دنیا کی جنت ارضی کشمیر میں ایک
نئے خطرے کی آہٹ دکھ رہی ہے۔ قدرتی طوفان نجات پانے کے فورا بعد ان کے سر
پر ایک اور طوفان منڈلارہا ہے۔ مرکز میں برسر اقتدار پارٹی بی جے پی عام
انتخاب کے ساتھ مہاراشٹر اور ہریانہ میں تاریخ ساز کامیابی سے ہم کنار ہونے
کے بعد کشمیر میں بھی ایک نئی تاریخ رقم کرنے کے لئے تگ دو میں مصروف ہے۔
ہریانہ اور مہاراشٹر ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی پہلی مرتبہ حکومت بنانے
میں کامیاب ہوئی ہے اور اب ایسے ہی آثار کشمیر میں بھی نظر آرہے ۔ نریندر
مودی او ل دن سے کشمیریوں کولبھانے میں لگے ہیں ۔ وزیر اعظم بننے کے بعد
مسلسل کئی دورہ انہوں نے وہاں کا کیا ۔ اب انتخابی تشہیر کے دوران وہ
کشمیریوں کو اپنے ان دوروں کی یاد دلارہے ہیں کہ ہم نے کشمیر کی محبت میں
یہاں کا سب سے زیادہ دورہ کیا ہے لہذا اس کشمیر پر حکومت سازی کا حق بھی
ہمارا ہے ۔ عام انتخاب کے دوران بی جے پی کے انتخابی منشور کا ایک اہم حصہ
کشمیر سے دفعہ 370 کو ہٹانا تھا لیکن اب وہی پارٹی ریاستی الیکشن کے دوران
اس دفعہ کو ختم کرچکی ہے۔ کشمیر کے لئے جاری کئے گئے انتخابی منشور میں اس
اس شق کو شامل نہیں کیا گیا ۔پارٹی کے صدر امت شاہ ،سابق صدر اور موجود ہ
وزیر داخلہ رج ناتھ سنگھ اور دیگر بڑے بڑے لیڈران اس مو ضوع پر گومگو کے
شکا ر ہیں۔نریندر مودی جو عام اننتحاب کے دوران دفعہ 370 کو ہٹانے کا ببانگ
دہل دعوی کررہے تھے وہ ریاستی الیشکن کے دوران اس موضوع پر بالکلیہ خاموش
ہیں ۔
یہ سب اشارہ ہے کہ اس مرتبہ بے جے پی ہر حال میں کشمیر پر پر دوڑ ہ ڈالنا
چاہتی ہے ۔بی جے پی اس کے لئے زمینی سطح پر محنت بھی کررہی ہے ۔ ایک صاحب
کے فیس بک پوسٹ پر دور روز قبل یہ خبر بھی میرے نظر سے گذری تھی کے کشمیر
میں دو سو علماء بی جے پی کی حمایت کے لئے تشہیری عمل میں مصروف ہیں۔یہ خبر
صحیح ہے یا غلط مجھے اس حوالے کوئی تصدیق نہیں ہے ۔ایک وقت تھا جب بی جے پی
کو کشمیر میں اپنا کوئی نمائندہ نہیں ملتا تھا لیکن اس مرتبہ جموں وکشمیر
کی 87اسمبلی سیٹوں میں سے بی جے پی 70سیٹوں پرانتخاب لڑ رہی ہے۔وادی سے اس
نے 25مسلمانوں کو، جموں سے چھ اور لداخ سے ایک مسلمان کو امیدوار بنایا ہے
۔کئی نامور مسلم سیاست داں بھی بی جے پی کا دامن تھام چکے ہیں اور وہ بی جے
پی کے ٹکٹ پر چناؤ بھی لڑرہے ہیں۔ جن میں سرفہرست حنا بھٹ ہے جو عمر عبداﷲ
کی پارٹی نیشنل کانفرنس کے ایک قائد محمد شفیع بھٹ کی صاحبزادی ہیں۔
ریاست جموں وکشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے، ایک حصہ جموں کا،
دوسرا وادیٔ کشمیر کا تو تیسرا لیہہ اور لداخ کا۔ جموں میں غیر مسلم آبادی
زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چناؤ میں بی جے پی نے جموں میں اچھی کامیابی
حاصل کی تھی۔ حالانکہ جموں کبھی کانگریس کا گڑھ تھا۔ اس بار وزیراعظم
نریندر مودی نے اپنی حکمت عملی لداخ کی سمت موڑرکھی ہے، وہاں بھی غیر
مسلموں کی اکثریت ہے، بڑی تعداد بدھ مت سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے۔
لداخ میں ترقی کے نام پر مودی نے عوامی سطح پر جو پروگرام پیش کیا ہے ۔اس
سے مقامی آبادی کا متاثر ہونا یقینی ہے۔ اس لیے لگ یہی رہا ہے کہ لداخ میں
