کشمیر میں سیکولرازم کو زبردست چیلنج

الیکشن کمیشن نے جموں و کشمیر اور جھارکھنڈ کی ریاستی اسمبلیوں کیلئے انتخابی پروگرام کا اعلان کردیا ہے۔ ریاستی اسمبلیوں کے لئے انتخابی پروگرام کا اعلان معمول کے عین مطابق ہے لیکن جموں و کشمیر کی ریاستی اسمبلی میں ریاست کو ہر طرح سے تہس نہیں کردینے والے سیلاب کی قیامت کو گذرے ابھی زیادہ دن نہیں گذرے ہیں لوگوں کی عام زندگی کئی اعتبار سیے ابھی معمول پر نہیں آئی ہے ۔ سیلاب کی لائی ہوئی تباہیوں کے سبب ہزاروں گھر تباہ ہوئے تو لاکھوں بے گھر ہوگئے۔ اسکول اور دفاتر بیشتر مقامات پر شکستہ امارتوں میں کام کررہے ہیں۔ مواصلاتی اور بجلی کی فراہمی کا نظام کئی علاقوں میں غیر کارکرد ہے۔ ہزاروں افراد ذرائع روزگار کی تباہی سے بے روزگاری ہی نہیں بلکہ گھروں کی ہر چیز کی وجہ سے تباہی سے امدادی کیمپوں میں گزر بسر کررہے ہیں۔ ان پر آشوب حالات میں بلکہ شدید افراتفری کے ماحول میں انتخابات کا انعقاد بے حسی خود غرضی بلکہ حالات کا فادہ اٹھاکر بدعنوانی کے ہتھکنڈوں سے انتخابات میں کامیابی کیلئے بی جے پی نے موقع سے فائدہ اٹھاکر انتخابات کا اعلان اپنے تابعدار الیکشن کمیشن سے کروالیا۔ اس عجلت کی اصل وجہ یہ ہے کہ سیلاب کے دوران یا اس کے بعد ریاستی حکومت کی بے عملی (خواہ اس کی وجوہات معقول ہوں یا غیر معقول ہوں)سے عوام سخت ناراض ہیں اور مخالف حکومت رجحان خاصہ زیادہ ہے۔ اسی کا فائدہ اٹھانے کے لئے لاشوں پر سیاست کرنے والی بی جے پی بہ عجلت تمام انتخابات کے لئے بضد تھی کہ مخالف عوام رجحان کا فائدہ اٹھاکر بی جے پی کی حکومت قائم کی جاسکے نیز وہاں کا وزیر اعلیٰ کسی ہندو کو بنایا جاسکے اور جس ریاست کی مہم کے انچارج امت شاہ ہوں وہاں بی جے پی کی انتخابی مہم کا ایجنڈہ مجرمانہ سازشوں اور بدعنوانیوں پر مشتمل ہوگا۔ انتخابات کو جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداﷲ سیلاب سے پیدا شدہ صورت حال کے پیش نظر ملتوی کرنا چاہتے تھے کیونکہ ریاست سیلاب کے نقصانات کے ازالے کے علاوہ لوگوں کی بازآبادکاری اور راحت کاری کا کام ہوسکے لیکن الیکشن کمیشن مودی کی مرضی کے خلاف کیسے جاسکتے تھا؟ لہٰذا الیکشن کروائے جارہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے یہ حقیقت بھی نظر انداز کردی کہ سیلاب کی وجہ سے بے شمار ووٹرس اپنی رہائشوں کو چھوڑ کر جانے کہاں ہوں گئے؟ اس لئے ریاست میں رائے دہی کا فیصد معمول کے اوسط (جویوں بھی بہت کم رہتا ہے) سے بھی کم ہوسکتا ہے یہ اور بات ہے کہ اصلی رائے دہندوں کی جگہ بوگس ووٹرس بھی آسکتے ہیں۔ ہر حال میں الیکشن کروانا اور کامیابی حاصل کرنا بی جے پی کا مقصد ہے۔

