ایک طرف وزیر اعظم سپریم
کورٹ کی جانب سے سرکاری اداروں میں سربرہان کی تقرری کا اکٹیار واپس ملنے
سے جشن مسرت منایا جا رہا ہے تو دوسری طرف وزیر اعظم کی کابینہ کے وزرا
اپنے بے ا ختیار ہونے پر پھٹ رہے ہیں اور رونا بھی رو رہے ہیں۔ایک خبر اور
دو سیاسی راہنماؤں کے بیانات اخبارات کی زینت بنے ہیں۔وہ بھی ایک ہی دن اور
ایک ہی صفحے پر اور اوپر نیچے شائع ہوئے ہیں۔بیانات دینے والے دو سیاسی
راہنماؤں میں سے ایک کا تعلق سابق حکومت سے ہے اور ایک موجودہ مسلم لیگی
حکومت میں وزیر کا بیان ہے…… جبکہ ایک سابق وفاقی وزیر اور موجودہ اپوزیشن
لیڈر سید خورشید احمد شاہ کے لندن میں اپنے قیام کوتوسیع دینے پر رائے پر
ممبنی تجزیہ ہے۔…… یار دوستوں نے سید خورشید شاہ کے لندن میں اپنے قیام کو
بڑھانے کو چیف الیکشن کمشنر کے تقرر میں رخنہ ڈالنے اور مزید تاخیر کرنے سے
تعبیر کیا گیا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ سید خورشید احمد شاہ کے وطن میں تاخیرواپسی سپریم کورٹ کی
جانب سے چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن کو غیر موثر
بنانے کی سعی لا حاصل قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ سید
کورشید شاہ کے لندن میں قیام کو بہانہ بنا کر حکومت سپریم کورٹ سے چیف
الیکشن کمشنر کے تقرر کے لیے مذید مہلت مانگ سکتی ہے۔میرا نہیں خیال کہ
سپریم کورٹ اس بار بڑی آسانی سے حکومت کو مذید مہلت دے دے گی۔ سیا سی پنگے
بازیوں کے حوالے سے عدالتی و سیاسی اور صحافتی پنڈتوں کے مطابق 24 نومبر کے
بعد عدالتی محاذ پر گمسان کا رن پڑنے کے ڈھیروں امکانات کو رد نہیں کیا جا
سکتا۔اس روز عدالت کے ممکنہ احکا مات میں سے عدالت چیف الیکشن کمشنر کے
عہدے پر خدمات سرانجام دینے والے قائمقام چیف الیکشن کمشنر کی خدمات واپس
لینے کا حکم دے سکتی ہے۔
سابق وزیر خزانہ عبدالحفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نواز کی حکومت کی
پندرہ ماہ کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے ۔حفیظ پاشا نے اپنی اس بات کے ثبوت
میں یہ دلیل پیش کی ہے کہ مالی سال 2013-2014 کے دوران مسلم لیگ نواز کی
حکومت اپنے منشور میں دئیے گئے چودہ میں سے صرف ایک ہدف حاصل کر سکی ہے۔
جبکہ مالی سال 2014-15 کی پہلی سہ ماہی جولائی تا ستمبر ترقی کے اقتصادی
اہداف کے حصول میں ناکام رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ نواز کے منشور
میں کہیں نہیں لکھا کہ منافع بخش اداروں کے حصص فروخت کیے جائیں گے۔لیکن
حکومت اپنے ہی منشور کی دھجیاں اڑاتے ہوئے خسارے میں جانے والے اداروں کی
نج کاری کرنے کی بجائے منافع بخش اداروں او جی ڈی سی، الائیڈ بنک، یونائیٹد
بنک ، پی پی ایل کے حصص عالمی مارکیٹ میں فروخت کر رہی ہے۔ حفیظ پاشا کا
کہنا ہے کہ حکومت زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے غیر ملکی قرضوں پر
انحصار کر رہی ہے۔
ایک طرف وزیر اعظم سپریم کورٹ کی جانب سے سرکاری اداروں میں سربرہان کی
تقرری کا اکٹیار واپس ملنے سے جشن مسرت منایا جا رہا ہے تو دوسری طرف وزیر
اعظم کی کابینہ کے وزرا اپنے بے ا ختیار ہونے پر پھٹ رہے ہیں اور رونا بھی
رو رہے ہیں۔سابق نگران وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی کے انتقال پر ملال کے
