پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک اہم ملک ہے اور قدرت نے اس
خطے کو ہر قسم کے معدنیات سے نواز رکھا ہے۔ دنیا کا بہترین نہری نظام زرخیز
زمین اور چار قسم کے موسم بھی اس خطے کا طرہ امتیاز ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر
پاکستانی لوگ بہت محنتی اور جفاکش ہوتے ہیں - آپ شائد یہ سمجھیں کہ چونکہ
میں خود پاکستانی ہوں اس لئیے میں اپنی قوم کی تعریف میں زمین وآسمان کے
قلابے ملارہا ہوں تو آپ بالکل غلط سمجھ رہے ہیں ۔ ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ
میں نے جب تک بیرونی دنیا نہیں دیکھی تھی تو میں اپنی قوم کو دنیا کی ہڈ
حرام ویلی مصروف اور تن آسان قوم سمجھتا تھا ۔ لیکن جب میں نے پاکستان سے
باہر کی دنیا میں قدم رکھا تو مجھے اپنی سوچ اور نظریہ بدلنا پڑا کیونکہ
میں نے کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا کہ دنیا میں کوئی ایسا شعبہ نہیں جس میں
پاکستانی نمایاں خدمات سرانجام نہ دے رہے ہوں ۔ اور دنیا میں جن ممالک میں
نوجوانوں کا تناسب مجموعی آبادی میں سب سے زیادہ ہے وطن عزیز ان ممالک میں
سرفہرست ہے ۔ مگر اس سب کے باوجود ہمارا ملک ترقی کی بجائے مسلسل تنزلی کا
شکار ہے۔ اس تنزلی کی ان گنت وجوہات اور اسباب ہیں جن میں سے ایک کا آج ذکر
کروں گا۔ اور وہ ہے ہماری جذباتی وابستگی ہم بحثیت قوم ایک جذباتی قوم ہیں-
ہم نے اپنے گرد مختلف قسم کے دائرے کھینچ رکھے ہیں اور ہم ان دائروں سے نکل
کر کچھ دیکھنا ہی نہیں چاہتے - ہماری اگر کسی سیاسی جماعت سے وابستگی ہے تو
اس میں بھی جذباتیت کا دخل اور جنونیت پائی جاتی ہے ہم اپنے مخالف کا سیاسی
نکتہ نظر سننے کو تیار نہیں ہوتے- یہ جذباتی وابستگی پھر شخصیت پرستی کا
روپ دھار لیتی ہے اور یہی شخصیت پرستی بدترین غلامی بن کر چند خاندانوں کے
رحم وکرم تک پہنچا دیتی ہے ۔ اس غلامی کے نتائج چند خاندانوں کے بار بار
اقتدار میں آنے کی صورت میں نکلتے ہیں ۔ میں نے بارہا پیپلزپارٹی کے ورکرز
کی زبانوں سے اپنی پارٹی اور قیادت کے بارے میں نازیبا الفاظ سنے - لیڈران
کی کرپشن اور اقرباء پروری کا تذکرہ کریں گئے زیرو کارکردگی اور فاقوں کا
رونا بھی روتے نظر آتے ہیں مگر اس سب کے باوجود جب میں پوچھتا ہوں کہ اسکا
مطلب ہے تم اگلی بار کسی اور پارٹی کو موقع دو گے تو جئیے بھٹو کا نعرہ لگا
کر کہتا ہے جو مرضی ہوجائے پارٹی جتنی مرضی کرپشن کرلے ووٹ تو صرف بھٹو کا
ہے ۔ یہی حال دوسری پارٹیوں کے عقیدت مندوں کا ہے ۔ لوگ میاں صاحبان کی
خاندان پروری پر شاکی بھی رہتے ہیں اور بدترین انداز حکمرآنی کا گلہ کرتے
بھی دکھائی دیتے ہیں مگر جب پوچھتا ہوں کہ اگلی بار کسی اور کو ووٹ دے کر
آزماؤ گئے تو جواب آتا ہے چھڈو جی جو بھی ہے میاں صاحبان ہیں کاروباری
شخصیات ووٹ تو انھیں ہی دیں گئے ۔ ایسا ہی رجحان ہمارے مذہبی جماعتوں کے
ورکرز کی وابستگی میں بھی دکھائی دیتی ہے ۔ شخصیت پرستی ہی وہ بدترین غلامی
ہے جس نے ہمیں اس نہج پر پہنچایا ہے ۔ سب مانتے ہیں دونوں پارٹیاں کرپٹ ہیں
مگر پھر ووٹ انہی کو دیتے ہیں ۔ ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم کا مفہوم ہے
کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا ۔ ہم ویسے عجیب مومن ہیں
دہائیوں سے بار بار ڈسے جارہے ہیں اور آئندہ بھی ڈسنے کے لئیے تیار بیٹھے
ہیں ۔ ہماری یہ جذباتی وابستگی ہی تو ہے جس کیوجہ سے بار بار کرپٹ جگاڑی
حکومت میں آتے ہیں حالانکہ خدمت خلق کے لئیے ایک باری کافی ہوتی ہے ۔ شریف
اور زرداری اینڈ کمپنی سے پوچھیں کہ جناب آپ کیوں حکومت کے سنگھاسن پر جلوہ
افروز ہوتے ہیں تو جواب آتا ہے کہ خدمت خلق ہی واحد غرض و غایت ہے جو ہمیں
سیاست کی پرخطر گھاٹیوں میں کھینچ لاتی ہے ۔ حالانکہ یہ دنیا کا سب سے بڑا
اور ننگا جھوٹ ہے کیونکہ جو خدمت خلق کو نصب العین بناتے ہیں انکی شکلیں و
عقلیں ہی جدا ہوتیں ہیں - انکے طرز حکمرآنی کا مرکز و محور جمہور ہوتے ہیں
۔ جبکہ ہمارے ہاں باریاں لینے والوں کی ترجیحات میں جمہور یعنی عوام کے سوا
سب کچھ ہے ۔ اپنی ہر ناکامی کو بڑی کاریگری کے ساتھ آمریت کے ماتھے لگا
دیتے ہیں ۔ آپ انکی کسی بھی ناکامی کی وجہ پوچھیں یہ آپکو فٹ گھڑا ہوا جواب
دیں گے اور بے شرمی سے آپکو قائل کرنے کی سعی لاحاصل کریں گئے ۔ اور آپکو
باور کروائیں گئے کہ تمام مسائل کی اصل وجہ فوج کا ادارہ ہے ۔ اس نظریے میں
ان سیاستدانوں کے صحافی واینکر دوست بھی شریک ہیں وہ بھی سمجھتے ہیں کہ
پاکستان کے برے حالات کے ذمہ دار ڈکٹیٹر ہیں ۔ مثال کے طور پر گذشتہ رآت
جناب حامد میر صاحب نے ٹویٹ کیا - Hamid Mir @HamidMirGEO 13h13 hours ago
Tell us who was ruling Pakistan in 1984 when India occupied Siachin
hieghts?Who gave bases to US in Pakistan in 2004?Can civilians do that?
