سامنے کھڑے میپل کے درخت میں
ابھی محض چند پتے باقی ہیں -رفتہ رفتہ سردیاں اپنا رنگ جمارہی ہیں-- سردیوں
میں یہ درخت بالکل ٹنڈ منڈ ہو جاتے ہیں--جاتی بہار کی طرح جاتی خزاں کا بھی
کیا چھب کیارنگ ہوتا ہے- ہر جانب گرے ہوئے پتوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے لوگ ریک
کر کر کے اپنے چمنوں میں ڈھیر لگا رہے ہیں اور پھر مخصوص تھیلوں میں بھر کر
کوڑے والے ٹرک کے اٹھانے کے لئے رکھ دیتے ہیں --کہیں کہیں پر صفائی کی
گاڑیاں آکر پتوں کی صفائی کر رہے ہیں --
ان پتوں سے بڑی عمدہ کھاد تیار ہوتی ہے --پاکستان کی طرح جلاڈالنے کا کوئی
تصور نہیں --
خزاں کے یہ خوبصورت رنگ ٹھنڈے علاقوں کا خاصہ اور حسن ہے--
ستمبر کے آخر تک میپل کے درختوں کی چوٹیوں کے رنگ بدلنے شروع ہوۓ لال ،
پیلے ، بھورے کتھئی، پیرہن ۔۔ یہ سپاٹ سبز رنگ والے درخت اچانک جوبن پر
آگئے۔۔ ایک ایک پتے کے کئی کئی رنگ یوں لگتا ہے ہر پتہ ایک خوبصورت پھول
میں ڈھل گیا ہے اسکے ساتھ ہی خزاں کی آمد کا آغاز ہوا ، گرمیاں اپنی
الوداعی شامیں گزار کر رخصت ہونے لگیں ، دن مختصر اور راتیں لمبی ہونے لگیں
نمازیوں کو بھی رعایت ملی فجر کافی دیر سے اور عشاء جلد ہونے لگی--
یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند -- بہار ہو کہ خزاں لا الٰہ الا اللہ
درختوں اور پتوں کے یہ بدلتے ہوئے رنگ کیا حسن اور خوبصورتی لئے ہوتے ہیں
میں تو انپر فریفتہ دیوانی ہو جاتی ہوں پاؤں کے نیچے سرسراتے چرمر چرچراتے
ہوئے پتے ،جی سیر ہی نہیں ہوتا دل چاہتاہے بس ان پتوں کے بکھرے فرش پر چلتے
رہو اور ان مناظر سے لظف اندوز ہوتے رہو ، ہوا چلی تو لہرا لہرا کر پتے
گرنا شروع ہوئےخالق کاینات کی یہ حسین صناعی کہ روح جھوم جھوم اٹھتی ہے
،سبحان اللہ-- اور اس لمحے زندگی اسقدر خوبصورت اسقدر شاندار لگ رہی ہوتی
ہے جی چاہتا ہے کاش یہ وقت یہ لمحہ تھم جائے--دنیا میں کوئی غم کوئی دکھ
نہیں لیکن بدلتے ہوئے موسم اور وقت کے ساتھ یہ لمحہ بھی فورا گزر جاتا ہے
کیونکہ اسکو گزرنا ہی ہے--
میں ہمیشہ سے پیڑ پودوںاور قدرت کے ان حسین مناظر کی عاشق ہوں -- رنگوں کی
یہ بہار دیکھنے جسے فال کلرز کہا جاتاہےہم مسکوکا بھی گئے -- انٹاریو کا یہ
علاقہ میٹھے پانی کی بڑی بڑی صاف شفاف جھیلوں اور قبل از تاریخ چٹانوں کی
آماجگاہ ہے ان چٹانوں کے اوپر اگے ہوئے پیڑ پودے اور درختوں میں خزاں کے
بکھرے رنگ ، خوشنما جھیلیں ، جھیلوں میں روواں اسٹیم شپ کی سیاحی ( کروز )
زندگی کے حسین لمحات کومذید بھر پور بنا دیتے ہیں-
ڈیجیٹل کیمروں اور سمارٹ فون پر تصویر کشی کی آسانی سے خزاں کے ان رنگوں کی
تصاویر لیتے لیتے طبیعت سیر ہی نہیں ہوتی -- یہ تفر یحی مقامات اب موسم
سرما کے لئے بند ہوچکے ہیںہم بھی وۃاں آخری ہفتے میں گئے -اسی طرح کے دیگر
پارک و مقامات اب مئی کے اواخر یا جون میں کھولے جائینگے --
کہتے ہیں موسم انسان کے اندر ہوتا ہے اندر کا موسم خوشگوار ہو تو باہر کا
موسم کسی کا کچھ نہین بگاڑتا جبکہ میرے مطابق باہر کا موسم انسان کے اندر
کے موسم سے مربوط ہے اور اسپر پوری طرح اثر انداز ہوتا ہے-دنیا میں چار