بھی بی جے پی کو جموں ہی جیسی کامیابی مل سکتی ہے۔ اِن دو علاقوں میں
مجموعی طور پر 41اسمبلی سیٹیں ہیں اور ریاستی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے
کے لیے 44سیٹوں کی ضرورت ہے۔ شاید اسی لیے بی جے پی نے جموں وکشمیر الیکشن
کو ’’مشن 44پلس‘‘ کا نام دیا ہے۔ لہذا یہ کہنا بعید از قیاس نہیں ہوگا کہ
بی جے پی کچھ چھوٹی پارٹیوں کے سہارے پہلی بار جموں وکشمیر میں اقتدار پر
قابض ہوسکتی ہے۔
وادی میں 46اسمبلی سیٹیں ہیں، یہ کسی دور میں نیشنل کانفرنس کا گڑھ تھا
لیکن کشمیر کے سیلاب کے دوران اور بعد میں بطور وزیراعلیٰ عمر عبداﷲ نے جس
بے حسی او رلاپروائی کا مظاہرہ کیا اس نے وادی میں نیشنل کانفرنس کو غیر
مقبول بنادیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کشمیری عوام عمر عبد اﷲ کی
حکومت سے بہت ناراض ہوچکی ہے ۔ حالیہ دنوں میں آئے تباہ کن سیلاب ۔اور افضل
گروکی پھانسی نیشنل کانگریس کی جیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
جبکہ مفتی محمد سعید اور ان کی پی ڈی پی نیشنل کانفرنس سے زیادہ مقبول ہے
اور اسے اچھی خاصی سیٹیں مل سکتی ہیں۔ اب حکومت کس کی بنتی ہے ؟پی ڈی پی کی
نیشنل کانفرنس کی یاپھر بی جے پی کی، اس کا صحیح اندازہ نتیجہ آنے کے بعد
ہی پتہ چلے گا لیکن اتنا طے ہے کہ بی جے پی نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی
دونوں کے لئے مشکلیں کھڑی کر چکی ہے ۔ اور یہ پہلامو قع ہے جب وہاں سہ رخی
جنگ چھڑ گئی ہے۔
خدانخواستہ بی جے پی اگر اپنے مشن میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھرجس طرح مرکز
میں اس کے آنے کے بعد وہ تمام اندیشے سچ ثابت ہوتے نظر آرہے ہیں جن کا پہلے
اظہار کیا جارہا تھا۔ اب وہ سب کشمیر میں حکومت آنے بعد بھی ہوگا اور اول
فرصت میں بی جے پی دفعہ 370 کو منسوخ کرکے کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ مکمل
انضمام کرنے کی کوشش کرے گی۔یہ الگ بات ہے کہ چناؤ مہم میں جو موضوعات
چھیڑے جارہے ہیں ان میں بی جے پی نے دفعہ370کا کہیں تذکرہ نہیں کیاہے بلکہ
وہ یہ کوشش کررہی ہے کہ ریاستی چناؤ میں ’’ہندو تو‘ ‘کاایجنڈا موضوع بحث ہی
نہ بنے ۔صرف تعلیمی، اقتصادی ترقی ، امن وسلامتی اور روزگار فراہم کرنے کے
دلکش وعدوں کے سہارے ہی وہاں فتح کا علم لہرایا جائے۔
کشمیر انتخاب کی تاریخ کا ایک دوسرا کڑوا سچ یہ ہے کہ وہاں کا ہر انتخاب
مرکز کے دباؤ میں ہوتا ہے ۔اب تک ہونے والے کسی بھی انتخاب کو منصفانہ قرار
نہیں دیا جاسکتا ہے۔ نہ ہی انہیں صحیح انتخاب کہا جاسکتا ہے۔ کشمیریوں کو
ابتداء ہی سے یہ شکایت رہی ہے کہ چناؤ میں فوج اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کچھ
مخصوص علاقوں کو چھوڑ کر ووٹنگ فوج کے اشاروں پر ہوتی ہے اور مرکزی حکومت
جسے چاہتی ہے اسے ایوان اقتدارتک پہنچا دیتی ہے۔ اب تک کشمیر میں حکمت عملی
یہ رہی ہے کہ بڑی سیاسی پارٹیا ں خود تواقتدار سے دور رہیں مگر اقتدار کی
لگام ان کے ہی ہاتھوں میں رہے۔ اسی لیے ریاست جموں وکشمیر میں حکومت چاہے
جس پارٹی کی رہی ہو مرکز کا ہمیشہ مرکزی کردار رہا ہے۔ اس حقیقت سے بھی
انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ ملک کی ایک چھوٹی ریاست ہونے کے باوجود کشمیر