حامد میر صاحب سوال پوچھ رہے ہیں کہ جب انڈیا نے سیاچن پر قبضہ کیا ١٩٨٤
میں تو پاکستان پر کس کی حکومت تھی ؟ اور ٢٠٠٤ میں امریکہ کو کس نے اڈے دیے
۔ کیا سویلین ایسا کرسکتے ہیں ۔ ؟
جناب حامد میر صاحب آپکی خدمت میں گذارش ہے کہ کسی بھی سوال کے دو طرح کے
جواب ہوتے ہیں ایک الزامی جواب ہوتا ہے اور دوسرا علمی و تحقیقی جواب ہوتا
ہے ۔ الزامی جواب میں آپکے سیاستدان سویلین دوستوں کے کارناموں کا تذکرہ
انتہائی مدلل اور جامع انداز میں کرسکتا ہوں ۔ رہی بات تحقیقی جواب کی تو
میدان علم وتحقیق کا میں ایک نامور شاہسوار نہ سہی مگر اس میدان کا ایک
پیادہ ( foot soldier ) ضرور ہوں- لہذا تحقیقی جواب میں بھی تاریخ پاکستان
سے ثابت کرسکتا ہوں کہ پاکستان میں جب بھی کوئی فوجی آمر آیا تو آپکے
سویلین سیاستدان دوستوں اور جج صاحبان نے ہی انھیں کندھا بھی فراہم کیا اور
این آر او بھی کیا ۔ این آر او کا ذکر خیر سن کر میر صاحب بدک گئے اور ٹویٹ
کیا کہ آین آر او کی بات نہ کرو اس سے میرے پیپلزپارٹی والے دوست شرمندا
ہوں گے ۔ میر صاحب یہی تو آپکی سیاستدانوں سے جذباتی وابستگی اور دوستی ہی
وہ آڑ ہے جو آپکو سیاستدانوں کے کرتوتوں سے صرف نظر کرنے پر مجبور کرتی ہے
۔ ہر بڑا آدمی یا تو دوستیاں نبھارہا ہے یا رشتے داریاں نبھائی جارہی ہیں ۔
پچھلے پانچ سال ذرداری صاحب نے خوب یاریاں نبھائیں - ملک کا ہر ادارہ برباد
ہوگیا مگر زرداری صاحب یاروں کا یار ٹائٹل جیتنے میں کامیاب ہوگئے - اور
میاں صاحبان بھی رشتے داریاں نبھانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ میر صاحب
تحقیقی جواب کے ضمن میں صفحوں کے صفحے سیاہ کرسکتا ہوں لفظوں سے کھیلنے کا
فن باخوبی جانتا ہوں مگر میں موٹی بات عرض کروں گا کہ وہ جرنیل بھی قابل
مذمت ہیں جنھوں نے زمام اقتدار سنبھالی مگر ملک وقوم کی بھلائی کے لئیے کچھ
نہ کیا اور وہ جگاڑی سیاستدان بھی قابل نفرت ہیں جو فوجی جرنیلوں کی انگلی
تھام کر اقتدار میں آئے اور اپنی بزنس ایمپائر کھڑی کرنے اور اپنے خاندانوں
کو نوازنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ آخر میں میڈیا کو بھی توجہ کرنی چاہئیے
لائسنس تو آمر سے لیتے ہیں مگر دوستیاں سویلین جگاڑیوں سے کرتے ہیں اور گن
بھی انھی کے گاتے ہیں - میر صاحب چند جرنیلوں کی وجہ سے افواج پاکستان پر
تنقید کے نشتر چلانا کہاں کی ہوشمندی ہے ۔ اگر فوج نہ ہوتی تو آپکے
سیاستدان جگاڑی دوست اس ملک کی اینٹیں تک بیچ کھاتے ۔ دہائیوں سے لوٹ رہے
ہیں مگر انکے پیٹ بھرنے کا نام ہی نہیں لیتے ۔ ہمارے مسائل اور مشکلات کوئی
دنیا سے جدا تو نہیں ۔ مگر ہم نے بلی کو دودھ کی رآکھی بٹھا رکھا ہے ۔
عثمان مرض اپنا کوئی لاعلاج تو نہ تھا
پر ڈاکوؤں کو ہم نے ہے مسیحا بنا رکھا ۔ |