لوگ جھوٹ کیسے بول لیتے ہیں۔۔۔؟؟؟

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے ۔ دراصل وہ جھوٹ ہی بول رہے ہوتے ہیں۔البتہ اگر کوئی سیاست دان یہ دعواکرے تو اُسے فوراً مان لینا چاہیے۔کیونکہ سیاست دان کی کسی بات سے اتفاق نہ کرنا جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے مترادف ہے۔اور جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کا مطلب بہت خطر ناک ہوتا ہے۔ میں آپ کو ایک ایسے بندے سے ملوا سکتا ہوں جو جھوٹ بولنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اُس کا تعلق کسی سیاسی پارٹی سے نہیں ہے۔اس لیے اُسے جھوٹ بولنے سے روکنا ایسا ہی ہے جیسے الیکشن میں دھاندلی کرنے پر احتجاج کرنا۔میں نے اکثر اُسے مشورہ دیا ہے کہ وہ وزیر اطلاعات بھرتی ہو جائے تاکہ کسی دوسرے جھوٹ بولنے والے کو گناہ گار ہونے سے بچایا جا سکے۔لیکن وہ ہمیشہ میرے قیمتی مشورے کو یہ کہہ کر رد کر دیتا ہے کہ سیاست سرا سر جھوٹے لوگوں کا دھندہ ہے اور وہ زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا۔لیکن جب وہ جھوٹ بولنے پر آتا ہے تو بڑے بڑے سیاست دان اُس کے سامنے چت ہو جاتے ہیں۔اگر اُس کے سامنے دو کلو مٹھائی اور ایک کلو گرما گرم دودھ رکھ دیا جائے تو وہ اُسے کھا کر ایسے مکر جائے گا جیسے کوئی بینک سے قرضہ لے کر یا عوام سے وعدہ کر کے مکر جاتا ہے۔ وہ جھوٹ نہ بولے تو اُسے ایک سو چار بخار ہو جاتا ہے۔ کھانسی کا دورہ پڑنے لگتا ہے۔ پورے جسم میں کھجلی ہونا شروع ہو جاتی ہے اور جھوٹ اُس پر ایسے لعنتیں بھیجتا ہے جیسے شیطان پربھیجی جاتی ہیں ۔ جھوٹ سے اُس کا بڑا پرانا اور گہرا رشتہ ہے اور وہ یہ رشتہ کسی صورت توڑنا نہیں چاہتا ۔ایک دن میں نے اُسے کیلے کھاتے ہوئے دیکھا اور عادتاً پوچھ لیا کہ کیا کھایا جا رہے ؟ موصوف نے مجھے گھور کا دیکھااور کہنے لگا کہ سیب کھا رہا ہوں۔ نظر نہیں آرہا ۔۔۔؟؟؟ ہیں سیب۔۔۔!!!میں چونکاکہ شایدمجھے سننے میں غلطی ہوئی ہے یا پھر دیکھنے میں۔ذرا غور سے دیکھا تو وہ کیلے ہی کھا رہا تھا ۔ میں نے اس بات کی تصحیح کرنا چاہی تو بجائے شرمندہ ہونے کے اُلٹا مجھ پر ہی الزام لگا دیا کہ میں جھوٹ بول رہاں ہوں۔

وہ جھوٹ بولنے کا اس قدر عادی ہے کہ اپنی تاریخ پیدائش بھی غلط بتاتا ہے۔وہ اپنے شناختی کارڈ پر اپنی ولدیت بھی غلط لکھوانا چاہ رہا تھا۔لیکن اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔ کیونکہ نادرا کے جس آفس میں وہ اپنا شناختی کارڈ بنوانے کے لیے گیا تھا وہاں اُس کا ایک محلے دار بھی جاب کرتا ہے۔ یوں وہ اپنے مذمو م ارادے میں نا کام رہ گیا۔اپنی اس حرکت پر اُسے شرمندگی کم اور افسوس زیادہ ہوا تھا۔ شادی والے دن بھی اُس نے جھوٹ کا دامن نہیں چھوڑا۔ اپنے دوستوں سے کہتا پھر رہا تھا کہ یہ اُس کی شادی نہیں بلکہ محلے کے ایک کھڑوس سے آدمی کی ہے۔نکاح کے وقت بھی مولوی صاحب کے کان میں کہہ رہا تھا کہ حق مہر بتیس روپے لکھنا اور بولنا بتیس ہزار روپے مبلغ۔مولوی صاحب نے جب اس حرکت پر ناراضی کا اظہار کیا تو دانت نکال کر کہنے لگا کہ ہُن بندہ مذاق وی نہ کرے(اب آدمی مذاق بھی نہ کرے)۔ شادی کے بعد وہ ہنی مون منانے کے لیے بیوی کو چھانگا مانگا لے کرگیا اور اُسے یہ بتایا کہ یہ ہمارے نانا جان کا فارم ہاؤس ہے اور اُنہوں نے عوام کی سیرو تفریع کے لیئے وقف کر رکھا ہے۔صرف یہی نہیں وہ تو اپنے بیٹے کی پیدائش پر بھی اپنے دوستوں سے کہتا پھر رہا تھا کہ یہ بچہ۔۔۔۔۔

