیٹھنے والے لوگ پڑھے لکھے ہونگے تو ہی ملک ترقی کر پائے گا۔2008 ء کے عام
انتخابات میں الیکشن کمیشنر نے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کی بی
اے کی ڈگریوں کی جانچ پڑتال کی تو لاتعداد سیاست دانوں کی ڈگریاں بوگس قرار
پائیں، جس کی بناء پر الیکشن کمیشنر نے انہیں نا اہل بھی قراردیا ۔مگر ان
میں سے اکثر نے اپنے عزیز و اقارب کے فارم بھی اپنی سیٹوں پر جمع کروائے
تھے جن کو وہ وقت آنے پر میدان میں لانا چاہتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ
اگر الیکشن کمیشنر نے انہیں نااہل قرار دے بھی دیا تو وہ ایسے افراد کو
الیکشن لڑوائیں گے جو ان کے ماتحت ہو ں گے اور پھر ہوا بھی ایسا ہی،یعنی
پرویز مشرف کا یہ خواب چکنا چور ہو گیا۔اور باقی کی کسر پاکستان پیپلز
پارٹی کی حکومت نے پوری کر دی سا بقہ صدر پاکستان آصف علی زرداری نے اقتدار
میں آتے ہی اٹھارہویں ترمیم پاس کروا ئی جس کے تحت بی اے کی لازم ڈگری والی
شرط ختم ہو گئی۔ انہوں نے وہی پرانہ رول پھر بحال کر دیا، اور بی اے کی
ڈگری کا پتہ جڑ سے ہی کاٹ دیا ۔ مگر یہ قانون صرف اور صرف الیکشن لڑنے کے
لئے ہی بنایا گیا تاکہ سیاست دانوں سے ناانصافی نہ ہو سکے کیونکہ یہ ملک ان
سیاست دانوں نے اپنے باپ دادا کی جاگیر سمجھ رکھاہے اور یہاں پر کوئی نیا
سیاست دان ،وزیر، مشیر، ایم این اے یا ایم پی اے نہیں آ سکتا۔ کیا ہمارا
ملک ان پڑھ لوگوں نے ہی چلانا ہے؟اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہمیں اسکول بند
کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محوس نہیں کرنی چاہیے اسمبلیوں میں بیٹھنے والے
انگھوٹھا چھاپ اور سڑکوں پر دھکے کھاتے ہوئے وہ افراد جن کو ہم اپنے مستقبل
کا سرمایا کہتے ہیں جبکہ ہمارے حکمران اپنی تقریروں میں بار بار یہ باتیں
سناتے رہتے ہیں کہ ہماری 65% نوجوان نسل اب اس ملک کی تقدیر بدلے گی اب
یہاں ان سے پوچھتا ہوں کہ یہ نوجوان نسل پاکستان کا مستقبل کیسے بدلیں گے؟؟؟
اگر ہم نے وہی پرانے کارتوس بار بار چلانے ہیں تو نشانہ کیسے لگے گا؟اگر ہم
نے اسمبلیوں میں وہی پرانے لوگ لانے ہیں تو پھر اﷲ ہی حافظ ہے اس ملک کا،
جو67 سالوں سے اس ملک کے لئے کچھ نہیں کر سکے وہ اس بار کیا بم گرا دیں گے؟
یہ وہی اپنا روایتی انداز اپنائے ہوئے ہیں ہمارے حکمران لیپ ٹاپ تو تقسیم
کر رہے ہیں مگر انہوں نے کبھی اس پہلو پر سوچنا بھی گوارہ نہیں سمجھا کہ
اگر کسی فیملی کے ایک فرد کو اس کی تعلیمی حیثیت کے مطابق کوئی جاب دلوا دی
جائے تو اس کے ساتھ منسلک کتنے ایسے افراد ہونگے جن کا وہ روزگاری کا وسیلہ
بن جائے گا؟؟ حکمران آج کل اسمبلی میں بیٹھ کر جمہوریت بچانے کی باتیں تو
کر رہے ہیں میرا ان سے سوال ہے کہ وہ کس جمہوریت کی بات کر رہے ہیں ؟اوروہ
کونسی جمہوریت بچارہے ہیں ؟ جمہور یت کا مطلب جمہور یعنی عوام کا نظام ہے
دیگر الفاظ میں جمہوری دور میں عوامی نمائندے عوام کی بہتری کے لئے کام
کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں صورتحال اس کے برعکس ہے ۔ اس ملک میں تو جمہوریت
نام کی کوئی چیز نہیں اگر جمہوریت ہوتی تو اس اسمبلی میں بیٹھنے والا کوئی
نہ کوئی ضرور ہماری یوتھ کے لئے قرارداد پیش کرتامگر افسوس کسی ایک نے بھی
اس topic پر سوچنا بھی گوارہ نہیں سمجھا جن کو ہم پاکستان کا مستقبل کہتے
ہیں جن پر ہم آس لگائے بیٹھے ہیں یہی نوجوان گریجویٹ، ماسٹرز۔ پی ایچ ڈی کی
ڈگریاں ہاتھوں میں پکڑے ر وزگارکی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں مگر کوئی
انکی سننے والا نہیں جہاں ایک peon کی سیٹ پر بی اے ، ایم اے کی ڈگری والا
لاکھوں روپے دے کر بھی کسی وزیر،مشیر کی سفارش کے بغیر کوئی بھرتی نہیں ہو
سکتاتو پھر وہاں ہم کس کی امید لگائے ہوئے ہیں ؟ ایک طرف ہم بی اے کی ڈگری
کی شرط ختم کر کے ایسے نمائندے اسمبلیوں میں لارہے ہیں جو آج تک ہمیں کچھ
نہیں دے سکے جن کی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے اور انکے مفادات مشترک ہیں
صرف چہرے بدلتے رہتے ہیں ساتھ ہم ان کو لائسنس بھی دیتے ہیں کہ دنیا بھر
میں جاؤ اور پاکستان کے مستقبل کے فیصلے کروتو دوسری طرف لاتعداد ڈگریوں
والے بے چارے نوجوان خود سوزی کے انجام تک پہنچ رہے ہیں اتنی ڈگریاں لے کر
بھی بے روزگار ہیں۔ چاہ کر بھی کچھ نہیں کرسکتے، کیا فائدہ ایسی ڈگریوں کا
اگر ہم نے بیرون ملک جا کر ہی نوکریاں کرنی ہیں؟؟؟ جب تک جہوریت کے نام پر
یہی نظام قائم رہا تب تک عوامی مسائل حل ہونا مشکل ہے۔اگر ہم نے اس ملک کو
ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا ہے تو موجودہ جمہوریت کے نام پر قائم یہ
جمہوری نظام بدلنا ہو گا اور پڑھی لکھی یوتھ کو آگے لانا ہے ورنہ ہماری
اگلی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی ! |