جموں و کشمیر میں بی جے پی اور مودی کے عزائم اور تیاری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے نریندر مودی اور ان کے معتمد امت شاہ مختلف بہانوں سے تین چار مرتبہ کشمیر جاچکے ہیں۔ اگر مودی میں ذرا سا بھی سیکولرازم ہوتا تو وہ بقر عید پر کشمیر جاتے ! لیکن آر ایس ایس کے پرچارک کا ہندتوا س کی اجازت نہیں دے سکتا ہے۔ مودی امداد کا اعلان کرتے ہوئے یہ نہیں کہتے ہیں کہ حکومت دے رہی ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ’’میں دے رہا ہوں یا دو ں گا‘‘ گویا مودی اپنی جیب خاص سے دے رہے ہیں۔ کشمیر میں عمر عبداﷲ کے (44) ہزار کروڑ کا مطالبہ کے جواب میں بے حد کم یعنی صرف (745) کروڑ بھی شائد ہی کافی ہو۔

ہندوستان و پاکستان میں یہ بات عام طور پر نہ صرف مشہور ہے بلکہ مانی جاتی ہے کہ حکومتیں عوام کی توجہ باٹنے یا انتخابات کے وقت سرحدوں پر کشیدگی پیدا کی جاتی ہے ۔ ادھر سرحد پار نواز شریف بھی حزب مخالف ہی نہیں بلکہ عدالتوں کی طرف سے بھی شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ اس لئے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی یہ ’’نوراکشتی‘‘ ہورہی ہے۔ مودی سے زیادہ راج ناتھ سنگھ اور جیٹلی سخت بیانات دے رہے ہیں اور سنگھ پریوار کا زرخرید میڈیا بھی جنگی جنوں پیدا کرکے ماحول کو گرما رہا ہے۔ کشمیر کے انتخابات تک شائد یہی حال رہے۔ یہ بات ہم پہلے ہی لکھ چکے ہیں۔ اب دوسری زبانوں کے تجزیہ نگار بھی اسی قسم کے شبہات کااظہار کررہے ہیں۔ اپنے مقصد کی خاطر بی جے پی اور مودی اور نواز شریف کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں اور کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ اسی لئے بھی اس قسم کے شبہات بھی سراٹھارہے ہیں۔

بی جے پی تو الیکشن میں کامیابی کے لئے کچھ بھی کرسکتی ہے لیکن اس سے اہم سوال یہ ہے کہ جموں و کشمیر کی سیکولر قوتیں کیا کررہی ہیں؟ کیا ان کو مودی کے عزائم کا علم نہیں ہے؟

نیشنل کانفرنس اور کانگریس الگ ہوچکی ہیں۔ مفتی سعید اور محبوبہ مفتی کار جحان بی جے پی کی طر ف مائل ہونے کا نظر آتاجو بدقسمتی اور بدبختی کی انتہاء ہوگی بلکہ یہ تو ایک طرح سے غداری ہے کیونکہ بی جے پی فی الحال کشمیر میں دفعہ 370کو دستور سے خارج کرنے، رام مندر کی تعمیر اور مشترکہ سیول کوڈ کے نفاذ یا مسلم پرسنل لاء کے خاتمے جیسے سنگین مسائل پر صرف خاموش ہے۔ ان موضوعات سے دستبردار ہونا تو دور رہا وہ ان کو شائد ملتوی بھی نہ رکھے۔ واجپائی دور کے این ڈی اے کی بات کچھ اور تھی اس این ڈی اے میں بی جے پی کے حلیف بی جے پی پر دباؤ ڈال سکتے تھے ۔ موجودہ دور میں تو بی جے پی نہ صرف اپنے حلیفوں پر بلکہ اپنے حریفوں پر بھی دباؤ ڈال سکتی ہے۔ (شرد پوار کی این سی پی کا مہاراشٹرا میں موافق بی جے پی رویہ اس کی مثال ہے) آج ملک کی باگ ڈور مودی اور امت شاہ کے ہاتھ میں ہے ان کا ساتھ دینے والے مسلمان نہ صرف مسلمانوں بلکہ سیکولرازم کے غدار مانے جائیں گے ان حالات میں پی ڈی پی کا رویہ موقع پرستی اور ملت اور کشمیر سے غداری ہی ہوگا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ عمر عبداﷲ اور ان کے والد فاروق عبداﷲ گزشتہ د و دہوں میں جس طرح مرکزی حکومت کی کاسہ لیتی کرتے رہے ہیں وہ صرف باپ بیٹوں کے مفاد میں تھی ۔ کشمیر اور عوام کے مفادات کو فاروق عبداﷲ اور عمر عبداﷲ نے ہمیشہ بالائے طاق رکھا ۔ حالیہ سیلاب کے بعد تو حکومت سے عوام کی ناراضگی بڑھ گئی ہے اور عوام کی ناراضگی اور غصہ کو بڑھانے یا جلتی پر تیل کا کام کرنے میں بی جے پی کے ذرخرید میڈیا نے اس وقت بھی ریاست کے انتخابات کے پیش نظر عوام کو حکومت کے خلاف اشتعال دلانے کے مذموم مقاصد کی تکمیل کی برخلاف اس کے آندھراپردیش میں ’’ہد ہد‘‘ نامی طوفان کی تباہی کے بعد بی جے پی کے حلیف چندرابابو نائیڈو کے خلاف عوام کی شکایات اور ناراضگی کو میڈیا نے یا تو نظر انداز کیا یا پھر بہت کم اہمیت دے کر بے ایمانی اور بدعنوانی کا مظاہرہ حسب معمول جاری رکھا۔

