چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

گزشتہ دنوں آزاد کشمیر کے حکمرانوں کی طرف سے ایک اور سیاسی لطیفہ سننے میں آیا جو ہے تو لطیفہ ہی لیکن مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے لئے دلخراش ہے کہ آزاد کشمیر حکومت کی مسئلہ کشمیر ،مقبوضہ کشمیر کے بارے میں معلومات کا معیار اور ان کی دلچسپی کیا ہے۔بھارتی مقبوضہ کشمیر اسمبلی الیکشن کے حوالے سے آزاد کشمیر کے صدر اور کئی حکومتی عہدیداروں کے یہ بیانات سامنے آئے جس میں انہوں نے ’’ مسئلہ کشمیر کے حل اور تحریک آزادی کشمیر کی کامیابی تک چین سے نہ بیٹھنے ‘‘کے اعلانات کی طرح کا ایک حیرت انگیز بیان دیا ۔بھارتی حکمران بی جے پی نے دعوی کیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر اسمبلی الیکشن میں44سے زیادہ سیٹیں لیکر ریاست کشمیر سے متعلق انڈین آئین کی دفعہ 370ختم کر دیں گے،جس کے مطابق بھارت مقبوضہ کشمیر اسمبلی کی منظوری کے بغیر کشمیر کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا،اوراس کے خاتمے کے بعد مقبوضہ ریاست کو مکمل طور پر بھارت میں ضم کر دیا جائے گا۔یہ بھی کہا گیا کہ اس کے بعد مقبوضہ کشمیر میں صنعتیں لگا کر بھارت سے لاکھوں افراد کو مقبوضہ کشمیر لا کر بسایا جائے گا۔آزاد کشمیر کی ان سیاسی شخصیات کی طرف سے اعلانات کئے گئے کہ بھارتی آئین میں شامل کشمیر سے متعلق دفعہ370کو ختم کرنے کی مخالفت کریں گے۔کشمیر کو بھارت کے ساتھ رکھنے سے متعلق کوئی دفعہ رکھنے یا نہ رکھنے کی بات پر آزادی پسندوں کی طرف سے اعتراض کا کیا جواز ہے اور اس سے کیا معنی اخذ ہوتے ہیں،اس بات پہ ذرا سوچا جائے۔آزاد کشمیر کی اس ’’ دانشوارانہ‘‘سوچ کا کیا کہنا،کئی دیگر افراد کی طرف سے بھی ایسی ہی بات سنی جاتی ہے،اور جب اس بارے میں تشریح کر کے بتایا جائے تو کسی سردار جی کی طرح کا بیان ملتا ہے کہ ’’اوہو،یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا‘‘،تاہم بعض غلطی محسوس کرنے کے باوجود اس کے اعتراف کو اپنی توہین سے تعبیر کرسکتے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں تاریخ کے بھیانک سیلاب سے پہلے سینئر اور وادی میں مقبول عام حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی نے حریت کانفرنس کے تینوں دھڑوں و دیگر حریت تنظیموں کے درمیان اتحاد و اشتراک کی کوششیں شروع کیں تو اس کا مثبت ردعمل ہوا۔تاہم حریت کانفرنس آزاد کشمیر و پاکستان کے رہنما اور نمائندے ’’آزاد فضاؤں‘‘ کی بدولت مختلف دھڑوں میں شامل ہونے کے باوجود ایک ہی ’’ کمانڈاینڈ کنٹرول‘‘ کی ’’کمال مہربانی‘‘ سے اکٹھے اور متفق ہیں۔آزاد کشمیر کی پیپلز پارٹی حکومت نے ’’کل جماعتی رابطہ کونسل‘‘ قائم کی، جو کشمیر کاز کے حوالے سے ایک موثر پلیٹ فارم بن سکتا ہے لیکن امیدوں اور توقعات کے برعکس چند ابتدائی اجلاسوں کے بعد یہ جمود کا شکار ہو گیا۔آزاد کشمیر حکومت نے کل جماعتی رابطہ کونسل کو سرکاری حیثیت دینے کا اعلان بھی کیا لیکن اس کا سرکاری نوٹیفیکیشن جاری ہونے کی منظوری نہ مل سکی۔بقول شاعر’’ اڑنے سے پہلے ہی صیاد نے آن دبوچا‘‘،یا پھریہ کہ ’’ارادے تو بلند تھے کچھ کر گزرنے کے یہ ا لگ بات ہے کہ بیوی نے گھر سے نکلنے نہ دیا ‘‘۔