پر مرکزی حکومت کا سب سے زیادہ سرمایہ صرف ہوتا ہے لیکن یہ سرمایہ عوامی
فلاح وبہبود کے منصوبوں کے بجائے سیاست دانوں کی تجوریوں، حفاظتی تیاریوں
اورفوج کی نذر ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں سرمایہ کاری کے باوجود
عوام کی فلاح وبہبود پر کچھ خرچ نہیں ہوپاتا۔
کشمیر میں ایک عام رجحان ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا بھی ہے ۔ علاحد گی پسند
گروپ سے وابستہ اور اس نظریہ سے ہم آہنگ کشمیر ی عوام میں الیکشن میں حصہ
نہیں لیتی ہے ۔ووٹنگ کے دوران وہاں وہ جوش وجذبہ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا
ہے جو ہندوستان کے دیگر صوبوں میں پایا جاتا ہے ۔ یہ رجحان غلط ہے ، ہر ایک
کشمیر ی کو دل چسپی کے ساتھ ووٹنگ میں حصہ لینا چاہئے ۔ ریاست جموں و کشمیر
اور عوام کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت سے سرشار پارٹی کے حق میں اپنے حق
رائے دہی کا ضرور استعمال کرنا چاہئے ۔ یہ الگ بات ہے کشمیری عوام کی ایک
بڑی تعداد وہاں موجود کسی بھی پارٹی کو اپنے حق میں خیر خواہ نہیں سمجھتی
ہے ۔ پی ڈی پی اور نیشنل کانگریس دونوں پر ان کا اعتراض ہے کہ ان دونوں نے
کشمیر سے تمام خصوصیات کو ختم کردیا ہے ۔ اب 370 کے ضمن میں جو کچھ باقی ہے
اس کو بھی یہ لوگ ختم کرنے میں لگے ہیں۔جولائی میں کشمیر کے ایک سفر کے
دوران سری نگر سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک ساتھی نے بتایا کہ’’ کشمیر کے
اس نازک ترین حالا ت کے لئے یہی حضرات ذمہ دار ہیں ۔ انہوں نے کبھی بھی
جرآت مندانہ قدم اٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کی ۔ ان کی ساری جدجہد کشمیر
میں حصول اقتدار اور حکومت سازی کے اردگرد ہی گھومتی رہی۔ عوامی فلاح
وبہبود سے انکادو ر دورتک کوئی رشتہ نہیں رہا ‘‘۔
حالیہ الیکشن میں کشمیر آزمائش ایک اور نئے موڑ پر کھڑا ہے ۔ نیشنل کانگریس
اور پی ڈی پی کے متبادل کے طورپر جو پارٹی ان کے سامنے ہے وہ ان کی رہی سہی
خصوصیت بھی ختم کردے گی ۔ وزرات اعلی کرسی بھی کسی مسلمان کو نہیں دے گی۔
کشمیر ہندوستان کی واحد ریاست ہے جس کی باگ ڈو ر مسلم وزرائے اعلیٰ کے ہی
ہاتھوں میں شروع سے رہی ہے ۔لیکن اب یہ منصب بھی خطرے میں ہے۔ میرے خیال
میں کشمیر انتخاب کی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے جب دیگر مسائل کے ساتھ وہاں
کے وزیر ا علی کے بارے میں بھی ہر کسی کو یہ تشویش ہورہی ہے کہ اس مرتبہ
وزیر اعلی کے منصب پر کوئی مسلمان ہی قابض ہوگا یہ پھر تاریخ ایک نئی کروٹ
لے گی ۔ ہندوستان کی واحد ریاست سے بھی مسلم وزیر اعلی کا وجود ختم ہوجائے
گا۔
انتخاب کا وقت بہت ہی قریب آچکا ہے ۔ اس لئے وہاں کی عوام کے لئے ضروری ہے
کہ وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں ۔ ایسانہ ہوکہ ذرا سی چونک اور سیاسی
انتشارکے سبب ان کی تاریخ پر ایک بدنما داغ اوردھبہ لگ جائے ۔ خصوصی
اختیارات فراہم کرنے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کی کوئی پہل شروع کردی
جائے۔ترقی کے پرفریب وعدوں میں پھنس کر دنیا کے نقشے سے اپنا وجود ہی کھو
بیٹھے ۔
تاریخ کی آنکھوں نے وہ ظلم بھی دیکھا ہے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی |