حکمرآنوں پر تنقید کی
تاریخ بہت پرانی ہے ۔ ہر دور میں لوگ وقت کے حاکموں پر تنقید کرتے رہے ہیں
اور کرتے رہیں گئے۔ تنقید کبھی برملا حکمرآنوں کے سامنے ہوتی رہی اور کبھی
نجی محفلوں میں لوگ اپنے دل کی بھڑاس نکالتے رہے ہیں ۔ اگر حاکم وقت عمر
ابن الخطاب جیسا عادل خلیفہ راشد ہوتا تو لوگ انکا دامن پکڑ کر سرعام تنقید
بھی کرتے اور سوال بھی پوچھتے جنکا تسلی بخش جواب اور وضاحت خندہ پیشانی سے
حضرت عمر کردیتے ۔ لیکن اگر حاکم وقت ظالم و جابر ہوتا تو لوگ نجی محفلوں
میں تنقید کرکے اپنی بھڑاس نکال لیتے۔ جیسے تنقید کی تاریخ پرآنی ہے ویسے
ہی خوشآمد کی تاریخ بھی کافی پرانی ہے ۔ خوشآمدی حکمرآنوں کی تعریف میں
زمین و آسمان کے قلابے بھی ملاتے ہیں اور قرآن و حدیث سے غلط استدلال کرکے
حکمرآنوں کو خوش کرتے ہیں اور انکے غلط احکامات کو جواز فراہم کرتے ہیں ۔
مثال کے طور پر جلال الدین اکبر نے ہندوستان میں دین الہی نامی ایک دین
نافظ کیا جسکی لاتعداد شقوں میں سے ایک شق یہ بھی تھی کہ کلمہ میں اکبر کا
نام بھی لیا جائے اور اکبر اعظم کو جھک کر سلام کیا جائے, گائے کے ذبیحہ پر
بھی پابندی لگا دی گئی اور بھی بیشمار شقیں تھیں جو آج کا موضوع نہیں ۔ اب
اکبر کی لادینیت کو جواز درکار تھا تو خوشآمدی دانشور اور درباری ملاں
میدان میں آئے اور انھوں نے دلیل قرآن سے نکالی کہ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ
آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ
مِنكُمْ ۖ ( سوره : النساء آیه : 59 ). ( ترجمہ ): اے ایمان والو!
فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (صلی اللہ علیہ
وسلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ گویا دلیل دی کہ حاکم وقت کی بھی
اطاعت کرنا حکم ربی ہے ۔ جبہ و دستار پہنے اور چہروں پر داڑھی سجائے جب لہک
لہک کر اکبر کے حق میں آیات قرآنی پڑھتے تو سننے والے انکی علماء جیسی
شکلیں دیکھکر ان پر یقین کرکے گمرآہ ہوجاتے ۔ الله رب العزت گمرآہی میں کسی
کو بے یارومددگار نہیں چھوڑتا اتمام حجت ضرور کرتا ہے ۔ ان گمراہ لوگوں کی
ہدائیت اور درباری ملاؤں کے خلاف الله تعالی نے حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد
الف ثانی کو کھڑا کردیا اور آپ نے درباری علماء کی دلیل کا جواب دیتے ہوئے
فرمایا کہ اطیعوا کا لفظ الله اور رسول کے ساتھ آیا ہے جبکہ وَأُولِي
الْأَمْرِ مِنكُمْ کو الله و رسول پر عطف کیا ہے ۔ آپکی خدمت میں عام فہم
الفاظ میں عرض کرتا ہوں مجدد پاک نے فرمایا کہ الله اور رسول صلی الله علیہ
وسلم کی اطاعت تو ہر حال میں کرنی ہے مگر حکمرآن کی اطاعت اسوقت لازم ہے
جبکہ وہ خود الله اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کرتا ہو اور اکبر
الله اور رسول صلی الله علیہ وسلم کا باغی ہے لہذا اسکی اطاعت لوگوں پر
لازم نہیں ۔ یہ سب عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ خوشآمدی ٹولہ اپنے آقاؤں کی