دو روز قبل اسلام آباد کے ایک اعلی ہوٹل میں پیس اینڈ کلچر آرگنائزیشن نامی ایک نجی تنظیم کے زیر اہتمام’’ کشمیر کاز اور مقبوضہ کشمیر میں انتخابات‘‘ کے نام سے گول میز کانفرنس کا انعقادکیا گیا جس میں پاکستان اور کشمیر سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات نے شرکت کی اور خیالات کا اظہار کیا۔اخبارات میں شائع خبر کے مطابق اس میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین، مسلم لیگ (ن)کے رہنما اور چئیرمین سینٹ راجہ ظفرالحق ، وفاقی وزیر برائے کشمیر اور گلگت بلتستان چودھری برجیس طاہر، وزیر مملکت مذہبی امور پیر محمد امین الحسنات، سابق وزیر اطلاعات اور پی پی کے مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ، جماعت اسلامی کی رہنما میاں اسلم، اے پی ایم ایل کے رہنما جنرل راشد قریشی، آزاد کشمیر کے صدر سردار یعقوب، وزیر اعظم آزاد کشمیرچودھری عبدالمجید، سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل، حریت رہنما غلام محمد صفی،محمود احمد ساغر، سید یوسف نسیم،جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے مرکزی رہنما امان اﷲ خان، عبدالحمید بٹ، رفیق بٹ ،ترجمان یاسین ملک سلیم ہارون، ڈاکٹر توقیر گیلانی،سابق وزیراعظم آزاد کشمیر بیرسٹر محمد سلطان، چیئرمین جموں کشمیر پیپلز پارٹی سردار خالد ابراہیم ، صدر مسلم لیگ کانفرنس سردار عتیق احمد خان، سابق وزیراعظم آزاد کشمیر،صدر مسلم لیگ (ن) راجہ فاروق حیدر، سابق سپیکر آزاد کشمیر اسمبلی، سیکرٹری جنرل پی ایم ایل(این)شاہ غلام قادر، رہنما جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر غلام نبی نوشہری، ڈاکٹر ولید (کشمیر امریکن کونسل)، سینیٹر جعفر اقبال، رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر طارق فضل چودھری، ایڈیٹر روزنامہ جنگ حنیف خالد، بیوروچیف ایکسپریس نیوز عامر الیاس رانا، چیئرمین یوتھ فورم کشمیر احمد قریشی، اکرم ذکی، سابق سفیراور چیئرمین آف انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز خالد محمود، ڈی جی انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز ڈاکٹر رسول بخش ، ڈاکٹر عالیہ ایچ خان (ڈین، فیکلٹی آف سوشل سائنسز)، ودود قریشی ایڈیٹر روزنامہ خبریں، سردار زاہد تبسم چیف ایڈیٹر کشمیر ایکسپریس، افضل بٹ (صدر فیڈرل یونین آف جرنلسٹس)، ڈاکٹر جواد ہمدانی پروفیسر اسلامک یونیورسٹی، فیض نقشبندی، مظہر برلاس، تجزیہ کار ہارون الرشید، شیخ تجمل اسلام (ڈائریکٹر کشمیر میڈیا سروس)، رئیس میر (کے ایم ایس)، کالم نگار ارشاد محمود، میر عدنان لیکچرار اے جے کے یونیورسٹی، راجہ وسیم (پریس فار پیس) ، عارف کمال سابق سفیر، ڈائریکٹر گلوبل سٹیڈیز این ڈی یو، سید ضیا النور چیئرمین مسلم ہینڈز سمیت دیگر صحافی، دانشور، سماجی کارکن، سفارتکار، اساتذہ، مفکر، شاعر اور ادیب شامل تھے۔ اس موقع پر کشمیر کاز اور مقبوضہ کشمیر میں زبردستی کرائے جانے والے جعلی انتخابات کے حوالے سے باری باری سب نے خیالات کا اظہار کیا۔

