مسلم قیادت سیاسی آقاؤں کی غلام
ہے
کوئی انکار نہیں کرسکتا اور کوئی سینہ ٹھوک کر بھی یہ کہہ نہیں سکتا کہ ہم
مسلم لیڈر ہیں کیونکہ لیڈروں کی پہچان الگ ہوتی ہے اور لیڈروہی ہوتا ہے جو
کسی طبقے یا قوم کی نمائندگی کرے۔لیکن آئے دن ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ مسلم
لیڈر کے نام پر لوگ مسلمانوں میں تو خوب شہرت پار ہے ہیں لیکن حقیقت میں وہ
مسلمانوں کے لیڈر بننے سے رہ گئے ہیں۔خاص طور پر یہ رواج کانگریس پارٹی میں
ہے جس میں سینکڑوں مسلم افراد اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں لیکن انہوں نے کبھی
بھی قومِ مسلم کیلئے قربانیاں دینا اہم نہیں سمجھا۔اگر مسلم لیڈران حقیقت
میں قوم و ملت کی رہبری کرتے تو آج ملک میں مسلم آبادی کے سولہ فیصدمیں سے
بیس فیصد مسلمان جیلوں میں قید نہیں ہوتے۔حال ہی میں ایک غیر سرکاری ادارے
پرزن اسٹیٹکس آف انڈیا نے اعداد وشمارات ظاہر کئے ہیں جس میں انہوں نے
بتایا ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی 16؍ فیصد ہے جس میں بیس فیصدمسلمان
جیلوں میں ہیں،دلت ہندوستان میں9؍ فیصد ہیں اور گیارہ فیصد جیلوں میں
ہیں،اس سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی حالت کیا ہے۔یہ سب بی جے پی حکومت
کے دوران جیلوں میں جانے والے نہیں بلکہ کانگریس کی جانب سے مسلمانوں کو
ملنے والا عظیم تحفہ ہے۔مسلمانوں کی قیادت کی بات کرنے والی کانگریس حکومت
مسلمانوں کو افطار پارٹیاں کرکے درگاہوں پر چادر بھجوا کر خوش کرکے اپنی
قیادت کا ثبوت پیش کیا ہے۔دراصل مسلمان سیاست کے کولی یا ہمالی نہیں ہیں
بلکہ انہیں اقتدار و عہدوں کے لالچ میں کولی بنایا جارہا ہے۔آج مسلم
سیاستدان اپنے آقاؤں کے وفادار بنے ہوئے ہیں، انہیں عام مسلمانوں سے لینا
دینا نہیں ہے۔جب بھی ہم مسلم سیاستدانوں کو اپنے وجود کا مظاہرہ کرنے کی
بات کرتے ہیں تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ انہیں مصلحت سے کام کرنے کی
ضرورت ہے غیروں کی تائید کے بغیر اس ملک میں مسلمانوں کو بھلا نہیں
ہوسکتا۔کوئی یہ تو بتا دے مصلحت اور تدبیر کی بنیاد پر کام کرنے کے بعد آخر
مسلمانوں کو کیا ملا؟۔جی حضوری کرنے والے مسلم قائدین کو ممبر پارلیمان
بنایا گیا ،رکن اسمبلی بنایا گیا ہے اور زیادہ سے زیادہ گورنر بنایا گیایا
اس سے بڑھ کرصدر ہند کا عہدہ دیکر مسلمانوں کو یہ کہا گیا ہے کہ یہ دیکھو
ہم نے مسلمانوں کیلئے کیا کیا نہیں کیا؟۔عام مسلمانوں نے جب بھی سماجی
انصاف کیلئے آواز اٹھائی تو انہیں چھوٹے بچوں کی طرح بہلایا گیا جب پھر
مسلمانوں نے اپنے ضد زیادہ کی تو انہیں سفر حج میں سبسڈی دیکر خوش کرنے کی
کوشش کی گئی اور رونے لگے تو حج ہاؤز کی تعمیر کا اعلان کیا گیا۔آج ملک کے
بیس کروڑ مسلمان پورے توحج پر نہیں جارہے ہیں ،بیس کروڑ مسلمانوں کو قیام
حج ہاؤز میں نہیں ہوگا ،تو پھر کیوں لالی پاپ کی سیاست کی جارہی ہے؟۔آج
مسلمانوں کو حج ہاؤز حج سبسڈی سے زیادہ تعلیم چاہیے،روزگار چاہیے اور جینے
کی آزادی چاہیے۔ہمارے سیاستدان صرف اپنے مفادات کی خاطر قوم کے رہنماء بنے
ہوئے ہیں اور بیچاری قوم ہی ان کم ظرف سیاستدانوں کے بہکاؤے میں آرہے
ہیں۔ہماری قوم نے ان سیاستدانوں سے بھی سماجی انصاف کا مطالبہ نہیں کیا،اگر
کچھ مطالبہ کیا ہے تو صرف قبرستان کیلئے کمپاؤنڈ،مدرسے کیلئے چندہ،مسجد
کیلئے بورویل اور زیادہ سے زیادہ درگاہوں میں بجلی کا انتظام کرنے کی بات
رکھی ہے۔کبھی مسلمانوں نے ایک جٹ ہوکر یہ آواز بلند نہیں کی کہ مسلمانوں
کیلئے روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں،تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں اور
مسلمانوں کو سماجی انصاف دیں۔اگر مسلمان اپنے ان حقیقی مطالبات کو لیکر
آواز بلند کرتے تو یقینا بڑی حد تک مسلمان پسماندگی سے عروج پر آتے۔اس بات
کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کچھ ملّی قائدین ان باتوں کو لیکر آواز
اٹھاتے رہے ہیں۔لیکن ان کی آواز میں آواز ملانے کیلئے سیاسی قائدین کبھی
تیار نہیں ہوئے۔کیا یہ اچھا ہوتا کہ مسلم قائدین چمچہ گری اور مفاد پرستی
چھوڑ کر مسلمانوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھاتے اور دل سے مسلمانوں کی رہنمائی
کرتے تو انہیں خدا کی طرف سے مدد بھی ملتی اور قوم بھی انہیں اپنا
قائدتسلیم کرتی۔جنگ آزادی سے قبل مسلمانوں کے کئی لیڈران ایسے تھے جنہوں نے
اپنی زندگیوں کو قوم وملت کے نام وقف کر رکھے تھے،ان کی انہیں قربانیوں کی
بدولت آج انہیں قوم یادکررہی ہے اور آزادی کے بعد سے جو لیڈران مسلمانوں کے
لیڈر کہلا ئے ہیں وہ مسلمانوں کے کم کسی خاص پارٹی کے ایجنٹ بن کر مسلمانوں
کے ساتھ کھلواڑ کررہے ہیں۔جب بھی مسلمان نے سیاسی پارٹی کی داغ بیل رکھی اس
وقت یہ کہا گیا کہ فرقہ پرست سیاسی جماعت ہے،اس پارٹی سے جڑنے والے ایوانِ
اقتدار میں کم جیلوں میں زیادہ جائینگے،یہ تہمت غیروں نے نہیں اپنوں نے ہی
لگایا ہے،اس میں سے بھی زیادہ تر مسلم سیاستدانوں نے لگایا ہے جن کا شمار
دوسری پارٹیوں میں مسلم لیڈر کے طور پر ہورہا ہے۔ہندوستان میں آج دلتوں کی
سیاسی جماعت ہے،لنگایتوں کی سیاسی جماعت ہے،برہمنوں کی سیاسی جماعت ہے یادو
اور گوڈاس کی سیاسی جماعت ہے لیکن مسلمانوں کی سیاسی جماعتیں نہ کے برابر
ہیں اور جو ہیں انہیں خود مسلمان تسلیم نہیں کررہے ہیں،اس کی خاص وجہ یہ ہے
کہ مسلمانوں کے ذہن کسی ایک سیاسی جماعت کے غلام ہوچکے ہیں اور غلامی سے وہ
آزاد ہونا نہیں چاہتے۔ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کو ہندوستانی
سیاسی جماعتوں سے بغاوت کا اعلان کرنا چاہیے نہ ہی یہ کہہ رہے ہیں کہ
موجودہ سیاسی جماعتوں کا بائیکاٹ کریں بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم دوسری
پارٹیوں کے ساتھ رہیں بھی غلام بن کر نہیں بلکہ آقا بن کر رہیں۔کیونکہ دنیا
میں اگر کوئی طاقتور اور باشجاعت قوم ہے تو وہ مسلمان ہیں اور مسلمانوں سے
ہی اس دنیا کا وجود ہے۔خود قرآن پاک میں بھی مسلمانوں کو ساری قوموں پر
برتر قوم بتایا گیا ہے تو کیونکر ہم دوسروں کے سامنے کم تر ہوکر زندگی
گذاریں۔ہماری برتری میں ہی ہمارا مستقبل ہے ورنہ آنے والے دنوں مسلمانوں کو
چونٹیوں کی طرح روندھ دیا جائیگا۔ |