سندھ کی معروف مذہبی و سیاسی شخصیت اور جمعیت علمائے
اسلام (ف) کے مرکزی رہنما سابق سینیٹرڈاکٹر خالد محمود سومرو کو ہفتے کے
روز سکھر کے قریب ایک مدرسے میں نماز فجر کے دوران دہشت گردوں نے فائرنگ کر
کے شہید کردیا۔ ڈا کٹر خا لد محمود سومرو پر اس حملے سے قبل 5 با ر پہلے
بھی حملے ہو چکے تھے، لیکن چھٹا حملہ جا ن لیوا ثا بت ہوا۔ ہفتہ کی شام
ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے بیٹے کی شادی کی تقریب ہونی تھی، لیکن دہشت
گردوں نے خوشی والے گھر کو غم میں ڈبو دیا۔ جمعیت علمائے اسلام کے اہم ترین
رہنما ڈاکٹر خالد محمود سومرو ایک نامور خطیب اور اہم سیاست دان تھے، جمعیت
علمائے اسلام ف کے پلیٹ فارم سے سندھ کی سیاست میں ان کا کردار ہمیشہ سے
اہم رہا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ پیپلز پارٹی کے گڑھ سمجھے جانے والے لاڑکانہ
میں انہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں محترمہ بے نظیر بھٹو
کاڈٹ کر کانٹے دار مقابلہ کیا۔ انہوں نے 1988 میں جمعیت علمائے اسلام میں
باضابطہ شمولیت اختیار کی۔ وہ 8 مرتبہ جے یو آئی سندھ کے جنرل سیکرٹری
منتخب ہوئے اور مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن بھی رہے۔ 2006 سے 2012 تک سینیٹر
رہے۔ ان کا شمار مولانا فضل الرحمن کے قریب ترین ساتھیوں میں ہوتا تھا۔
انہوں نے جنرل ضیاءالحق کے دور میں 9 مہینے سیاسی قید بھی کاٹی۔ ڈاکٹر خالد
محمود سومرو کی سرپرستی میں متعدد مدرسے تعمیر کرائے گئے۔ ڈاکٹر خالد محمود
سومرو نے برطانیہ، عراق، مصر، سوئٹزر لینڈ، چین، بنگلا دیش، بھارت،
بوٹسوانا، سنگاپور، جنوبی افریقا، شام، پولینڈ اور یو اے ای کے دورے بھی
کیے۔ ڈاکٹر خالد محمود سومرو ایک باصول اور بے باک سیاست دان کی حیثیت سے
پہچانے جاتے تھے۔ ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہید نے اپنی شہادت سے چند گھنٹے
قبل بھی سکھر میں پیغام امن و استحکام پاکستان کانفرنس سے بے باک انداز میں
خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے اپنی جانوں
کا نذرانہ پیش کرنا پڑا تو میں سب سے پہلے قربانی دے کر جام شہادت نوش کروں
گا۔ اگر حق کے راستے میں شہادت مل جائے تو اس سے بڑی کامیابی اور کوئی نہیں
ہے۔
ہفتے کے روز ان کے جسد خاکی کو ان کے آبائی شہر لاڑکانہ منتقل کیا گیا،
جہاں بعد نماز عشاءشہید کے بھائی مولانا مقصود حقانی کی امامت میں نماز
جنازہ ادا کی گئی، جس میںملک بھر سے اہم سیاسی و مذہبی شخصیات سمیت ہزاروں
افراد نے شرکت کی، نماز جنازہ کے بعد انہیں ان کے مدرسے کے قریب گلشن حقانی
سوسائٹی کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔ شہادت کے روز جمعیت علمائے
اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے قتل
کی شدید مذمت کرتے ہوئے ملک بھر میں احتجاج کا اعلان کیا اور کارکنوں کو
پورے ملک کی شاہراہیں جام کرنے کی ہدایت کی۔ جبکہ لاڑکانہ میںجے یو آئی کی
صوبائی مجلس شوریٰ کے اجلاس نے3 دن سوگ منانے کے ساتھ ساتھ صوبہ بھر میں
مظاہروںکا اعلان کیا۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر خالد محمود
سومرو کا قتل واضح کرتا ہے کہ ملک بھر میں قاتل دندناتے پھر رہے ہیں، لیکن
ریاست بالکل ہی بے بس ہو چکی ہے۔ ناکام ریاست کو مزید وقت نہیں دے سکتے۔ ہم
قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہتے، لیکن ریاست فوری طور پر قاتلوں کو
ہمارے حوالے کرے یا پھر قتل کی ذمہ داری قبول کرے۔ ڈاکٹر خالد محمود سومرو
کے قتل کے خلاف ملک بھر میں اتوار کے روز جے یو آئی کی جانب سے یوم احتجاج
منایا گیا،جبکہ سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے بھی ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے
قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے اتوار کو احتجاج کیا۔ مظاہرین نے شدید غم و غصے
کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا کہ وہ ڈاکٹر خالد محمود سومرو
کے قاتلوں کو فوری گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دے۔ احتجاج کے دوران
بلوچستان ، اندرون سندھ ، خیبر پختونخوا میں شٹر ڈاؤن ہڑتال ، دکانیں اور
پٹرول پمپ بند رہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف، سابق صدرآصف زرداری، امیر
جماعت اسلامی سراج الحق، متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین، عوامی
نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے
سربراہ محمود اچکزئی، آفتاب احمد خان شیرپاﺅ، ملی یکجہتی کونسل کے سربراہ
صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر، قائد حزب اختلاف خورشید شاہ، مسلم لیگ (ضیائ)
کے سربراہ اعجازالحق اور مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اور
دیگر متعدد مذہبی و سیاسی شخصیات نے خالد محمود سومرو کے قتل پر گہرے دکھ
کا اظہار کیا، جبکہ متعدد رہنماﺅں نے حکومت سے ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے
قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ وزیراعظم نے مولانا فضل الرحمن کو
یقین دہانی کرائی کہ ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے قاتلوں کو جلد از جلد
گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ قاتل بچ نہیں سکیں گے۔
علمائے کرام نے جمعیت علمائے اسلام کے رہنما اور ہر دلعزیز شخصیت ڈاکٹر
خالد محمود کی شہادت کو پوری قوم کے لیے لمحہ فکر یہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے
کہ اگر علمائے کرام کے قاتلوں کی گرفتاری میں ذرا بھی سنجیدگی دکھائی جاتی
تو ہمیں آئے دن اس قسم کے سانحات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ وطن عزیز کو قتل
وغارت کی آماجگاہ بننے سے روکنے کے لیے حکمران ہوش کے ناخن لیں، حکومت وقت
علمائے حق کی پے درپے شہادتوں اور بہتے ہوئے لہو کا حساب دے۔ مولانا فضل
الرحمن پر قاتلانہ حملے سے لے کر ڈاکٹر خالد محمود سومرو کی شہادت تک اور
کراچی میں مولانا مسعود بیگ سے لے کر اسلام آباد راولپنڈی کے نوجوان
علماءکی شہادتوں تک کے جملہ واقعات کی آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور منصفانہ
تحقیقات کروائی جائیں۔ لادین قوتیں اہل حق کی آواز دبانے کے لیے آئے روز
علمائے کرام کا قتل عام کر رہی ہیں، جبکہ حکمران اور حکومتی ایجنسیاں خاموش
تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ حکومتی ادارے علمائے کرام کو مسلح جدوجہد
کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ دینی اداروں کو بلڈوز کیا جاسکے۔
یہ بات حقیقت ہے کہ ملک میں علمائے کرام کا قتل عام حکومت کی کرکاردگی پر
سوالیہ نشان ہے ۔ پاکستان میں گزشتہ چند سالوں سے مذہبی حلقے کے خلاف بڑی
منصوبہ بندی سے سازشیں ہو رہی ہیں، جس کے نتیجے میں ہرطبقہ، مسلک اور
برادری کے اہل علم اور قابل فخر ہستیوں کو چن چن کر شہید کر کے راستے سے
ہٹایاجارہا ہے اور ڈاکٹر خالد محمود سومروکی شہادت تک تسلسل کے ساتھ یہ
سلسلہ جاری ہے۔ یہ جان لیوا حملے ایسی قد آور شخصیات پر کیے جاتے ہیں جو
اپنے مثبت کام کے حوالے سے حلقہ عوام وخواص میں معروف ہیں۔ پاکستان کی
سرزمین پربلاامتیاز مسلک و مذہب جن اہم مذہبی شخصیات کا ناحق خون بہایا
گیا، ان کی ایک لمبی اور طویل ترین فہرست وجود میں آچکی ہے۔ صرف کراچی میں
مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار شہید، مولانا مفتی عبد السمیع شہید،
مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید، مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہید،
مولانا مفتی محمد جمیل خان شہید، مولانا نذیر احمد تونسوی شہید، مولانا
مفتی عتیق الرحمن شہید، مولانا عنایت اللہ شہید، مولانا حمید الرحمن شہید،
مولانا مفتی محمد اقبال شہید، مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید، مولانا
سعید احمد جلال پوری شہید، مولانا عبد الغفور ندیم شہید، مولانا محمد اسلم
شیخوپوری شہید اور دیگر کئی اہم شخصیات دہشتگردوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر
شہید کیے گئے۔ اسی طرح تقریباً دیگر تمام مسالک کی اہم شخصیات کو بھی نشانہ
قتل کیا گیا ہے۔ تمام تر دعوﺅں کے باوجود نامعلوم قاتلوں کی گردنوں تک
قانون کے لمبے ہاتھ پہنچنے سے قاصر ہیں۔ تاحال کسی کے قاتلوں کوبے نقاب کیا
گیا اور نہ گرفتار کیا گیا اور نہ ہی ان کے قاتلوں کے سراغ لگانے کی زحمت
گوارا کی گئی۔ بلکہ کسی سانحے کے چند دنوں کی تفتیش کے بعد کیس کی فائل کو
بند کردیا جاتا ہے۔ ان حالات میں دینی قیادت، علمائے کرام ،دانشورانِ قوم
اور بااثر حضرات کو سوچنا چاہیے کہ یہ تمام مکاتب فکر، تمام طبقات اور سارے
مسلکی حلقوں کا معاملہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان حادثات وواقعات کے
سدباب اور روک تھام کے لیے مشاورت سے کوئی واضح لائحہ عمل مرتب کیا جائے،
تاکہ آئندہ ایسے حادثات کا اعادہ نہ ہو۔ تمام سازشوں کا مقابلہ اندرونی
وبیرونی یکسوئی کے ساتھ ممکن ہے۔ |