کانفرنس میں چودہ نکات پر مشتمل قرارداد بھی منظور کی گئی جو پیس اینڈ کلچر آرگنائزیشن کی سیکرٹری جنرل سبین حسین ملک نے پیش کی۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیاکہ پاکستان اور بھارت کی حکومتیں جلد از جلد مسئلہ کشمیر کو حل کریں، تمام مراحل میں کشمیریوں کی رائے کو شامل رکھا جائے، حل اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہی ہونا چاہیے۔ تمام سیاسی قیدیوں کو فی الفور رہا کیا جائے۔ شہید مقبول بھٹ اور افضل گورو کے جسد خاکی واپس کیے جائیں۔ مقبوضہ کشمیر میں نافذ تمام کالے قوانین فی الفور ختم کرنے میں جو متعدد ایکٹ بیان کئے گئے ان میں ’’کریمنل پروسیجر کوڈ، انڈین ٹیلی گراف ایکٹ‘‘ کے اندراج سے معلوم ہوتا ہے کہ انٹر نیٹ سے مقبوضہ کشمیر میں نافذ تمام قوانین کی لسٹ کو لیکر اسی طرح قرارداد کا حصہ بنا یا گیا ہے۔پیس اینڈ کلچر آرگنائزیشن کی چیئرپرسن مشعال حسین ملک نے کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں الیکشن کا ڈرامہ بندوق کی نوک پر کرتا ہے ،جس کا ٹرن آؤٹ دو فیصد سے بھی کم ہوتا ہے،جبکہ شروع سے ہی کشمیری ایسے انتخابات کا بائیکاٹ کرتے آئے ہیں اور اس روز مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال ہوتی ہے،اگرچہ بھارت ان کے ذریعے یہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے کہ کشمیریوں کو اپنی لیڈرشپ چننے کا موقع دیا جا رہا ہے لیکن حقیقت میں بھارت اس سے اپنے وفاداروں اور کٹھ پتلی لوگوں کو آگے لاتا ہے۔خبر کے مطابق گول میز کانفرنس کے تمام شرکا نے اس امر پر اتفاق کا اظہار کیا کہ زندگی کے تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد کو کشمیر کو سپورٹ کرنا چاہیے، اسے زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنا چاہئیے۔

پیس اینڈ کلچر آرگنائزیشن کے نام سے یاد آیا کہ چند ہی ہفتے قبل مجھے اپنے ذرائع سے اطلاع ملی کہ ایک پاکستانی نثراد برطانوی رکن پارلیمنٹ کی طرف سے یورپ میں کشمیر کاز کے لئے کام کرنے والی ایک شخصیت کے ذریعے ایک’’ہینڈ سم‘‘بلکہ کافی ’’ ہینڈسم‘‘ رقم دی گئی ۔پھر یہ اطلاع ملی کہ ایک قومی ادارے کے ایک اعلی افسر کی طرف سے اس آرگنائیزیشن کے دفتر جاکر غصے کا اظہار کیا گیا اور دفتر بند کرنے کو کہا گیا۔اب پیس اینڈ کلچر آرگنائزیشن نے کشمیر سے متعلق تمام اہم پاکستانی ،آزاد کشمیر کی لیڈر شپ،حریت رہنماؤں،کشمیر کے مختلف محاذوں پر کام کرنے افراد، شخصیات کو کشمیر کانفرنس میں مدعو کرتے ہوئے اکٹھا کر دیا ۔ حیرت و تعجب ہے کہ آزاد کشمیر حکومت،آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں،حریت کانفرنس اور کشمیر سے متعلق دوسری تنظیموں کی ذمہ داری میں شامل کشمیر کاز کا ’’ بار گراں ‘‘ایک پاکستانی فیملی کی ایک والدہ محترمہ اور ان کی دو دختران کی نجی پیس اینڈ کلچر آرگنائزیشن کو اٹھانا پڑ رہا ہے!