یہاں ایک بابا پہلے کئی دنوں اور اب کئی
مہنوں سے بیمار چلا آتا ہے۔ حرام ہے جو مرنے کا نام لے رہا ہو۔ اگرچہ وہ
لمبی چوڑی عمر کا نہیں۔ یہی کوئی ساٹھ باٹھ کا ہو گا۔ عصری حالات اور
خاندانی ضروریات کے پیش نظر اب تک اسے مر جانا چاہیے تھا۔ الله جانے کس مٹی
سے اٹھا ہے۔ بڑے بڑے پھنے خان بابے دیکھے ہیں‘ بیماری کے ایک ہی جھٹکے سے
اناللله ہو گیے۔ ان کے اٹھنے سے گھر والوں کی بےجا ڈاکٹروں کے پاس آنیاں
جانیاں ختم ہو گیں۔ گھر والی اور اولاد خوشی سے بابے کی بیماری کی فٹیک
برداشت کر نہیں رہے تھے۔ دنیاداری بھی آخر کوئی چیز ہوتی ہے۔
ہمارے ہمسارے میں ایک مائی تھی اور کپتی کے نام سے پورے علاقہ میں شہرہ
رکھتی تھی۔ اس کا میاں شریف آدمی اور بلا کا موقع شناس تھا۔ بیماری کے پہلے
ہی جھٹکے میں وہ گیا۔ مائی بڑی دیالو تھی بڑھاپے میں بھی دیا کے بلند مقام
پر فائز تھی۔ کوئی نہیں کہتا تھا کہ اسے بھی کبھی موت آئے گی۔ فرشتہ اجل
بھی اس کے قریب آنے سے لرزتا ہو گا۔ ہاں فیض کی حصولی کے لیے اسے کبھی
معمانت نہیں رہی ہو گی۔ بیمار پڑی؛ اہل ذوق تو اہل ذوق‘ اس کا چھوٹا بیٹا
پوری دیانتت داری سے اسے ڈاکٹروں کے پاس لیا پھرا تاہم چند دن ہی چلی اور
اہل قلب و نظر کے لیے پچھتاوا چھوڑ گئی۔ اس کی بڑی بہو بڑی روئی۔ لوگوں کو
ساس کے ساتھ اس کی مخلصی کا یقین ہو گیا۔ جو بھی سہی میں اس بابے کی کرنی
کا معتقد ضرور ہو گیا جس کے تعویزوں نے بڑی بہو کو یہ دن دکھایا ورنہ وہ
فرشتہ اجل کی گرفت میں آنے والی مائی ہی نہ تھی۔
خدا معلوم یہ ساٹھ باٹھ سالہ بابا کس قسم کا ہے جسے اتنی کرنی والے بابے کے
تعویزوں نے بھی کچھ نہیں کیا۔ باچیاں نکلی پڑی ہیں اور حد درجہ کی کمزوری
وارد ہو چکی ہے‘ اس کے باوجود مرنے کا نام نہیں لے رہا۔ بعید از قیاس نہیں
کہ اسے زندگی لڑ گئی ہو۔ عین ممکن ہے کہ خضر آب حیات کے دوچار گھونٹ عطا کر
گیے ہوں۔ دیوتاؤں سے بھی اس کا بگارڑ نہیں۔ ہو سکتا ہے کوئی دیوتا بصد مشقت
نکالے گیے امرت میں سے دو گھونٹ چپکے سے پلا گیا ہو۔
پرانا اور تجربہ کار ہوتے ہوئے نہیں سمجھ پا رہا کہ کتنوں کا مستقبل خراب
کر رہا ہے۔۔ اس کے مرنے سے بڑا کاروبار وسیع کر سکتا ہے۔ چھوٹے کی تین جوان
بیٹیاں‘ جن کی اب شادی ہو جانا چاہیے جبکہ منجھلا اپنا بیٹا دوبئی بھیجنا
چاہتا ہے۔ اسے باہر مفت تو نہیں ببھجا جا سکتا‘ دام لگتے ہیں۔ یہی صورت حال
اس کی لڑکیوں کی ہے۔ کئی خاندانوں کی ترقی خوش حالی اور آسؤدگی بابے کی موت
سے وابستہ ہے۔ اتنی موٹی اور واضح بات بابے کی سمجھ میں نہیں آ رہی۔ بیمار
اور لاغر زندگی سے برابر علیک سلیک بڑھائے چلا جا رہا ہے۔
ایک ہفتہ پہلے میری اس سے بستر حیات پر ملاقات ہوئی۔ بچے پرامید نگاہوں سے
اس کی آؤبھگت کر رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر بڑے خوش ہوئے۔ بابا چلتے پھرتے
وقتوں میں میرے ملنے والوں میں سے تھا۔ بچے اس کے میرے تعلقات سے واقف تھے۔
انہوں نے مجھے امید بھری نظروں سے دیکھا اور اندر چلے گیے۔۔ ان کا خیال تھا
کہ میں ان کے ڈھیٹ اور جینے پر مصر بابے کو سمجھاؤں گا۔ وہ کیا جانیں کہ ان
کا بابا کتنا ضدی ہے۔
