بسم اﷲ الرحمن الرحیم
نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں 18ویں سارک سربراہ کانفرنس آج بدھ سے شروع
ہو رہی ہے جس میں شرکت کیلئے وزیر اعظم نواز شریف اورپاکستان کے روایتی
حریف بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اپنے وفود کے ہمراہ وہاں پہنچ چکے
ہیں۔ان دنوں سارک کانفرنس سے زیادہ دنیا کی توجہ اس جانب لگی ہوئی ہے کہ
پاک بھارت وزرائے اعظم کے مابین ملاقات ہوتی ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان
مذاکرات میں کچھ عرصہ سے جو تعطل پیدا ہوا ہے‘ وہ عمل پھر سے بحال ہوتا ہے
یا نہیں؟۔پاکستان کی جانب سے ہمیشہ بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے
دوطرفہ مذاکراتی عمل جاری رکھنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں مگر جب سے سخت
گیر اور قوم پرست ہندو نریندر مودی بھارتی وزیر اعظم بنے ہیں‘ بھارت سرکار
نے پاکستان کے خلاف مسلسل جارحانہ پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ کبھی بھارتی
لیڈروں کی جانب سے پاکستان کے خلاف زہر افشانی کرتے ہوئے سبق سکھانے کی
دھمکیاں دی جاتی ہیں‘کنٹرول لائن پر فائرنگ کرتے ہوئے نہتے پاکستانی شہریوں
کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی پاکستانی سیکرٹری خارجہ کی حریت لیڈروں سے
ملاقات پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔
شاید مودی سرکار ہندو انتہا پسند وں پر یہ واضح کرنے کی کوششیں کر رہی ہے
کہ اس نے انتخابات میں جو وعدے کئے تھے وہ محض رسمی باتیں نہیں تھیں بلکہ
بی جے پی حقیقی طور پر اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے لیکن بھارت سرکار کے اس
غیر دانشمندانہ رویہ سے پاک بھارت تعلقات میں پہلے سے زیادہ سرد مہری آئی
ہے۔محب وطن حلقوں کی جانب سے ہمیشہ یہ کہاجاتا رہا کہ آپ ہندو بنئے کی فطرت
کو سامنے رکھتے ہوئے پالیسیاں ترتیب دیں۔ آپ جس قدر بھارت سے یکطرفہ دوستی
پروان چڑھانے کی کوششیں کریں گے وہ اتناہی سرپر سوار ہو گااور مسائل کھڑے
کرے گا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت نے بھی یہ
بات شدت سے محسوس کی اور اس امر پر اتفاق رائے کا اظہا رکیا گیا کہ اس بار
نرمی دکھانے کی بجائے بھارتی رویہ کو مدنظر رکھ کر فیصلے کئے جائیں ۔ پچھلے
کچھ عرصہ میں نوازشریف حکومت نے عسکری قیادت سے باہم مشاورت کے بعد مسئلہ
کشمیر اورپاک بھارت تعلقات کے حوالہ سے جو موقف اختیا ر کیا ہے وہ یقینی
طور پر خوش آئندہے۔ خاص طور پر وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے مظفر آباد
جاکر آزاد جموں کشمیر کونسل کے اراکین سے خطاب کے دوران یہ کہنا کہ مظلوم
کشمیری ہر پاکستانی کے دل میں بستے ہیں۔ پاکستان اور کشمیریوں کا رشتہ
قدرتی اور دائمی ہے۔ ہم نے ہمیشہ کشمیری بھائیوں کے حق خودارادیت کی حمایت
کی اور آئندہ بھی اس سلسلہ کو جاری رکھا جائے گا‘ان باتوں کی ضرور تحسین کی
جاتی چاہیے۔ نواز شریف کی طرف سے قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمان کے
مطابق کشمیرکو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا گیا اورمشیر خارجہ سرتاج عزیز نے
واضح طور پر اس موقف کا اظہار کیا کہ بھارت نے مذاکرات ختم کئے شروع بھی
اسی کی خواہش پر کئے جائیں گے اور پاکستان مذاکرات سے پہلے حریت پسند
کشمیری قیادت سے ضرور مشاورت کرے گا‘ اس حوالہ سے بھارتی اعتراضات بے بنیاد
ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ باتیں ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہیں۔ جب سے
پاکستانی حکومت نے یہ موقف اختیار کیا ہے مودی حکومت نے بھی مدافعانہ
پالیسی اختیار کر لی ہے۔وہی بھارتی حکومتی ذمہ داران جن کی زبانیں پاکستان
کے خلاف زہر اگلتے نہیں تھکتی تھیں اب سارک سربراہ کانفرنس کے دوران مودی
نواز شریف ملاقات کیلئے خواہاں دکھائی دیتے ہیں۔ نواز شریف اور مودی کے
درمیان باضابطہ ملاقات ہوتی ہے یا محض یہ سلسلہ ہاتھ ملانے تک محدود رہتا
ہے‘ جلد یہ بات واضح ہو جائے گی تاہم حکومت پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے
حوالہ سے اپنے اصولی موقف پر قائم رہنا چاہیے۔ مودی سے ملاقات یا مذاکرات
