ملک ریاض حسین اور ملکی سیاست
(Nadeem Rehman Malik, Muzaffar Garh)
گزشتہ ایک دہائی سے ملک ریاض حسین پر سوشل
میڈیا میں کم و بیش سینکڑوں مضامین،سینکڑوں کالمز اور لاتعداد انٹرویوز
ہوئے،کسی نے منفی اور کسی نے مثبت پہلوں پر بات کی،نامور قلم کاروں نے بھی
خیال آراہی اورمحاذ آراہی میں بھرپور حصہ لیا،کسینے انکی دولت اور بیشتر نے
انکی دیومالائی خیراتی اور فلاحی کاموں کو زیربحث قلم بند کیا،بالآخرسب کی
تان اس پر ٹوٹی کہ ملک ریاض حسین کی قومی اور فلاحی خدمات اس قوم اور ملت
پر کسی احسان سے کم نہیں ہے،اور حقیقت بھی یہی ہے،دیکھ لیں پاکستان میں کم
و بیش ساڑھے چار سو کے لگ بھگ امیر ترین ارب پتی موجود ہیں،مگر کسی نے اپنی
تمام دولت کا 75% حصہ اس قوم کے غریبوں کے لئے وقف نہیں کیا،سوائے ملک ریاض
کے،غریبوں کے لئے تو وہ اپنی دولت بانٹتا ہی رہا ہے،اب ملکی تشخص اور وقار
کے لیے دنیا کی ساتویں بڑی مسجد سے لیکر دنیا کی تیسری بڑی مسجد تک بنا
لینے کی ٹھان لی ہے،یہ کوئی آسان کام نہیں ہے،روپیہ پیشہ تو جو لگے گا
سولگے گا،دنیا اس کے ویژن اور ایمان کو ستائش بھری نظروں سے دیکھتی ہے،ورنہ
بنانے کو وہ تاج محل سے لیکر اہرام مصر تک پاکستان میں بنا ڈالتا تو کس نے
اس سے پوچھنا تھا،لیکن اس ویژنری اور صاحب ایمان نے اﷲ تبارک و تعالیٰ کا
اس کرہ ارض پر تیسرا بڑا گھر بنانے کا ارادہ کر لیا ہے،اس سے پاکستان کا
تشخص وقار اور امیج تمام اسلامی ممالک میں ابھرے گا،کراچی جیسے اس شخص کو
بھا سا گیا ہو،ہر میگا پراجیکٹ کراچی میں بنانے کا اعلان کر رہا ہے،گزشتہ
روز ہی اس نے کراچی اور حیدرآباد میں دنیا کی جدید ترین یونیورسٹیاں بنانے
کا اعلان کر دیا ہے،متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین کے نام پر
بنائی جانے والی ان یونیورسٹیوں کے کام کا آغاز جنوری2015 سے شروع ہوجائے
گا،لندن میں منعقدہ ایک تقریب میں ملک ریاض حسین کو ایشیاء کا بل گیٹس کا
خطاب مل چکا ہے،پاکستان کے تمام سیاسی لیڈرز اور سیاسی اکابرین اب ملک ریاض
سے یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ اب ملکی سیاست میں کود پڑہیں،کوئی نئی
سیاسی جماعت بنا ڈالیں یا پھر کوئی اہم آئینی عہدہ قبول کر کے اقتدار کے
سنگھاسن پر براجمان ہو کے ملکی تعمیر و ترقی میں شامل ہوجاہیں،بظاہر اس میں
کوئی قباحت نظر نہیں آتی،سیاست میں حصہ لینا کوئی جرم نہیں اور نہ کسی پر
کوئی قدغن ہے،ہر شخص اس ملک میں آزادانہ سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کر سکتا
ہے،وزیر اعلیٰ،وزیراعظم یا صدر مملکت ایسے باوقار اور پرتوقیر عہدئے ہیں،جن
پر بلاشبہ سات نسلیں فخر کرسکتی ہیں،لیکن۔۔۔" آگے جہاں اور بھی ہے "اگر ہم
ٹھنڈے دل سے غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اس خار زارِسیاست میں اکثر عزت ِ
سادات اور دستار سے ہاتھ دھو بیٹھنا بھی اقتدار کا المیہ رہاہے،" پینے گئے
تھے چل کے۔لائے گئے اٹھا کے" بہت کم خوش نصیب ہوتے ہیں جن کو رخصتی پر
سلیوٹ اور توپوں کی سلامی ملتی ہے،ورنہ بیشتر بدنامی کا طوق گلے میں سجائے
ابن مریم ہوا کرے کوئی۔میرے دکھ کی دوا کرے کوئی کا ورد کرتے سو چھید بھری
