کشمیر اب بھی بی جے پی کی یلغار
سے بچ سکتا ہے ابھی تو رائے دہی کا ایک ہی مرحلہ ہوا ہے۔ کشمیری اب بھی خود
کو بچاسکتے ہیں۔ کشمیر کو بچانے کی ذمہ داری صرف رائے دہی میں حصہ لینے
والوں کی نہیں ہے بلکہ اس معاملے میں کشمیر کی سیاسی پارٹیوں کا بھی رول بے
حد اہم ہے۔ کانگریس تو حسب روایت انا، خودپسندی ہی نہیں خوش فہمی میں بھی
مبتلا ہے۔ کانگریس کشمیر میں اپنے طور پر اتحاد سے الگ ہوکر مقابلہ کررہی
ہے لیکن کشمیر میں اس کا موقف بے حد کمزور ہے۔ ان انتخابات میں حریت
کانفرنس کا رول بھی بے حد اہم ہے۔ رائے دہی کا مقاطعہ کرنے والے کشمیری
عوام کو شدید نقصان پہنچائیں گے جس طرح حریت لیڈر جیلانی صاحب نے مقاطعہ نہ
کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح اگر حریت کانفرنس کے تمام اہم قائدین متحد
ہوکر وادی اور جموں کے عوام سے رائے دہی میں حصہ لینے کی اپیل کریں تو اس
سے سب سے زیادہ نقصان بی جے پی کا ہی ہوگا کیونکہ حریت کے زیر اثر ووٹرس بی
جے پی یا اس کے اتحادیوں مثلاً لون گروپ کو تو کسی صورت سے ووٹ نہیں دیں گے۔
کشمیر میں اس سے پہلے حریت کانفرنس کی مقاطعہ کی وجہ سے ہی رائے دہی کا
فیصد ہمیشہ کم رہا ہے اور اس کا فادہ عام طور پر نیشنل کانفرنس اور کانگریس
کو ہی ہوتا رہا ہے اگر اس بار مقاطعہ کرنے کی اپیل پر عمل ہوا تو فائدہ بی
جے پی کا ہی ہوگا۔
بی جے پی ’’عوام کو تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘والے برطانوی حکومت کے
فارمولے پر اس طرح عمل کررہی ہے کہ اس نے یہ فارمولا بنالیا ہے کہ ’’رائے
دہندوں کو تقسیم کرو اور انتخابات میں کامیابی حاصل کرو‘‘ تقسیم کئے جانے
والے رائے دہندوں میں سیکولر اور مسلمان رائے دہندے شامل ہیں جبکہ اپنے
مذموم ہتھکنڈوں سے موافق بی جے پی یا باالفاظ دیگر ہندو ووٹ بینک کو مستحکم
کرنا بھی بی جے پی کا اہم حربہ ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مسلم اکثریتی
حلقوں میں بی جے پی کامیاب ہوتی ہے کیونکہ کسی مسلمان؍ سیکولر امیدوار کے
محصلہ ووٹس تقسیم ہونے کی وجہ سے بی جے پی کو ملنے والے ووٹس سے بھی کم
ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ (32 فیصد) سے بھی کم ووٹ لیکر بی جے پی نے
کامیابی بلکہ قطعی اکثریت حاصل کی ہے۔
بی جے پی کو مسلمان اور سیکولر ووٹرس کی تقسیم کا فائدہ یو پی اور بہار میں
بہت زیادہ ہوا اور اب جموں و کشمیر میں انتخابات کا مرحلہ درپیش ہے جہاں
64یا 65 حلقے مسلم اکثریتی ہیں یہاں رائے دہی کا کم فیصد بی جے پی کے لئے
ووٹس کی تقسیم سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ حریت کانفرنس کے قائدین
کے لئے انتہائی اہم اور تمام تر سنجیدگی سے سوچنے کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کو
کشمیر اور کشمیری عوام کے مفادات کو اپنے مفادات، انا اور اصولوں پر ترجیح
دینا ہے یا نہیں؟ اگر وہ اپنی انا اور مفادات کو ترک کرتے ہیں تو جموں و
کشمیر میں ’’زعفرانی یلغار‘‘ کو روکنا خاصہ آسان ہے۔ بی جے پی نہ صرف حیرت
کانفرنس بلکہ حریت کانفرنس کے ساتھ کشمیری عوام، کشمیری تشخص، کشمیری تہذیب
و ثقافت کی دشمن ہے۔ حریت کانفرنس قائدین کا اولین فریضہ ہے کہ وہ کشمیر کو
بچائیں کشمیر اور کشمیر کے تشخص کو بچائیں۔ اگر کشمیر کا سب کچھ ختم ہوجائے
گا تو حریت کانفرنس کے قائدین کس کے لئے جدوجہد کریں گے؟ حریت والے مطالبات
اور حقوق کی جنگ کس کے لئے لڑیں گے؟ اگر حریت کانفرنس رائے دہی کے مقاطعہ
کئے جانے کا فیصلہ تو ان کی مقبولیت، احترام اور شہرت میں بہت زیادہ اضافہ
ہوگا۔ آج جبکہ نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور کانگریس ایک دوسرے کا مقابلہ
کرکے مخالف بی جے پی ووٹس کی تقسیم کا مکمل انتظام کرچکے ہیں ۔ بی جے پی
بڑے بڑے سرمایہ داروں کی فراہم کردہ دولت پانی کی طرح بہاء کر ملث فروشوں