موسموں کا چرچا ہے - بہار، خزاں ، گرما ، سرما یا گرمی ،سردی ہاں دنیا کے
کچھ شہروں اور خطوں میں موسم میں برائے نام تبدیلی آتی ہے جیسے کراچی میں
اتنی لمبی گرمیاں چلتیں کہ گرمی ، پسینوں اور رطوبت سے طبیعت بری طرح
پریشان ہو جاتی, جتنی گرمی میں شدت آتی ہر کوئی لڑنے مرنے پر تیار اور
سردیاں، کوئٹہ لہر کی مرہون منت ہوتیں گرم کپڑوں کے استعمال کا کچھ موقع مل
جاتا ورنہ کراچی کی سردی کے لئے صبح شام ایک ہلکی شال یا ہلکا سویٹر کافی
ہوتا -- ان دنوں مجھے اسلام آباد جاکر جاڑوں کا بیحد مزہ آتا تھا جہاں گیس
کے ہیٹر سے تمازت لیتے، چلغوزے ، مونگ پھلیاں اور ریوڑیاں کھاتے اور جیسا
کہ پاکستان میں ہوتا ہے کہ ہمارے گھر اندر سے زیادہ ٹھنڈے ہوتے ہیں تو خوب
اوڑھ لپیٹ لیتےاور اب تو گیس کی بھی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے--
جغرافیائی لحاظ سے منطقہ حارہ پر واقع ممالک میں موسم میں مرطوبیت اور گرمی
زیادہ تر رہتی ہے جبکہ شمال کی طرف جیسے جیسے جاتےجائیں تو سردی ہی سردی
اور پھر بحر منجمد شمالی کی طرف برف ہی برف--
خزان کے موسم یا سردیوں کی اپنی ایک خوبصورتی اور حسن ہے دن کا پتہ ہی نہیں
چلتا ابھی دن پوری طرح چڑھا ہی نہیں کہ شام ہوگئی اور خاص طور پر ان ممالک
میں جہاں وقت گرمیوں میں ایک گھنٹہ پیچھے کر دیا جاتا ہے اور سردیوں میں
پلٹا دیا جاتا ہے لیکن پھر بھی روشنی کو نہیں روک پاتے سکینڈے نیویا کے
ممالک تو ہم سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں اور جہاں پر سردیوں میں رات ہی رات
اور گرمیوں میں دن ہی دن ہوتا ہے-
اور یہا ں کےمعمر شہری جو عرف عام میں برفانی پرندے سنو برڈزکہلاتے ہیں وہ
بھی خزاں کے ان رنگوں میں سردی بڑھنے اور برفباری سے پہلے اپنا بوریا بستر
لپیٹ کر گرم خطوں کی جانب مائل بہ پرواز ہوتے ہیں - کینیڈا کی مرغابیاں اور
دیگر پرندے بھی جو کہ واقعتا سنو برڈز ہیں وہ بھی موسم کی تبدیلی کے ساتھ
گرم خطوں کی جانب روانہ ہوتے ہیں - کینیڈا کا جو خطہ امریکہ کے ساتھ ساتھ
ہے نسبتا کم ٹھنڈا ہے جبکہ شمال کی جانب ٹھنڈک اور برف بڑھتی چلی جاتی ہے-
مرغابیوں سے تو امریکہ والے خوب تنگ ہیں جبکہ بوڑھے سنو برڈز کیلئےگرم
ریاستوںفلوریڈا، اریزونا،کیلیفورنیا اور دیگر میں پورے پورے شہر بسا رکھے
ہیں- اور انکو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے -انمیںمحض کینیڈا کے ہی نہیں بلکہ
امریکہ کے شمال مشرقی اور ٹھنڈ ی ریا ستوں کے با شندے بھی ہوتے ہیں -جو
معتدل موسم کی تلاش میں ان شہروں میں جا بستے ہیں اکثر متمول حضرات کے ان
دونوں علاقوں میں اپنے ذاتی مکا نات ہوتے ہیں -وہ گرمیاں ٹھنڈے اور سردیاں
گرم علاقوں میں گزارتے ہیں-
بقول شاعر
خزاں کے موسم کی سرد شامیں
سراب یادوں کے ہاتھ تھا میں
کبھی جو تم سے حساب مانگیں
مایوسیوں کے نصاب مانگیں
بے نور آنکھوں سے خواب مانگیں
تو جان لینا کے خواب سارے
میری حدوں سے نکل چکے ہیں
تمہاری چوکھٹ پہ آ روکے ہیں
مسافتوں سے تھکے ہوئے ہیں
غبار راہ سے اٹے ہوئے ہیں
تمہاری گلیوں میں چپ کھڑے ہیں
کچھ اس طرح سے دارئ ہوئے ہیں
سوالی نظروں سے تک رہے ہیں
تمہاری چوکھٹ پہ جانے کب سے
جبیں جھکائے ہوئے کھڑے ہیں |