جھولی اٹھائے قصرِسلطان سے نکلتے ہیں،اس ناپائیدار اقتدار کانشہ مدتوں کیف
و سرور میں مبتلا رکھتا ہے،ہوس کے ہاتھوں مجبور انسان پھر کمربستہ ہوتا
ہے،لیکن کاٹھ کی ہنڈیا بار بار نہیں چڑھتی،کیونکہ سب ویژن اور ایمان نہیں
رکھتے،یہ دو نعمتیں بہت کم کسی کو نصیب ہوتی ہیں،اب اگر ملک ریاض حسین جو
بغیر کسی سیاسی اپروچ،جماعت اور حکومتی ذرائع کے غریبوں،بے کسوں اور
لاچاروں کی مدد اور خدمت کر رہا ہے،وہ سیاست میں آکر یا کسی سیاسی وآئینی
عہدئے کو قبول کر کے فلاحی اور سماجی خدمات کو اس رفتار اور سرعت سے نہیں
کر پاہیں گے جس آزادانہ ماحول میں وہ کام کرنے کے عادی ہیں،سیاست ایک الگ
دنیا اور الگ اسکے تقاضے ہیں،اکثر اسکی مجبوریاں پاوٗں کی زنجیریں بن جایا
کرتی ہیں،مصلحتوں کا کڑوا گھونٹ ملک و قوم کو پینا پڑتا ہے،راتوں کو کیے
جانے والے فیصلے دن کے اجالوں میں اکثر مشکوک قرار دیئے جاتے ہیں،کشکول
تھامے ایک سجدئے کو گراں سمجھتے ہوئے ہزار ہزار سجدئے کیے جاتے ہیں،خود
غرضی اور انا پرستی کا خول چڑھائے،ذاتی عناد،بغض،عداوت،کدورت اورکینہ پروری
کا وہ مظاہرہ بھی برپا کیا جاتا ہے جس کے متحمل ملک ریاض حسین جیسے لوگ
ہرگز نہیں ہو سکتے،اقتدار میں آرام و آسائش،دنیا بھر کی
نعمتیں،کروفر،پروٹوکول اور بے انتہا مصروفیت ایک سیاست دان یا حکمران کو
عام انسانوں سے دور کر دیتا ہے،اتنی شان و شوکت اور خودنمائی کے زرق برق
میں ملبوس کوئی کسی غریب کو اپنے سینے سے نہیں لگا سکتا،یہ اسکے عہدئے ،وقار
اورشان کے خلاف حرکت سمجھی جاتی ہے،لہذا ملک ریاض کیوں ایسے کسی عہدئے کو
قبول کرے جو اسکو اسکے مشن سے دور کر دئے۔جو اسکو غریبوں سے دور
کردئے،ہمارے دوست ڈاکٹر عبدلرشید جو کیلیفورنیا میں ایک ماہر قلب کے طور پر
جانے جاتے ہیں،جو ملک ریاض حسین کے ذاتی دوستوں میں سے ہیں اور ملک ریاض
ڈاٹ کام پرملک صاحب کی سماجی اور فلاحی کاموں کو پرموٹ کرتے رہتے ہیں،انکا
موقف تو دو ٹوک تھا ،ان کے مطابق " جو لوگ ملک ریاض کو سیاست میں لانا
چاہتے ہیں،وہ ان سے مخلص نہیں ہیں،بہتر ہے انکو سیاست سے دور رکھا جائے اور
انکو ملک و قوم کی جو خدمت وہ کر رہے ہیں ،وہی سب سے بہتر ہے،دنیا کے سب سے
بڑے فلاحی کارکن بل گیٹس،وارن بفٹ،لیڈی گاگا،عبدالستار ایدھی،انصار برنی
وغیرہ کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں رکھتے،سیاست سے ہٹ کر وہ لوگ احسن
طور پر کام کر رہے ہیں۔"
قارئین کرام ! معذرت کے ساتھ کہ ہم لوگوں کا مزاج بھی کچھ انوکھا سا ہے،ہم
عقیدت اور شخصیت پرستی کے مارے لوگ ہیں، راتوں رات کسی کو ساتویں آسمان پر
پہنچا دیتے ہیں،اس کے دیومالائی وجودکی پرستش میں حد سے گزر جاتے ہیں،جب
کسی بھی وجہ سے اس پرستش کا خمار اترنے لگتا ہے تو ہم دیر نہیں کرتے اور اس
کو ساتواں آسمان سے کھینچ کر پاتال میں لا پٹختے ہیں،کہ یہ ہمارا قومی مزاج
اورنادانستہ لاابالی پن کی انتہا ہے۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اگر تقدیر نے
ملک ریاض حسین کو اقتدار کی دہلیز پر لاکھڑا کیا اور ملک کا سب سے بڑا منصب
ان کا مقدر ٹھہرا تو جان لیں کہ پھر اس ملک کو خوبصورت،جدید اور خوشحال
بننے سے کوئی نہیں روک سکتا، کہ یہ تینوں وصف انکی پہچان قرار دیئے جاتے
ہیں۔ |
|