بلکہ ایمان فروشوں کو خرید کر اپنی صفوں میں مسلمان امیدواروں کی تعداد
بڑھا رہی ہے۔ دوسری طرف وہ فرقہ واریت کے زہر سے ہندو رائے دہندوں کو اپنے
ساتھ کرنے میں ماہر ہے اور جن پر فرقہ پرستی کا جادو نہیں چلتا ہے ان کو
تبدیلی اور ترقی اور دوسرے جھوٹے وعدوں سے ترغیب دینا مودی کو خوب آتا ہے۔
اس طرح بی جے پی اپنا ووٹ بینک ایک طرف بکھرنے نہیں دیتی ہے تو دوسری طرف
مختلف حربوں اورہتھکنڈوں سے مخالف بی جے پی ووٹس کو اپنی طرف کرتی ہے جو
آخری اہم ترین حربہ ہے۔ یہ کام امت شاہ جیسے شاطر بڑی کامیابی سے کرتے ہیں۔
اب جموں و کشمیر میں بی جے پی ان ہی ہتھیاروں سے لیس ہے بلکہ کشمیری پنڈتوں
کے ووٹس کے حصول کے لئے کوشاں ہے۔ اب اگر جموں و کشمیر میں رائے دہی کا
فیصد زیادہ ہوتو یہ بات یقینی ہے کہ مخالف بی جے پی ووٹس کی تقسیم کا فائدہ
بی جے پی کو بہت کم ہوگا اور اس کے لئے ضروری ہے کہ رائے دہی کا مقاطعہ نہ
ہواور رائے دہی زیادہ سے زیادہ ہو۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی کوئی مرکزی جماعت یا قیادت نہیں ہے بلکہ کوئی
مشاورتی تنظیم تک نہیں ہے لیکن کشمیر میں حریت کانفرنس مختلف حلقوں میں
مشاورت کا کام کرسکتی ہے وہ یوں کہ کسی بھی حلقہ میں کامیابی کی سکت رکھنے
والے امیدوار کی بلالحاظ پارٹی سفارش کرسکتی ہے۔ اس طرح بی جے ی کے خلا ف
سہ رخی یا ہمہ رخی مقابلوں میں ووٹس کی تقسیم کم از کم جزوی طور پر بلکہ
خاصی حدتک روکی جاسکتی ہے۔ علاوہ ازیں ملت فروشی کرکے بی جے پی کا ساتھ
دینے والے امیدواروں کی نشاندہی اور ان کے خلاف کام بہت اچھی طرح حریت
کانفرنس کرسکتی ہے ہوسکتا ہے کہ اس طرح یہ کہا جائے کہ حریت کانفرنس تو
انتخابی سیاست میں آگئی یہ بے شک انتخابی سرگرمی ہوگی لیکن انتخاب لڑنا اور
بات ہے انتخابات میں رہنمائی کرنے میں فرق ہے۔
رائے دہی میں حصہ نہ لینا صرف انتخابی عمل مقاطعہ کی خاطر نہیں ہوتا ہے
بلکہ رائے دہی سے گریز کی اور بھی کئی وجوہات ہیں جن میں کاہلی، تساہل،
آرام طلبی اور لاپرواہی بھی عام ہیں۔ اکثر اپنی کاہلی، تساہل اور عدم
دلچسپی کو چھپانے کے لئے کہا جاتا ہے کہ ’’کوئی معقول امیدوار ہی نہیں ہے۔
فالتو لوگوں کو ووٹ کون دے؟ اور کس موقع پر یہ عذر قابل قبول ہوسکتا ہے
لیکن کشمیر میں بی جے پی کے مشن 44 کو ناکام بنانا ہر اس رائے ہندے کا فرض
ہے جو فرقہ پرستی، فاشزم اور سرمایہ دار انہ نظام کے خلاف ہے اس پر فرض ہے
کہ مشن 44کو ناکام بنانے کے لئے جیتنے والے امیدوار کو ووٹ دے بی جے پی کے
مخالف ووٹ دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ بی جے پی کو ہرانے والے؍ امیدوار کو
ووٹ دیں اپنا ووٹ ہر تعصب و امتیاز سے بالا تر ہوکر دیا جائے ذات، برادری،
علاقہ، عقیدہ، مسلک قبیلہ اور خاندان بلکہ ذاتی تعلقات کا لحاظ کرنا سیاسی
خودکشی کے مترادف ہے۔
یو پی میں مسلمانوں کی آبادی خاصی ہے مگر سیاسی نظریات، وابستگی، مسلکی،
علاقائی اور ذات برادری کے چکر میں پڑ کر مسلمانوں نے اپنے ووٹ اس قدر
احمقانہ انداز میں تقسیم کروائے کہ یو پی سے ایک مسلمان امیدوار بھی منتخب
نہیں ہوسکا اور 70 سے زیادہ سیکولر امیدوار ہارے کیونکہ رائے دہندوں نے بی
جے پی کے خلاف ووٹ تو دیا لیکن جیتنے کی صلاحیت رکھنے والے امیدوار کی جگہ
اپنی ترجیح اور پسند کے مطابق ووٹ دیا۔ جموں و کشمیر میں اگر حریت کانفرنس
مقاطعہ کرنے اور ووٹ نہ دینے کی اپیل کرتی ہے تو آپ اس اپیل کو مسترد کردیں
نیز سمجھ داری کا تو تقاضہ تو یہ ہے کہ آپ جس جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اس
کا امیدوار اگر کمزور موقف رکھتا ہے تو پارٹی کا وفادار رہنا آپ کے لئے
قطعی ضروری نہیں ہے۔ ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست میں بی جے پی کی
کامیابی ملک کی تاریخ ہی کا نہیں بلکہ جموں و کشمیر کی تاریخ کا المناک
ترین باب ہوگا اور مورخ کشمیریوں کو بھی معاف نہیں کرے گا۔ |