کانفرنس کی خبر کے آخر میں لکھا تھا کہ ہر شعبے کے افراد کشمیر کو سپورٹ کریں اور اسے زیادہ سے زیادہ اجاگر کریں۔کانفرنس کے شرکاء کو شاید یہ بات معلوم نہ ہوکہ مسئلہ کشمیر تو ’’ خوب خوب ‘‘ اجاگر کیا جاتا ہے ،اتنا اجاگر کیا جاتا ہے کہ اس کا شمار ایک عرصہ سے ایک اچھے کاروبار میں کیا جاتا ہے۔معلوم نہیں کہ ان آزاد فضاؤں میں ،متنازعہ ریاست جموں کشمیر کے لوگوں میں رہنمائی کا ’’ کال‘‘ پڑ گیا ہے،صلاحیتوں کو زنگ لگ گیا ہے یا امیدیں اور ہمتیں جواب دے گئیں ہیں کہ اب پاکستانی نجی تنظیموں(این جی اوز) کو’’ کشمیر اجاگر‘‘ کرنے کی ’’بھاری ذمہ داری ‘‘اٹھانا پڑ رہی ہے۔

مسئلہ کشمیر،تحریک آزادی کشمیر اور بھارتی مقبوضہ کشمیر سے متعلق یہاں غیر سنجیدگی اور اسے ذاتی مفادات کے حوالے سے استعمال کرنے کی صورتحال حدیں عبور کرتی محسوس ہوتی ہیں۔2010ء میں کشمیریوں کی بھارتی فوج کے خلاف مہینوں جاری رہنے والی بے مثال’’پتھروں کی جنگ‘‘ہو،مقبوضہ کشمیر میں ہولناک تباہ کن سیلاب ہو،مقبوضہ کشمیراسمبلی کے الیکشن ہوں یامقبوضہ کشمیر میں بدترین بھارتی مظالم ہوں،ہر معاملے میں آزاد کشمیر اور کشمیر سے متعلق دوسرے حلقوں کا ردعمل نمائشی انداز میں ہی محدود نظر آتا ہے۔ اس غیر سنجیدگی اور مظلوم کشمیریوں کے مقدس کاز کو بھی نمائشی اور مفاداتی طور پر برتنے سے واضح طور پر مقبوضہ کشمیر میں بھی ایک پیغام جاتا ہے۔یہاں یاد آیا کہ سابق آمر جنرل مشرف نے اپنے دور حکومت میں کشمیریوں کو تلقین کی کہ وہ گیلانی صاحب کی جگہ میر واعظ عمر فاروق کو اپنا رہنما بنائیں۔ہمدردوں،خیر خواہوں کو معلوم نہیں کہ اب کشمیری تھونپی گئی رہنمائی سے الرجک ہو چکے ہیں۔پاکستان میں گزشتہ پیپلز پارٹی حکومت میں ایک مرتبہ آزاد کشمیر کے،کشمیر سے متعلق مختلف سیاسی رہنماؤں کو وزارت خارجہ کی معمول کی بریفنگ میں بلایا گیا،ن میں مشعال ملک کو مدعو کیئے جانے پر کئی کشمیری حلقوں کی طر ف سے اعتراض سامنے آیااور سے مخصوص عناصر کی طرف سے کشمیریوں پر نمائندگی تھونپے جانے کے مترادف قرار دیا گیا۔اب وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان چوہدری محمد برجیس طاہر نے بھی کشمیر کاز کو اجاگر کرنے اور مسئلہ کشمیر پر آگہی پھیلانے پر مشعال ملک اور ان کی تنظیم کی کاوشوں کو سراہا ہے اور ایک تصدیق نامہ دے دیا ہے ، تو میری کیا مجال کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے صدر وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف کی طرف سے کشمیر و گلگت بلتستان کی وفاقی وزارت چلانے کے لئے منتخب شخصیت کی تصدیق پر کوئی اعتراض کر سکوں۔لیکن کشمیری تو اعتراض کرے گا !کیونکہ وہ اب باشعور بھی ہے اور خاموشی سے ظلم ،زیادتی سہنے کی عادت بھی اس نے ترک کر دی ہے،سادگی اور قابلیت میں انتہا رکھنا کشمیریوں کا خاصہ ہے۔لطیفے ختم ہو جاتے ہیں لیکن کشمیریوں سے مزاق کرنے کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 614774 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More