ووٹ بذریعہ نوٹ…… جمہوریت کی موت

گستاخیاں ……ایم شفیع میر؍گُول

سیاسی چٹنی کا نشہ دنیا کے کسی شراب میں بھی نہیں ملتاجس کو یہ چٹنی کھانے میں راس آئی اس نے مزے لے لے کر محصالہ دار چٹنی کھائی جن لوگوں کو میٹھا کھانے کی عادت تھی اُن کو یہ تیکھی چٹنی راس نہیں آئی کسی نے کہا مسالہ تیز ہے تو کسی نے کہامرچ تیز ہے کچھ چال بازوں نے سیاسی چٹنی کو کھانے کے بجائے بیچنا بھی چاہا لیکن بیچتے بیچتے پکڑے گئے جس کا انکشاف اُن چٹنی کے خریداروں نے خود کیاآج پھر سے یہ چٹنی رگڑنے کا موسم آ گیا ہے اس لئے سیاست اب سیاست نہیں ہے تجارت ہے ،سیاست کا معیاراس قدر گر چکا ہے کہ سیاست دانوں نے اپنی سیاسی دکانیں کیا کھولی کہ گماشتوں کی بھیڑ لگ گئی ۔ماضی میں یہ دکانیں بہت کم ہوا کرتی تھیں توظاہر سی بات کہ گماشتوں کی بھی کوئی خاص ضرورت نہیں پڑتی تھی لیکن موجودہ دور میں یہ سیاسی دکانیں اتنی بڑھ گئیں ہیں کہ جوں جوں دکانیں بڑھتی گئیں تو گماشتوں کی ضرورت بھی محسوس ہونے لگی پہلے زمانہ میں ایسی دکانوں پر گماشتہ بن کے رہنا کوئی بھی پسند نہیں کرتا تھا کیوں کہ ایسی دکانوں پر رہ کر کوئی ضررویات ِ زندگی کی چیزوں کی خرید و فروخت نہیں کرنی ہوتی تھی بلکہ یہاں پر ضمیروں کی خرید و فروخت کا گماشتہ بن کر رہنا پڑتا تھااس لئے ہر پختہ ضمیر انسان ایسے مرض سے بچنے کی کوشش کرتا تھاکوئی بھی انسان چند پیسوں کی لالچ میں آکر اپنے آپ کا اور مظلوم عوام کا سودا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا ……ہاں !! ……آج کے دور میں ایسے گماشتے جگہ جگہ ، قریا قریا دیکھنے کو ملتے ہیں جو کہ چند پیسوں کی لالچ میں آکر اپنے ضمیر کو سیاسی تاجروں کے ہاں فروخت کر دیتے ہیں یہاں تک یہ مردہ ضمیر انسان اپنی مظلوم عوام کاسودا کرنے میں بھی کو عار محسوس نہیں کرتا بلکہ ایسا گھناؤنا کھیل کھیلنے میں وہ اپنے آپ کو ایک معتبر انسان سمجھتا ہے جس وجہ سے آہستہ آہستہ یہ سیاسی دکانیں سیاست کے کالے بازار کی شکل اختیار کرنے لگی ہیں۔ اور دن بدن سیاست کے اس کالے بازار میں سیاسی گماشتوں کی ریڑھیاں لگنی شروع ہوئی ہیں اور خاص کر انتخابات کا موسم آتے ہی یہاں پر سیاسی بیوپاریوں کا رش اس قدر بڑھ جاتا کہ ایک عام آدمی کا یہاں سے گذرنا دشوار ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوجا تا ہے۔ گماشتوں کی خوفناکی کا یہ عالم ہے کہ اب ان گماشتوں نے اپنے سیاسی آقاؤں کی خوشی کے لئے سیاست کے اس کالے بازار میں ضمیروں کی خرید وفروخت کی ریڑھیاں لگائی ہوئی ہیں جن پر بیٹھ کر آوازیں دیتے ہیں کہ آؤ جی آؤ ہمارے پاس ہم ضمیروں کے سودا گر ہیں آپ ہمیں ضمیر دے دو ہم آپ کو پیسے دیں گے ہم مجبور ہیں کیوں کہ ہمیں اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنا ہے اس لئے اب ہم نے اپنے سیاسی آقاؤں کے سیاسی اثر رسوخ سے سر ِ عام سیاست کے کالے بازار کھول رکھے ہے انتخاب کا موسم ہے آپ ہمیں ووٹ دو ہم آپ کو نوٹ دیں گے ۔ آپ کو ملازمت دیں گے، آپکو فلاں سکیم کے تحت لون دلوائیں گے ، آپ گھر کے سامنے ٹینکی لگوائیں گے ، آپ کے علاقے کو پسماندگی سے بچائیں گے ۔آپ کے گھر کے پاس ایک سپیشل بجلی ٹرانسفارمر لگوائیں گے گو کہ آپ کی ہر مانگ ہم پوری کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ آپ ہمیں ووٹ دوہم نے اپنے چہتے آقا سے اس بارے میں بات کی ہے وہ بہت ہی اچھا انسان ہے ، دیانت دار ہے ، غریب پرور ہے ، وہ علاقے میں تعمیر و ترقی کے تئیں کافی سنجیدہ ہیں،وہ اس علاقے کو سیاحت کے نقشے پر لائیں گے، اگر آپ نے ووٹ دے کر اُسے اپنے سر چڑھایا تو سمجھ لینا پھر آپ دیکھنا آپ کا کام کیسے تمام ہو جائے گا۔حد یہ ہے کہ انتخابات کا موسم آتے ہی ان سیاسی گماشتوں نے فٹ پاتھوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے ۔اب تو یہ سیاسی گماشتے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر سیاسی جڑی بوٹیاں بیچنے کا کام بھی کرتے ہیں اور لگا تا ر کوشش میں لگے ہیں کہ کس طرح یہاں کی عوام کو دھوکہ دہی میں لا کر سیاسی جڑی بوٹیاں کا کورس دیکر وہ ووٹ کو اپنے سیاسی آقاؤں کے کھاتے میں لا یا جائے۔کس طرح سے یہاں کی مظلوم اور سادہ لوح عوام کو پھر سے سیاست کا مریض بنایا جائے ۔ بازاروں میں سیاسی جڑی بوٹیاں بیچنے کا کام کرتے کرتے یہ سیاسی بابو اب دیہاتوں میں اپنے کھوکھے لگانے میں مشغول ہیں۔یہ وہی لوگ ہیں جو پانچ سال کی اس مدت میں کہیں بھی نظر نہیں آئے لیکن انتخابات کی موسم ِ بہار آتے ہیں یہ سیاسی مینڈک ٹرٹرانے لگے اور ووٹروں کویہ کہتے ہوئے کہ…………’’دے داتا کے نام تجھکو اﷲ رکھے‘‘ووٹوں کی بھیک مانگنے لگے ،کل اپنے سیاسی آقاؤں کی کرم فرمائیوں سے نوابوں کی طرح ریڈ الارٹ گاڑیوں میں پیٹرول پھونکتے ہوئے غریب لوگوں کی حق تلفی کرکے بڑے بڑے ریسورنٹوں میں کھانا کھاتے ، ایک منٹ بھی پیدل چلنے سے انکار کرتے تھے آج انتخابات کی ہولناک فضاؤں نے انھیں شہروں سے باہر نکال کر دیہاتوں میں پیدل چل کر عوام کے سامنے بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا ۔اسلئے عوام کو چاہیے کہ ایسے بھکاریوں کو ووٹ دینے سے قبل ہی ذلیل کیا جا ئے۔ آخر اِن ہی لوگوں سے تو یہ کرتب سیکھے ہیں جب ایک ووٹر ووٹ دے کر اِن کے سامنے اپنی جھولی پھیلاتا ہے تو اسے خالی ہاتھ ذلیل کر کے یہ کہہ کر واپس لوٹایا جا تا ہے کہ اپنے دیئے ہوئے 4ووٹ نکال دو اور دیکھو تب میں جیت کر تھااور وہ ووٹر یہ رویہ دیکھ کر حیران ہو جا تا ہے اور کہتا ہے کہ ……………………
کتنی عجیب سخاوت ہے اِن امیر لوگوں کی
بھیک دینے سے پہلے ہی ذلیل کر لیتے ہیں

