پاکستان آئے دن نت نئے بحرانوں
سے دوچار ہے ،ہر نیا دن نیا غم، نئی مصیبت اور نیا امتحان ،پاکستانی عوام
اور حکمرانوں کو پیش آرہا ہے ۔ملک کے دانشوران اپنی تحریروں ،تبصروں ،تجزیوں
اور تقاریرکے ذریعے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر تے رہتے ہیں۔جس کا مقصد
حالات کی اصلاح کر کے بحرانوں کا حل تلاش کرنا اور ذمہ داران کی راہنمائی
کرنا ہوتا ہے ۔ماضی کی حکومتیں بھی جن بحرانوں سے دوچار ہوئیں وہ اپنے
ادوار مکمل کر کے جا چکی ہیں، مگر ملکی حالات کی کشتی کو سنبھالا نہ مل سکا
۔بلکہ اپنے کاروبار حکومت کو چلانے کے لیے ،ہر حکومت مختلف مدات اور شرائط
پر غیر ملکی قوتوں سے قرضے لیکر کسی بدحال اور مفلوک الحال نادان کاروباری
ادارے کے مالک کی طرح وقت پاس کر کے چلی گئی ،ماضی کی حکومتوں کے تمام
معاملات کی ذمہ داری بھی یقینی طور پر ہر آنے والی حکومت نے اٹھائی ۔لیکن
ماضی کی حکومتوں کے اقتصادی گوشواروں سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے بھی غیر
ملکی قرضے سے تشہیری مہمیں چلا کر اپنے اپنے پارٹی ورکرز کو خوش کر لیا
جبکہ ازخود بھی کرپشن کے گراف کو بلند ہی کرتے چلے گئے ۔اب موجودہ حکومت
بھی اسی تسلسل کے ساتھ غیر ملکی قرضوں کی طرف حسب وعدہ کشکول توڑ کر خلاف
وعدہ چلتے ہوئے چاروں کونوں سے پکڑ کر کسی دربار کے لیے پیسہ جمع کرنے والے
زیرک افراد کی طرح بیرون ملک ‘کریہ کریہ اور کوچہ کوچہ سرگرداں ہے ۔
آج کی برسر اقتدار سیاسی پارٹی کے قائدین اور نامور ورکرز جو آج کے اعلیٰ
عہدوں پر فائزہیں اور اس ملک کے کرتا دھرتا ہیں ۔اگر ان کی عوامی اجتماعات
سے لیکر الیکشن مہم کے دوران کی جانے والی تقاریر کی ویڈیوز نکال کر دیکھی
جائیں تو یوں لگتا ہے کہ یا تو وہ اپنے وعدے بھول چکے ہیں یا پھر ملکی
بدحالی انھیں کچھ اس ناقص حالت میں عطا ہوئی ہے کہ وہ اس کا کوئی تدار ک نہ
کر پائے ۔جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر دور کے سیاست دانوں کے نعرے بغیر ملکی
حالات کو جانتے ہوئے کھوکھلے ،بے بنیاد اور لاعلمی کے اعدادوشمار کا ادراک
رکھنے والے عقل و دانش اور صلاحیت کے کلمات ہوتے ہیں ۔
مسلم لیگ (ن)کی حکومت نے اپنے دور حکومت کا پہلا سال تو لوگوں کو بجلی ،گیس
،امن عامہ ،انصاف ،قانون ،امتیازی سلوک ،بڑھتی ہوئی کرپشن ،بے روزگاری ،سخت
لاقانونیت پر گرفت نہ ہوسکنے کی ذمہ داری ،ماضی کی مرکزی حکومت کے نام
لگاتے ہوئے گزار دیا ۔عوام کی اکثریت ابھی حکومتوں کی کار کردگی سے مطمئن
نہ تھی کہ پرویز مشرف ٹرائل جیسے معاملات کو ،عوام کے بعض ہم خیال لوگوں کی
توجہ مصروف کرنے کے لیے سلسلہ چلا دیا ۔حکومتی زعماء یہ خیال کرتے تھے کہ
ایسا کرنے سے اپنے ماضی کے دشمن سے انتقام بھی لیا جائے گا اور عوام کی
توجہ بھی بٹ جائے گی ۔لیکن ایسا کرنے سے کئی بڑی اہمیت والی پچیدگیاں پیدا
ہونا شروع ہو گئیں اور پاکستانی عوام حکومت کے ایسے اقدامات پر بعض بے
بنیاد ،غیر یقینی اور گومگو کی کیفیت رکھنے والے اندھیر آوازے بھی سننے میں
آنے لگے ۔جن میں جیسے میڈیا پر اداروں کے درمیان تصادم کی باتیں بھی سنی
گئیں ۔حالانکہ افواج پاکستان آئین اور قانون کی نہ صرف مکمل پاسدار چلی
آرہی ہے بلکہ ان کا اس ملک میں مقدس وجود عالم اسلام اور اقوام عالم میں
پاکستان کے لیے ایک یقینی ضمانت ہے ۔افواج پاکستان کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ
جب کبھی پاکستان کو بیرونی یا اندرونی طور پر اپنی سالمیت ،بقا اور امن
عامہ یا کسی بھی قسم کی آفت یا کسی دشمن کی طرف سے میلی آنکھ اٹھاہ کر ارضِ
پاکستان کی طرف دیکھنے کی جرات ہوئی تو ہمارے جانباز فوجی جوانوں اور
افسروں نے، اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ دنیا
ان کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔مگر ہماری ملکی قیادت کو اپنی ٹیم کے
