سیاسی تجزیہ(١)
(Dr Ch Abrar Majid, Islamabad)
آج کل پاکستانی سیاست میں
افراتفری پھیلی ہوئی ہے۔یوں تو انفارمیشن ٹیکنالو جی کا دور ہے اور ہر کوئی
بخوبی دیکھ سکتا ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر کیا ہو ریا ہے اور پارلیمنٹ کے
باہر سرکوں پر کیا ہو رہا ہے۔ کسی کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پر طرف
گہما گہمی ہے۔ سب اپنی اپنی سوچ اور انداز میں کہنہ مشق ہیں۔ ابھی حکومت کو
بنے ہوئے ڈیڑھ سال بھی نہیں ہوا اورحکومت ہٹانے کے مطالبات بھی سامنے آگئے
ہیں۔ عوام کی ایک پہت پڑی تعداد اپنی اپنی صفوں میں صف بکف ہے۔ میڈیا بھی
بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ اگر دیکھنے والی آنکھ ہو تو کچھ بھی
پوشیدہ نہیں ہے۔ ضرورت ہے ٹرانسپیرنٹ چشمہ پہننے کی جس کے شیشے بلکل سادہ
ہوں۔ لیکن جن لوگوں نے مختلف رنگوں کے شیشے لگائے ہوئے ہیں ان کو پورے رنگ
دکھائی نہیں دیتے۔ مثلا‘ اگر آپ نے سرخ شیشے لگائے ہوئے ہوں تو سرخ کے
علاوہ کچھ رنگ بلاک ہو جائیں گے اور کچھ رنگ بدل کر نظر آیئں گے۔ اسی طرح
اگر سبز رنگ کے گلاسز ہوں تو سبز کے علاوہ کچھ بلاک ہو جائٰیں گے اور کچھ
بدل جائیں گے۔ لہزا صحیح صورت احوال کو سمجھنا بہت دشوار ہوگا۔ لہزا ضرورت
ہے رنگ پرنگے شیشے اتار کر سادے شیشے لگانے کی مگر یہ کام ہے واقعہ ہی بڑا
مشکل۔
میرے جیسے کچھ سادہ ذہن لوگ دیکھ دیکھ کر اندر ہی اندر سلگتے رہنے ہیں کہ
یہ ہو کیا رہا ہے۔ تو ایسی پوزیشن میں ہم تزبزب کا شکار ہو جاتے ہیں دیکھنے
میں تو تمام کی تمام سیاسی حماعتیں انتہائی خوبصورت اور عوامی امنگوں کے
مطابق ایک سے بڑھ کر ایک منشور رکھتی ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ
ٹرانسپیرنٹ چشمہ کیسا ہو جو سب کے سب کو قابل قبول ہو اور ہم کو اصل
صورتحال دکھاے ۔ جو ایک چشمہ کسوٹی ہو جو صحیح کو صحیح بتائے اور غلط کو
غلط۔ ۔ خیر۔ چلیں تھوڑا سا تاریخی اور علمی پس منظر کو تصور میں لاتے ہیں۔
ہمارے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکیستان ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ اسلام اور
جمھوریت دونوں کی اقدار کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا ہی اصل مقصود منزل ہو گا۔
اب اسلامی جمھوریت ایک ایسے نظام حکومت کو کہتے ہیں جس میں اسلامی اقدار کے
اندر رہ کر تمام شہری ملک کے معاملات کے حل کے متعلق تجاویز، ترتیب اور
عملدرآمد میں بلواسطہ یا بلاواسطہ شمولیت کا برابر حق رکھتے ہیں۔
تو چلیے اسلامی جمھوریہ سے ہی شروع کرتے ہیں کہ اس چشمہ کسوٹی کو ایک
اسلامی جمھوریہ کا عکاس بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کچھ لوگ پہلے پاکستان اور
کچھ پہلے اسلام کا تصور پیش کرتے ہیں ان کی رائے اپنی جگہ پر مگر میری رائے