بعد انکی آرزؤں کی امید غلام مرتضی جتوئی نے اپنے باپ کی اکلوتی اور جان سے
پیاری پارٹی ’’ نیشنل پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ میں ضم کر دیا تھا، بدلے میں
انہیں وفاق میں ایک وزارت دی گئی، لیکن اب شائد انکا وزیر اعظم نواز شریف
اور مسلم لیگ سے دل بھر گیا ہے۔ اس لیے انہوں نے وزارت بے اختیار ہونے کا
رونا رویا ہے اور اختیارات نہ ملنے کی صورت میں انہوں نے وزارت سے استعفی
دینے کی دہمکی بھی دے ڈالی ہے۔ انکی دیکھا دیکھی وزارت بین الصوبائی رابطہ
امور کے وفاقی وزیر پیر ریاض حسین پیرزادہ نے بھی وزیر اعظم سے اختیارات
مانگ لیے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ انہوں نے وزارت کے سکریٹریٹ کے لیے بلاک
مانگا لیکن طاقتور وزارت کے کوف سے نہیں دیا جا رہا…… پیر ریاض حسین
پیرزادہ نے وزیر اعظم نواز شریف کو پیش کش کی کہ اگر وزیر اعظم کو ان پر
بھروسہ نہیں ہے تو وہ انکی جگہ اپنے اعتماد کا وزیر لے آئیں۔ ریاض حسین
پیرزادہ نے شکوہ کیا کہ چاروں وزرائے اعلی میں سے صرف بلوچستان کے وزیر
اعلی ڈاکت مالک بلوچ انکا ٹیلی فون سنتے ہیں،جبکہ باقی انہیں ذرا سی بھی
لفٹ نہیں کرواتے…… اطلاعات ہیں کہ ریاض حسین پیرزادہ کی یہ بات سن کر قائمہ
کمیٹی کے ارکان ششدر رہ گئے اور وزیر کی بے اختیاری پر اپنی تشویش اور
برہمی کا اظہار کیا۔کسی زمانے مین قاف لیگ کا فارورڈ بلاک بناکر وزیر اعلی
پنجاب کے ساتھ حکومتی مزے لوتنے والے میاں عطا محمد مانیکا نے بھی بے
اختیاری کا رونا رویا تھا۔ ریاض پیرزادہ بھی قاف لیگی ہیں اور مرتضی جتوئی
مسلم لیگی تو نہیں بنیادی طور پر وہ’’ جیالے ‘‘ ہیں لیکن میاں نواز شریف کے
ساتھ 1990 سے مختلف ادوار میں وفاقی وزیر کے طور پر کام کرتے آ رہے ہیں۔ اس
لیے انہیں میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے طرز حکمرانی کا بخوبی اندازہ
تو تھا ہی ،پھر انہوں نے کس خوش فہمی میں اقتدار کا ہلارا لینے کا فیصلہ
کیا تھا؟
میرے خیال میں کوئی ریاض حسین پیرزادہ سے استفسار کرے کہ ’’ پیر زادہ صاحب
آپ کو پہلے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ شرفاء کی حکومت کرنے کا سٹائل کیا
ہوتا ہے۔ اب شکایات کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا بس صبر شکر کرتے ہوئے
باقی عمر کے دن بسر کرتے رہیں ورنہ جھنڈے والی گاڑی سے محروم کیے جاؤ
گے۔ہاں پیرزادہ صاحب اگر وزارت اور مسلم لیگ نواز سے دل بھر چکا ہے اور نئی
اڑان کی تیاری ہے تو بسم اﷲ کریں اور وزارت کو ٹھوکر مار کر فوری اسلام
آباد سے ملتان پہنچ جائیں اور بین الصوبائی رابطے کی وزارت کی بجائے رابطہ
عوام مہم پر بھرپور توجہ دیجئیے اسی میں بھلائی اور بہتری ہے۔
لو جی چلتے چلتے یہ بھی سن لیں کہ لاہور ہائی کورٹ کےء جسٹس جناب اعجاز
الاھسن نے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی درخواست پر کیا گیا محفوظ فیصلہ
سنا دیا ہے اور عمران خاں کی دائر کی گئی انتخابی عذر داری کے خلاف دائر
درخواست مسترد کرتے ہوئے الیکشن ٹربیونل کو سپیکر قومی اسمبلی کے حلقے این
اے 122 میں اپنا کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے ہے ، اب چند روز مٰن ن
ریکارڈ کی جانچ پڑتال کا آغاز ہو جائیگا جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا
پانی سامنے آ جائیگا۔ |