30نومبر کا جلسہ.... حکومت اور تحریک انصاف کا کڑا امتحان!
(عابد محمود عزام, karachi)
پاکستان تحریک انصاف 30 نومبر کو
ایک بار پھر اسلام آباد میں اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے جارہی ہے، جس کو
تحریک انصاف کا ”فیصلہ کن“ معرکہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اسلام آباد کے جلسے
کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف اور حکومت دونوں اپنے تئیں تقریباً تمام
انتظامات مکمل کر چکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق بعض بیرونی دوستوں کے تعاون سے
حکومت اور تحریک انصاف میں موجود حد سے بڑھی ہوئی تلخی کو افہام و تفہم کے
ذریعے ختم کر کے جلسے کے لیے پر امن ماحول بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پہلے
حکومت اور پی ٹی آئی اپنے اپنے موقف سے بالکل بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں
تھے اور اب وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ اور تحریک انصاف کے نمائندوں کے
درمیان ایک معاہدہ طے پاجانے کے بعد ضلعی انتظامیہ کی جانب سے پاکستان
تحریک انصاف کو اسلام آباد میں جلسہ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ معاہدے کے
تحت یہ جلسہ 30 نومبر کو اسی جگہ پر ہوگا، جہاں پاکستان تحریک انصاف کی
قیادت دھرنا دےے ہوئے ہے۔ دوسری جانب انتظامیہ نے اسلام آباد کی اہم
شاہراہوں اور داخلی راستوں پر کنٹینر لگا کر رکاوٹیں کھڑی کردیں اور ریڈ
زون کے اطراف پولیس کی بھاری نفری کو بھی تعینات کردیا گیا ہے اور ذرائع کا
کہنا ہے کہ اسپیشل برانچ کی جانب سے ٹریفک پولیس کو جلسے میں آنے والی
گاڑیوں کی پکڑ دھکڑ کے لیے بھی فہرستیں فراہم کردی گئی ہیں اور بعض اطلاعات
پی ٹی آئی کے کارکنان کی گرفتاری کی بھی ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران
خان کا کہنا ہے کہ 30 نومبر کو کارکنوں پر تشدد ہوا تو لوگ ایران کی طرح
حکمرانوں کو الٹا لٹکا دیں گے۔ حکومت نے یہ کیسے تصور کر لیا کہ 30 نومبر
کو پی ٹی آئی کے کارکن متشدد ہوں گے، جس کے باعث ان کوہراساں کرنے کا سلسلہ
شروع کر دیا گیا ہے۔ اگر شرکا تشدد پر اتر آتے ہیں تو ان کو ایسا کرنے سے
روکنے کے لیے مناسب اقدامات کا بندوبست ضرور کیا جانا چاہیے۔ کارکنان ہر
صورت تمام رکاوٹیں عبور کر کے 30 نومبر کو اسلام آباد پہنچیں۔ جبکہ وفاقی
وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی
آئی) کو اسلام آباد میں پرامن، سیاسی اور جمہوری انداز میں جلسے کی اجازت
ہو گی، لیکن اگر 30 نومبر کو ریاست پر یلغار کی تو قانون حرکت میں آئے گا
اور ایف سی، رینجرز اور پولیس پوری طرح ایکشن کے لیے تیار ہیں۔
اسلام آباد میں جلسے کی اجازت ملنے کے بعد حکومت اور پی ٹی آئی کے رویوں سے
معلوم ہوتا ہے کہ دونوں 30 نومبرکو کامیابی حاصل کر کے اپنے مد مقابل کو
شکست سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ایک طرف عمران خان جلسے کی کامیابی کے لیے
کوشاں ہیں، جبکہ دوسری جانب حکومت جلسے کی ناکامی کی خواہاں ہے۔ بعض حکومتی
حلقوں کی رائے یہ ہے کہ ہمیں عمران خان سے گھبرانے کی ضرورت نہیں، وہ کوئی
بڑا مجمع اکٹھانہیں کرسکیں گے اور اگر عمران سے بات چیت کرنی ہے تو وہ 30
نومبر کے بعد ہی کی جائے، جبکہ حکومت صاف لفظوں میں کہہ چکی ہے کہ کسی کو
بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اب 30نومبر کا جلسہ
حکومت اور تحریک انصاف دونوں کے لیے ایک بڑا چیلنج اور کڑا امتحان ہے۔
عمران خان کے لیے یہ بڑا چیلنج ہے کہ وہ 30 نومبر کو اسلام آباد میں کتنی
بڑی تعداد میں مجمع اکٹھا کرتے ہیں؟ اسلام آباد میں بڑا مجمع اکٹھا کرنے پر
مستقبل میں تحریک انصاف کی کامیابی کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔ اسلام آباد میں
جلسے کے شرکا کی تعداد بڑھانے کے لیے عمران خان نے دوسری سیاسی جماعتوں کو
بھی شرکت کی دعوت دی، لیکن پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی
جانب سے اپنی 30 نومبر کو ”فیصلہ کن“ معرکے میں شرکت کی دعوت کو ملک کی