وہ اپنے دادا مرحوم کے متعلق بھی بڑی لمبی لمبی چھوڑتا ہے۔ اُنہیں کسی پہنچی ہوئی سرکار سے بھی زیادہ پہنچا ہوا گردانتا ہے اور لوگوں کواُن کی کرامات بھی سُناسُنا کر بور کر تا رہتا ہے۔ کہتا ہے کہ دادا حضور کی قبر پر بے شمار فرشتوں کی مختلف ڈیوٹیاں لگی ہوئی ہیں۔ کوئی قبر پر جھاڑو پھیرتا ہے ۔ کوئی اپنے پروں سے دادا مرحوم کو ہوا دیتا ہے۔ کسی کا کام روشنی پہنچانا ہے تو کوئی خوشبویات کا بندوبست کرتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ اُس کا دعوا ہے کہ صرف فرشتے ہی نہیں جن بھی دادا حضور کی قبر پر حاضری دیتے ہیں۔ بلکہ چار جن ہر وقت دادا حضور کی قبر پر پہرہ بھی دیتے رہتے ہیں ۔۔۔ "کیا دادا حضور قبر سے بھاگ جاتے ہیں؟ جو جنوں کو پہرہ دینے کی ضرورت پیش آ رہی ہے"۔میں نے بڑی حیرانگی سے پوچھا۔ میری اس بات کا غصہ اُس نے اُس وقت نکالا جب اُس کے دادا حضور کا سالانہ ختم تھا اور مجھے جان بوجھ کر چکن بریانی سے محروم رکھا گیا۔۔۔۔ ۔ایک دن میں گھر دیر سے پہنچا اور والد صاحب کے پوچھے پر اپنے اس دوست کا بتا دیا۔ والد صاحب بات کی تہہ تک جاتے ہیں اس لیے پکڑے جانے کے ڈر سے میں نے اُسی اپنے دوست کو فون کیا اور درخواست کی کہ اگر میرے والد صاحب تم سے میرے مطلعق پوچھ لیں تو کہہ دینا کہ میں اُسی کے پاس تھا۔اُس نے بڑے ہی معصومانہ انداز میں معذرت کی اوربولاکہ یار تمہیں تو پتہ ہی ہے میں جھوٹ نہیں بول سکتا۔

ایک دن وہ میرے پاس آیا۔ وہ بہت غصے میں تھا۔ میں نے وجہ پوچھی تو اپنے ایک پرانے دوست کا شکواہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ خدا کا خوف ہی نہیں رہا لوگوں میں۔ مکاری اور فریب کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔جھوٹ تو اتنی آسانی سے بول لیتے ہیں جیسے آخرت میں اس کا حساب نہیں دینا۔ میں نے کہا بتاؤ تو سہی ہوا کیا ہے جو تم اس قدر خفا ہو رہے ہو۔ کہنے لگا کہ یار وہ اختر ہے نا میر ا دوست ۔۔۔ ؟ہاں ہے ۔ کیا ہوا ہے اُسے ۔۔۔؟ میں نے ذہن پر زور دے کر یاد کرتے ہوئے پوچھا۔ یار ہونا کیا ہے کل میں نے اُس سے پچاس ہزار روپیہ مانگا تھا دو ماہ کے لیئے۔ اُس نے دو ٹوک جواب دے دیا کہ اُس کے پاس تو پانچ ہزار روپے نہیں ہیں تو پچاس ہزار کہاں سے دے ۔لیکن میں نے آج ہی دیکھا ہے کہ وہ نئی موٹر سائیکل لے کر آیا ہے۔۔۔مجھے پیسے نہیں دینے تھے تو نہ دیتا۔ لیکن اُسے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔ یار مجھے اس بات کی آج تک سمجھ نہیں آئی کہ لوگ جھوٹ کیسے بول لیتے ہیں۔۔۔؟؟؟
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 109728 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.