میں تو اسلامی جمھوریہ پاکستان پورے کا پورا ہی اختلافات کو ختم کرنے کا
پہترین حل پیش کرتا ہے اور اس اکٹھے اسلامی جمھوریہ پاکستان کا نظریہ ہی سب
سے معتپر ہے۔ اسلام ایک عقیدے اور یقین کا نام ہے اور بایم عقید ہ یا نظریہ
اپنی ایک پہچان سہی مگر پاکیستان میں تو اور نظریات کے حامل لوگ بھی رہتے
ہیں اور شہری ہوتے ہوے وہ بھی اپنی تجاویز، ترقی اور عملدرامد کے عمل میں
بلواسطہ یا بلا واسطہ تمائیندگی کا حق رکھتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ پرتری
تو اکثریتی رائے کو ہی دی جاے گی اور یہی جمھوریت کی خوبصورتی ہے۔ اب تو
دنیا ایک گلوبل ویلیج بن گئی ہے اور گلوبل شہریت کا تصور بھی پیش کیا جاریا
ہے۔ ہمارا کوئی انفرادی عمل بھی کسی نہ کسی حد تک پوری دنیا کے رینے والے
لوگوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اور اسطرح مزہبی اور قومی نظریات سے آگے ایک
نظریہ انسانیت بھی ہے جو ہمارا سب سے بڑا رشتہ ہے۔ اسلام نے تو سب سے پہلے
انسانیت کو ہی مخاطب کیا۔ اور جب انسانیت کی بات ہوتی ہے تو ریاستی اور کچھ
دوسری حدود اپنی اہمیت کھو بیٹھتی ہہں۔ لہذا انسانی حقوق کو کبھی بھی قومی،
مزہبی یا ریاستی نظریات سے متاثر نہیں کیا جاسکتا۔ ہم کسی اور طرف نکلتے
جارہے ہیں آگے چل کر اس پر بھی تفصیلی بات ہوگی۔
تو چلیے اسلامی جمھوریہ کو ہی چشمہ کسوٹی بناتے ہوے سب سے بہلے تو ہم بزات
خود اپنا اعادہ کرتے ہیں کہ ہم کتنے اسلامی اور جمھوری ہیں۔ پھر سیاستدانوں
اور سیاسی پارٹیوں کو دیکھیں گے کہ وہ کتنی اسلامی اور جمھوری بیں۔آپ کو سب
پتا چل جاے گا کہ کون محض نعروں کی سیاست کر رہا ہے اور کون عمل پہ یقین
رکھتا ہے۔ اسلامیی ہونا تو پڑی دور کی بات ہے، اسلامی نظریہ سربراہی کی
پہلی خصوصیت کو ہی لے لیتے ہیں کہ اسلام میں قائد ، حکمران یا قاضی کی پہلی
خصوصیت یہ دیکھی جاتی ہے کہ اسکو اس عہدے کی خواہش نہ ہو۔ اب اندازہ لگا
لیں کہ کون سا سیاستدان اس چشمہ کسوٹی سے اس عہدہ کے قابل نظرآتا ہے اسی
طرح میں نے جمھوریت کی بڑی ہی سادہ سی تعریف آپ کے سامنے رکھی تھی اور آپ
اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کون ان جمھوری خصوصیات کا حامل ہے اور کس سیاسی
جماعت کے اندر جمھوریت ہے ۔ اسی طرح ہم اپنے گریبانوں میں بھی جھانک کر
دیکھ سکتے ہیں کہ آیا ہم اپنے تمائیندوں کے چناو کے وقت ان اسلامی اور
جمھوری خصوصیات کا خیا ل رکھتے ہیں یا ہمارا مقصد اپنے زاتی مفادات ہوتے
ہیں کہ کون ہمارے زاتی معاملات میں ذیادہ فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ لیڈر
کا رول سوسائٹی نے ہی ڈیفائن کرنا ہوتا ہے اگر ہماری توقعات ہی ذاتی مفادات
ہونگے تو پھر اچھے لوگ کس طرح آگے آ سکتے ہیں۔ |
|