عوام کی ناراضگی اور نااہلی کا شکار نیشنل کانفرنس کا موقف کمزور نظر آتا ہے ۔ اسی طرح وادی کا مسلم اکثریتی ووٹ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی جگہ پی ڈی پی لے سکتی ہے۔ جموں وغیرہ میں کانگریس کے ووٹ بی جے پی کے حق میں جاسکتے ہیں۔ اسی لئے بی جے پی، پی ڈی پی پر ڈورے ڈال رہی ہے۔

مندرجہ بالا حالات کا بی جے پی بھر پور فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ اسی لئے مرکز میں اقتدار سنبھالتے ہی جموں و کشمیر پر خصوصی توجہ مرکو ز کررکھی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کشمیر سے باہر آباد تارکین وطن کو رائے دہندگان کے نام رجسٹر کرنے کا کام خاموشی سے لیکن تیزی سے عمل ہورہا ہے نیز کشمیری پنڈتوں کو واپس لاکر وادی میں غیر مسلم رائے دہندگان کی تعداد بڑھاکر وادی میں بھی بی جے پی کی چند نشستوں پر کامیابی حاصل کرسکے۔ وزیر اعظم نے کشمیر میں سیلاب سے متاثرین اور فوجیوں کے ساتھ دیوالی منانے کے ڈرامے اور ’’شوبازی‘‘ کے بعد کشمیر میں انتخابات کا اعلان امیت شاہ کے ’’مشن 44‘‘ کا ایک حصہ ہے۔ مودی کا یہ داؤ خالی جائے گا کیونکہ کشمیری مسلمان مودی کو ہرگز ووٹ نہ دیں گے۔

ہندتووادیوں کی زعفرانی یلغار کو روکنے کیلئے وادی میں نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی کا اتحاد ضروری ہے۔ عام کشمیریوں اور خاص طور پر مسلمانوں کا مفاد اسی میں ہے کہ جموں وکشمیر میں کوئی خاص کامیابی نہ ہو اور بی جے پی کا جموں و کشمیر میں اقتدار حاصل کرنے کا خواب خواب ہی رہے اگر ‘‘مشن 44‘‘ (اﷲ نہ کرے )کامیاب ہوتو بے جا ذیادتیوں اور مظالم کا شکار کشمیری مسلمان مزید شدید مصائب اور مظالم کا شکار ہوں گے۔ اور کشمیریوں کی وہ شناخت جس کو وہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں سب سے پہلے دفعہ 370 کے ساتھ ختم کیا جائے گا۔ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے بہانے مظلوموں اور معصوموں کی زندگی عذاب ہوسکتی ہے۔ اقتدار کی ہوس، انا اور اختلافات کو اگر سیکولر پارٹیاں ختم نہ کرسکیں تو یہ بدبختی ہوگی۔ اپنے آپ تباہی کا سامان ہوگا بااثر سیاسی قائدین اور علماء کو ان تینوں جماعتوں کو متحد کرنے کی کوشش اپنا فرض سمجھ کر کرنی چاہئے۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 165520 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.