کا کوئی مخالف نہیں ہے مگر اس مذاکراتی عمل میں مسئلہ کشمیر جو دونوں ملکوں
کے درمیان حل طلب مسئلہ اور اس خطہ میں امن کی بربادی کا باعث بنا ہوا ہے‘
سرفہرست ہونا چاہیے اور یہ مذاکرات بھارتی نہیں پاکستانی ایجنڈے کے مطابق
ہونے چاہئیں۔ بھارت چین تعلقات ان دنوں انتہائی کشیدہ ہیں۔ہندوستان آئے دن
چینی فوج پر لداخ اور دیگر علاقوں میں مبینہ دراندازی کے الزامات لگاتا
رہتا ہے مگراس کے باوجودوہ چین کے ساتھ تجارتی معاہدوں اوردیگر ممالک کے
ساتھ معاشی روابط اور اچھے تعلقات استوار کرنے کیلئے سرگرم کردار ادا کر
رہا ہے مگر پاکستان کی طرف سے دوستانہ ہاتھ بڑھانے کے باوجود وہ جھوٹے
پروپیگنڈا کے ذریعے اسے پوری دنیا میں تنہا کرنا چاہتا ہے لیکن اس کی یہ
مذموم کوششیں اب کسی طور کامیاب نہیں ہو ں گی۔ کنٹرول لائن اور ورکنگ
باؤنڈری پر جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں کی طرح عالمی برادری پاکستان کے
خلاف کسی قسم کے جھوٹے بھارتی پروپیگنڈا کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کو چاہیے کہ وہ سارک کانفرنس کے دوران مقبوضہ کشمیر
میں ہونے والے ڈھونگ الیکشن اور کشمیریوں کے تاریخی بائیکاٹ کا مسئلہ بھی
اجاگر کریں اور دنیا پر یہ بات واضح کریں کہ جموں کشمیر میں انتخابات کسی
صورت حق خودارادیت کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ بھارت کی طرف سے دنیا کو
دھوکہ دینے کیلئے جموں کشمیر میں انتخابات کا ڈرامہ رچایا جارہا ہے مگر
حقیقی صورتحال یہ ہے کہ کشمیریوں کیلئے یہ انتخابات بھی کسی بہت بڑے فوجی
آپریشن سے کم نہیں ہیں۔ آٹھ لاکھ بھارتی فورسز پہلے ہی وہاں بدترین ظلم و
بربریت کی نت نئی داستانیں رقم کر رہی تھیں کہ الیکشن کے بہانے مزید فوج
اور سکیورٹی فورسز کو وہاں تعینات کر دیا گیا۔ بزرگ کشمیری رہنما سید علی
گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، محمد یٰسین ملک، شبیر احمد شاہ، نعیم احمد خاں
اور دیگر سبھی قائدین کو بائیکاٹ مہم چلانے سے روکنے پر کئی دن پہلے ہی نظر
بند یا جیلوں میں بند کر دیا گیا اور گھر گھر سرچ آپریشن جاری رکھتے ہوئے
سینکڑوں سرگرم حریت کارکنان کو حراست میں لے لیا گیاہے۔ بھارتی فورسز کی
جانب سے پورے کشمیر میں کرفیو کی کیفیت رکھی گئی ۔ کشمیریوں کو گن پوائنٹ
پر ووٹ ڈالنے کیلئے مجبور کیا جاتا رہا لیکن اس کے باوجود پورے کشمیر میں
سول کرفیو کی کیفیت رہی۔ حریت قائدین کی اپیل پر تاریخی ہڑتال کی گئی اور
لوگوں نے خود کو گھروں میں بند رکھ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔پولنگ
سٹیشن ویران رہے اور بھارتی دعووں کے برعکس کہیں ووٹ ڈالنے والوں کی کوئی
قطار نظر نہیں آئی۔ مقبوضہ کشمیر میں ماضی میں ہونے والے انتخابات کابھی
جائزہ لیاجائے تو ان کی تاریخ قتل و غارت گری، دھوکہ بازی اور ظلم و جبر سے
عبارت ہے۔ یہ الیکشن کشمیریوں کیلئے میٹھے زہر کی مانند ثابت ہو ئے ہیں۔وہ
اچھی طرح یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ بھارتی پارلیمنٹ کیلئے ہونے والے یہ
الیکشن اگرچہ تعمیر و ترقی ، بجلی ،سڑک، پانی ،نوکری اور روز مرہ مسائل کے
حل کے نام پر لڑے جاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں کامیاب ہونے والے
لوگوں نے ہمیشہ بھارت کے خاکوں میں رنگ بھرے اور کٹھ پتلی حکومتوں نے
مقبوضہ کشمیر پر نئی دہلی کے قبضہ کے راستے ہموارکئے ہیں۔اس لئے وہ کسی طور
اس میں حصہ لینے کیلئے تیار نہیں ہوتے جس کی واضح مثال ایک بار پھر پوری
دنیا دیکھ رہی ہے۔ جب کشمیری قوم الحاق پاکستان کیلئے اس قدر قربانیاں دے
رہی ہے اور کسی صورت غاصب بھارت کا کشمیر پر قبضہ برداشت کرنے کیلئے تیار
نہیں ہے تو پھر پاکستان جو مسئلہ کشمیر کا اہم فریق ہے‘ اسے اپنی ذمہ
داریاں بخوبی ادا کرنی چاہئیں اور بین الاقوامی دنیا پر زور دینا چاہیے کہ
وہ مودی سرکار پردباؤ بڑھائے کہ ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد
انتخابات کی بجائے اقوام متحدہ جہاں وہ خود اس مسئلہ کو لیکر گیا تھا‘ اس
کی قراردادوں کے مطابق مظلوم کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دے تاکہ
کشمیریوں کی مرضی کے مطابق اس مسئلہ کا حل نکالا اور برصغیرکے امن کو محفوظ
بنایا جاسکے۔ |