خوشنودی کی خاطر اپنی عاقبت داؤ پر لگا دیتا ہے ۔ خوشآمدی ٹولے کا ایک اور
کارنامہ ملاحظہ کریں ۔ انھوں نے ایک جملہ گڑھا کہ جیسی عوام ویسے ان پر
حکمرآن مسلط کر دیے جاتے ہیں- اور اسے حدیث نبوی کہہ کر مشہور کردیا گیا ۔
یہ حدیث دو طرق سے کتب میں موجود ہے ایک القضاعي في مسند الشهاب میں اور
دوسرا الديلمي في مسند الفردوس ، والبيهقي في " الشعب میں لیکن اس کے دونوں
طرق ہی ضعیف ہیں۔ جیسے عوام ویسے حکمرآن کا تذکرہ آج بھی سننے کو ملتا ہے
بلکہ بڑے بڑے دانشوروں نے اس پر صفحوں کے صفحے سیاہ کردیے اور انھیں توفیق
نہیں ہوئی کہ اسکی تحقیق تو کرلیں آیا یہ حدیث ہے بھی یا نہیں ۔ اور اصل
عبارت کا بھی شائد انھیں علم نہ ہو ۔ اصل میں ظالم اور جابر حکمرآنوں کی
حکومت کا جواز پیدا کرنے کے لئیے غالبا بنو امیہ کے دور میں یہ حدیث گڑھی
گئی جب اسوقت لوگ صدائے احتجاج بلند کرتے تھے تو درباری ملاں گڑھی ہوئی
حدیث سناکر کہتے تھے کہ احتجاج نہ کرو جیسے تم لوگ ہو ویسے ہی تم پر حاکم
مسلط کیے گئے ہیں ۔ یہ تو الله کی کڑوڑوں رحمتیں ہوں محدثین پر کہ انھوں نے
زندگیاں کھپا کر ایک ایک حدیث کو چھانٹ کر صحیح اور ضعیف احادیث کو جدا جدا
کردیا ۔ آج بھی آپ نے غور کیا ہوگا جب حکمرآنوں پر تنقید کریں تو بعض لوگ
کہہ دیتے ہیں کہ چھڈو جی جیسی عوام ویسے حکمرآن حالانکہ یہ الٹ ہے عوام
ہمیشہ حکمرآنوں کا عکس ہوتے ہیں ۔ عوام ہمیشہ حکمرآنوں سے اثر لیتی ہے اور
یہ ٹرکل ڈاؤن افیکٹ ہے اوپر سے نیچے آتا ہے اور عربی کا مقولہ ہے کہ الناس
علی دین ملوکھم ۔ عوام حکمرانوں کے طریقے پر چلتے ہیں ۔ حاکم جیسا ہوگا
عوام ویسی ہوگی ۔ اگر حکمرآن ٹیکس چور ہوگا تو قوم بھی ٹیکس چوری کرے گی ۔
حکمرآن اگر دیانتدار ہوگا تو ساری قوم دیانت کے رستے پر چل نکلتی ہے ۔
چھوٹے ہمیشہ بڑوں سے اثر لیتے ہیں ۔ آج کے بعد جو آپ سے کہے کہ جیسی عوام
ویسے حکمرآن ۔ اس سے درخواست کریں کہ جناب یہ حدیث کس کتاب میں ہے اور اسکی
اصل عبارت اور سند کیا ہے ۔ الله کے فضل سے کوئی شخص آپکو یہ کسی کتاب میں
صحیح سند کے ساتھ نہیں دکھا سکے گا ۔ جب نہ دکھا پائے تو اس بھلے آدمی سے
کہیں کہ جناب ہم جیسے بھی ہیں ہم اپنا سربراہ مملکت کسی لٹیرے کو نہیں
دیکھنا چاہتے ۔ امریکہ میں بوائے فرینڈ گرل فرینڈ اور معاشقے عام سی بات ہے
مگر جب کلنٹن کا سکینڈل آیا تو عوام نے آسمان سر پر اٹھا لیا ۔ اب وہاں پر
ہمارے جیسے نیم دانشور ہوتےتو وہ امریکی عوام سے کہتے کہ جیسے تم ویسا
تمھارا صدر ۔ تم روز معاشقے کرتے ہو اگر صدر نے کرلیا تو کونسی قیامت آگئی
ہے ۔ لیکن وہاں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ امریکی دانشور کہتے ہیں کہ سربراہ
مملکت کو اعلی اخلاقی اقدار پر ہونا چاہئیے عوام چاہے جیسی مرضی ہو ۔ لیکن
ہمارے ہاں گنگا الٹی بہتی ہے ۔ آج کا مضمون ذرا خشک ہے امید کرتا ہوں آپ
غور سے پڑھکر سمجھنے کی کوشیش کریں گے۔ |