نامکمل اور اکثریتی طور پر نااہل اور مفاد پرست ہونے کی بنا پر آج یہ دن
دیکھنے پڑے ہیں کہ ایسے ایسے معاملات کو چھیڑا گیا کہ جس سے پاکستانی قوم
کو ایک پائی کی بھی منفعت نہ ہوئی ۔
ہماری حکومت کی اس غیر مفاہمانہ سوچ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور الیکشن مہم
میں کئے گئے فائدے پورے نہ کر سکنے کو نااہلیت شمار کرتے ہوئے اور اس پر
طرہ یہ کہ عوام کو ان کی بنیادی ضروریات میں بھی کسی قسم کی بہتری نہ
دیکھتے ہوئے ،پی ٹی آئی اور پی اے ٹی نے موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ،ملک
گیر دھرنوں کی سیاست شروع کر دی، جبکہ اس بحران کا بھی حل غیر مفاہمانہ
انداز سے جب کرنے کی کوشش کی گئی، تو ماڈل ٹاؤن جیسے ،ٹارگٹ کلنگ جیسے
حادثات رونما ہوگئے ۔
اگر اس وقت سے آج تک کے ملکی سیاسی بحران کا عمیق نظری سے جائزہ لیا جائے
تو یہ حقیقت ہم پر عیاں ہوتی ہے کہ ، بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے
ماضی کے حکومتی ادوار کے بارے میں ہر دانش ور یہ کہتاتھا کہ کوئی بھی مسئلہ
ہو یا کوئی حکومتی تنازعہ ہو تو بی بی بات کو سنتی نہیں ہیں اور یہ بات بھی
عام تھی کہ اگر بی بی سنتی نہیں تو میاں صاحب بھی بات کو سمجھتے نہیں ۔اب
آجکل کے ان تمام بحرانوں کو دیکھ کر ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ دھرنوں کی
سیاست کرنے والے قائدین جو بھی کرنے کا ارادہ کرتے ہیں ،ان میں تیزی دکھاتے
ہیں ۔جس کے نتیجے میں انھیں کامیابی کم اور مایوسی زیادہ ہوتی ہے ۔جبکہ اس
کے مقابلے میں میاں صاحب کوئی بھی فیصلہ کرنے میں ہمیشہ’’ دیر ‘‘کر دیتے
ہیں ۔جس کے نتیجے میں اگر کامیابی کی بجائے مایوسی ہوئی ہو تو یقینا وہ ان
موجودہ سیاسی بحرانوں کا حل نکانے کا سوچیں، مگر یہ سمجھ آتی ہے کہ میاں
صاحب ان جاری بحرانوں کا حل نکالنے کی بجائے، بحرانوں کے منفی اثرات کو ٹال
مٹول کرنے کی سیاست میں لگے ہوئے ہیں ،جس سے بحرانوں کا کوئی حل نہیں مل
رہا ۔اب جبکہ حالات یہ ہیں کہ حکومت اور دھرنے والوں میں مصالحت کروانے
والے بھی، اسی انداز میں جلسے جلوس شروع کرچکے ہیں ۔اور ہر محروم سیاسی
جماعت جلسوں اور دھرنوں کی سیاست میں عملی طور پر کودنا شروع ہو گئی ہے ۔تو
موجودہ منظر نامہ یہ کہہ رہا ہے کہ اب موجودہ حکومت اپنا عرصہ مدت پورا کرے
یا نہ کرے اب یہ اس کا ذاتی مسئلہ نظر آنے لگا ہے ۔کیونکہ اب اکثریتی
جماعتیں سڑکوں اور میدانوں میں نکل آئی ہیں اور الیکشن مہم جیسی تحریکیں یک
بعد دیگرے شروع ہو رہی ہیں ۔مگر حکومت اور دیگر قائدین سے سوال یہ ہے کہ
ایسے میں عوام کا کیا بنے گا ؟؟؟
عوام سے کئے گئے وعدے ،جب ماضی میں کوئی پورے نہیں کر سکا تو پھر نئے وعدے
،ایک سمجھدار پاکستانی کے لیے ایک لولی پاپ سے بڑھ کر کچھ زیادہ نہیں لگتے
۔
اب تو کھل کر ہر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ اگر حکومت کی باگ دوڑ اس کو سونپ دی
جائے تو وہ آسماں سے تارے توڑ کر ارضِ پاکستان پر بکھیر دے گا ۔اور چاند کو
کھینچ کر پورے پاکستان کو چاندنی سے بھر دے گا ۔
ہر آدمی کو روزگار ملے گا ،جلد انصاف میسر آئے گا ،فتنہ و فساد کا خاتمہ ہو
جائے گا اور کوچہ و بازار میں موت کی رقص تھم جائے گا ۔عورتوں کے حقوق کا
تحفظ ہو گا ۔تعلیم اور صحت مفت اور عام میسر ہوگی ۔خوشحالی کے وہ پھول
کھلیں گے جنہیں پھر اندیشۂ زوال نہ ہوگا ۔لیکن مقام افسوس تو یہ ہے کہ ایسا
کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آتا ۔ویسے بھی جس قدر حالات کو الجھا دیا گیا ہے ایک
مدت اس کے سلجھاؤ کے لیے درکار ہے لیکن آج کی حکومت اور دیگر سیاسی
راہنماؤں کو مل کر ضدیں چھوڑ کر لوٹ مار کی اور مفادات کی خواہشات ترک کر
کے لازمی طور پر کوئی مفاہمانہ طرز اپنانی چاہیئے کیونکہ جہاں بحرانوں کا
حل نہیں نکلتا وہ معاشرے نہیں چلتے ۔ |