تمام قابل ذکر سیاسی قوتوں نے نظرانداز کر دیا ہے۔ لہٰذا اب 30نومبر کو
جلسے کے لیے عمران خان کو طاہر القادری کی عوامی تحریک سمیت کسی بھی سیاسی
جماعت کا تعاون حاصل نہیںہوگا۔ پیپلزپارٹی، اے این پی اور جے یو آئی (ف) کا
جلسے میں شرکت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ عمران خان ان جماعتوں پر
کھل کر بے جا تنقید کرکے انہیں اپنا حریف بنا چکے ہیں۔ ایسا ہی رویہ محمود
خان اچکزئی کی پختوخوا ملی عوامی پارٹی، وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر
عبدالمالک کی نیشنل پارٹی اور تمام سندھی قوم پرست جماعتوںکاہوگا۔ عمران
خان نے ان تمام جماعتوں کو ”کرپٹ اسٹیٹس کو“ کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ جبکہ
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) بھی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے
30 نومبر کے جلسے میں شمولیت سے معذرت کرچکی ہے۔ خیبرپختونخوا تحریک انصاف
کی اتحادی جماعت اسلامی کو عمران خان کی پالیسیوں پر تحفظات ہیں، لیکن وہ
علامتی نمائندگی کرسکتی ہے۔ اسی طرح عوامی تحریک اور مسلم لیگ ق بھی اپنے
وفد بھیج کر شرکت کرسکتی ہیں، لیکن ان کے وفود کی شرکت سے جلسے کی تعداد پر
کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔
تحریک انصاف اسلام آباد جلسے کی کامیابی کے حوالے سے کافی زیادہ پر امید ہے،
کیونکہ اسے توقع ہے کہ جس انداز سے عوام جلسوں میں آئے ہیں، وہ اسلام آباد
بھی ضرور آئیں گے، لیکن اگر عمران خان اسلام آباد میں ایک بڑا مجمع
اکٹھاکرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس سے حکومت کی”سیاسی پریشانی“ میں
اضافہ ہوگا۔ حکومت کو ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کہیں خود تشدد کا
راستہ اختیار نہ کرلے۔ حالات میں تشددکا عمل آیا تو اس سے صورتحال پر قابو
پانا آسان نہ ہوگا۔ بظاہر ایسالگتا ہے کہ حکومت اب پہلے جیسے دباﺅمیں نہیں
ہے، بلکہ کافی مطمئن نظر آتی ہے اور اس کا خیال ہے اب حالات ایسے نہیں جو
حکومت کی تبدیلی کا باعث بن سکیں۔ کچھ اس قسم کی اطلاعات بھی ہیں کہ عمران
خان 30 نومبر کے بعد بھی اپنی تحریک میں شدت پیدا کرنے کی پوری حکمت عملی
تیار کرکے بیٹھے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وہ ملک میں ایک دن کی پہیہ جام کی
ہڑتال کا اعلان بھی کرسکتے ہیں اور 30 نومبرکے بعد ان کی جانب سے جلسوں کا
نیا شیڈول بھی سامنے آسکتا ہے۔ دراصل عمران خان کو انداز ہ ہے کہ اگر انہوں
نے اگلے برس نئے انتخابات کی جانب جانا ہے تو ملک میں محاذ آرائی کی سیاست
کرنا ہوگی، کیونکہ جتنی سیاسی محاذآرائی بڑھے گی، اتنی ہی حکومت کی سیاسی
پوزیشن خراب ہوگی اور تمام فریق نئے انتخابات کا مطالبہ بھی کرسکتے ہیں۔ اس
ساری صورتحال کو 30 نومبر سے عمران خان کی ممکنہ تحریک کو آسان نہیں لینا
چاہیے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ایک طرف حکومت پی ٹی آئی کے جلسے اور عمران
خان سے کس طرح کامیابی کے ساتھ پر امن طریقے سے نمٹتی ہے اور دوسری جانب
عمران خان کس طرح پر امن طریقے سے جلسے کو کامیاب بنا کراپنے سیاسی مستقبل
کو روشن بنا سکتے ہیں؟ یہ حقیقت ہے کہ 30 نومبر کا دن حکومت اور عمران
دونوں کے لیے ایک کڑے امتحان کی حیثیت رکھتا ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ 30
نومبر اگر پرامن گزرگیا تواس کے بعد عمران آسانی سے گھر چلے جائیں گے، لیکن
ایسا ممکن نہیں، کیونکہ عمران کو لگتا ہے کہ ان کی اس مہم کو عوام میں
پذیرائی مل رہی ہے اور ان کو اپنی تحریک سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے اور
عمران کسی بھی صورت خاموشی سے نہیں بیٹھنا چاہتے، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ
اگر وہ اپنی تحریک ختم کرتے ہیں تو اس کے بعد فوری نئے انتخابات کا مطالبہ
ختم ہوکر رہ جائے گا۔ دوسری جانب حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے
”فیصلہ کن معرکے“ سے پر امن طریقے سے نمٹے، بصورت دیگر حالات مزید کشیدہ
ہوسکتے ہیں، جس کا نقصان ملک اور حکومت کو ہوگا۔ |
|