بس!!! ایسا ہی کچھ حال ہے میرے گُول ارناس کا !! یہاں بھی سیاسی گماشتوں کی باڑ آئی ہے آج کل یہاں بھی سیاست کاکالا بازار گرم ہے کافی جوش و خروش کے ساتھ سیاسی آقاؤں نے اپنے گماشتوں کو اپنی اپنی ر یڑھیوں پر بھیج دیا ہے اور یہ گماشتے اپنے سیاسی آقاؤں کاحکم بجا لاتے ہوئے اپنی اپنی ریڑھیوں پر بیٹھ کر ضمیر فروشی کے اس کام کو بخوبی انجام دے رہے ہیں کیونکہ ان گماشتوں کو اس سب کے عوض منہ مانگی رقم وصول کرنی ہے جو کہ اُن کو اپنے آقا کے ساتھ وعدہ ہے اس وعدے پر کھرا اُترنے کے لئے سیاست دانوں کے یہ گماشتے سیاست کے کالے بازار میں گردش کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں ہر گماشتہ طرح طرح کے منصوبوں سے لوگوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے اور اپنے سیاسی آقا کے نام کی مالا جپتے ہوئے تھکتا نہیں ہے۔ہر وہ گماشتہ جو کبھی عوام کے سامنے نظر نہیں آیاجسے عوام کیا اس کا قریبی رشتہ دار بھی اس کو سیاسی نظریئے سے نہیں جانتا ہے لیکن آج اچانک ایک کرشمہ ہوا جب یہ چھپا رستم نہیں بلکہ چھپا گماشتہ چند پیسوں کی لالچ میں آکر ایک دم ایک سیاسی گماشتے کی شکل میں نمودار ہوا تو عوام بے بس ہو کر یہ کہنے پر مجبور ہے کہ………………
سچ ہیں یہاں کنگال
تو بے ایمان ہے مالا مال
کہ پیسہ بولتا ہے

یہی وجہ ہے کہ حلقہ انتخاب گُول ارناس سیاسیدانوں اور ان سیاست دانوں کے ساتھ جڑ ے گماشتوں نے اس علاقے کو سیاسی لڑائی جھگڑوں کا اکھاڑہ بنا کر رکھ دیا ،ہر بار یہاں کی مظلوم عوام کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں یہاں کی سادہ لوح عوام اِن سیاسی گماشتوں کے بہکاؤے میں آکر روز بروز پسماندگی کا شکار ہو جاتی ہے۔لیکن افسوس کا مقام ہے کہ یہ سیاسی گماشتے اپنی ہی تباہی کا نظارہ کرتے ہوئے اپنے سیاسی آقاؤں کے پیچھے دُم ہلانے میں اپنی خیر سمجھتے ہیں ۔اُنھوں نے چند پیسوں کی خاطر اپنے علاقے کے مستقبل کو اندھیرے میں رکھا ہے یہ گماشتے بڑی ہی دیانت داری سے اپنے مالک کی خوشی کے لئے پیسے کی لالچ میں اپنا ضمیر بیچ دیتے ہیں یہ گماشتے اس قدراپنے سیاسی آقا کو خوش رکھنے کیلئے دن را ت تگ و دود میں ہوتے ہیں کہ مظلوم عوام کو چند کوڑے دانوں کی دام فروخت کرتے ہیں اور جہنم کا ایندھن تیار کر نے لئے اپنی اپنی تجوریاں بھرنے میں مشغول ہیں دور ِ جدید میں ہر انسان اپنے آپ کو بنا پیسے کے نامکمل سمجھتا ہے، نکما سمجھتاہے یہاں تک کہ ہر انسان پیسے کی لالچ میں آکر اُن حدود کو پار کر دیتا ہے جو کہ اس کے اپنے مذہب کے تئیں مکمل طور سے منع فرمائی گئی ۔پیسے کے نشے میں دھت اُن سیاسی گماشتوں کے لئے پیسہ اُنکو یہ پیغام دیتا ہے ذرا توجہ فرمائیں۔

پیسہ کا پیغام
میں ہوں پیسہ، بولتا ہوں، لیکن میرے بولنے کے انداز الگ الگ ہیں‘ میرے ہزار روپ ہیں ، میرے حد سے زیادہ چاہنے والے ہیں، کیوں نہ چاہیں مجبور ہیں اور ضمیر کے لُٹے ہو ئے ہیں میرے ساتھ مردہ ضمیر لوگوں کا ایک بہت بڑا لشکر ہے جو میرے بغیر اپنے آپ کو نامکمل سمجھتے ہیں،کبھی میں کسی تھانیدار کو مجبور۱ًرشوت لینے پر مجبور کرتا ہوں تو کبھی ڈاکٹر کو کلینکوں سے کمیشن لینے پر ، کبھی میں کسی ٹریفک والے کو ہفتہ لینے پر مجبور کرتا ہوں تو کبھی میں کسی ڈرائیور کو ہفتہ دینے پر ،کبھی میں کسی کو سادھو بن کر عیاشی کرنے پر مجبور کرتا ہوں ، تو کبھی میں کسی کو کسی کی جان لینے پر مجبور کرتاہوں، میں پیسہ ہو ں سب کو مجبور کرتاہوں ، کبھی میں چندہ ہوں ،کبھی میں دھندہ ہوں اور کبھی کسی کے لئے میں پھانسی کا پھندا ہوں یعنی کہ میں اندھاہوں میرے سامنے وہ سب میری ہی طرح اندھے ہیں جو میری ضرورت سے زیادہ خواہیش رکھ کر خود کو تباہی کی طرف لے جانے میں مشغول ہیں، میں کسی کا ساتھ نہیں نبھاتا، میں تو کبھی نمرود کے پاس بھی تھا ، شداد کے پاس بھی میں رہا لیکن وقت آیا اور اُن سے بھی میں نے بے وفائی کی ۔
 
MOHAMMAD SHAFI MIR
About the Author: MOHAMMAD SHAFI MIR Read More Articles by MOHAMMAD SHAFI MIR: 36 Articles with 33399 views Ek Pata Hoon Nahi Kam Ye Muqader Mera
Rasta Dekhta Rehta Hai Sumander Mera
.. View More