میں نے پوچھا یار تم نے رشوت کی کمائی سے اتنی جائیداد کیوں بنائی۔ مرنے
والے ہو الله کو جواب تو تمہیں ہی دینا پڑے گا۔
جواب میں کہنے لگا مریں میرے دشمن‘ میں کیوں مروں۔ اکیلے میں نے تھوڑی
بنائی ہے‘ ساری دنیا اسی طرح جائیدایں اور بینک بیلنس بناتی ہے۔ اتنے لوگوں
کے لیے جہنم میں جگہ کب ہو گی۔ میں وہاں جا کر بھی قبضہ گروپ کا لیڈر ہوں
گا۔ ٹہوہر میں گزاری ہے‘ فکر نہ کرو‘ وہاں بھی ٹہوہر کی گززے گی۔ بیشک الله
بڑا بےنیاز ہے۔
میں نے کہا یار یہ جائیداد اپنے جیتے جی ان میں تقسیم کر دو۔
کیوں تقسیم کر دوں۔ جائیداد میری ہے کسی کو دوں نہ دوں میری مرضی۔ اگر میں
نے تقسیم کر دی تو ان میں سے کسی نے پوچھنا تک نہیں۔ گھر سے باہر نکال دیں
گے۔
اس کی بات میں دم بھی تھا اور خم بھی۔ میں یہ اندازہ نہیں کر سکا کہ ان میں
زیادہ کیا تھا۔ اس کے پاس میں قریبا بیس پچیس منٹ اس خوف کے ساتھ بیٹھا رہا
کہ کہیں یہ نہ کہہ دے کہ تم بھی دو چار سال کے ہیر پھیر سے میرے ہم عمر ہو
ابھی مرے کیوں نہیں۔ شاید اس لیے نہ بولا کہ میرے پاس ہے ہی کیا۔ زندہ ہوں
کچھ ناکچھ تو لاتا ہوں۔ اور کچھ نہیں تو تھیلا برداری سے تو جڑا ہوا ہوں۔
دوسرا اور کوئی اتنی بےعزتی کیوں کراے گا۔ شوہر کا بےعزتی کرائی کے لیے
پہلے سوال کی طرح بہرطور لازمی ہے۔
اب اس صورتحال کے تحت میں کیا عرض کر سکتا ہوں تاہم مجھے بڈھے کی اولاد میں
کمی اور خرابی نظر آئی۔ جو خود محنت اور مشقت کرنے کی بجائے اوروں کی کمائی
پر مستقبل سنوارنے کی آشا کرنے والے زندگی میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ اور دو
قسم کے ہوتے ہیں۔
ایک بابے وغیرہ
دوسری دفتر شاہی وغیرہ۔
ثانی الذکر کو اوروں میں شمار نہ کریں۔ سایلین سے وصولیاں وغیرہ دفتری
لوگوں کا اصولی استحقاق ہوتا ہے۔ پڑھائی لکھائی اور نوکری کی حصولی پر خرچہ
کرکے اگر بہت یا بہت سے بڑھ کر وصولا نہ گیا تو کیا فائدہ
بابے کے اپنے نما اپنے خود کو پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن والے سمجھتے
ہیں جو سراپا دیسی گھی کی کڑاہی میں ہیں۔ کملوں کو اتنی بات سمجھ میں نہیں
آتی کہ وہ سرکاری لٹیرے ہیں۔ انہیں تو پوچھ کرنے والوں کا اشیرباد حاصل ہے۔
دوسرا وہ لوگوں کا کام کرتے ہیں۔ تیسری بڑی بات یہ کہ وہ تو بھرتی ہی لوٹ
مچانے کے لیے ہوئے ہیں۔ لوٹ سیل تو ان کے فرائض منصبی میں داخل ہے۔
مانتا ہوں بابے کا مال بھی لوٹ کا ہے لیکن وہ مال تو ہے اور مال بھلا کون
کسی کو دیتا ہے۔ گچی پر ناخن آئے تو ہی کھیسہ ڈھیلا ہو سکتا ہے۔ کملے بابے
کو کسی پھسنی میں پھاسائیں‘ خود ہی جڑے گا۔ مجھے بابے کے اپنوں پر افسوس
ہوتا ہے۔ بیمار بابا ان سے برداشت نہیں ہو رہا۔ بڑے ہی دکھ اور افسوس کی
بات ہے۔ پاکستان کو بنے ایک صدی ناسہی کچھ ہی سالوں بعد ہو جائے گی‘ بیمار
لاغر اور دمہ گزیدہ دفتر اور افسر شاہی سے کام چل رہا ہے اور خوب چل رہا
ہے۔ انہیں اپنے بیمار لاغر‘ دمہ گرفتہ نہیں‘ بوڑھے سے کام چلاتے ہوئے مری
پڑتی ہے۔ بیمار لاغر اور دمہ گذیدہ دفتر اور افسر شاہی کے مرنے کے دور تک
آثار نہیں۔ سچی کہوں گا چاہے بڈھے کے گھر والوں کو غصہ ہی لگے‘ بابے کے
مرنے کے مجھے دور تک آثار نظر نہیں آئے۔ ان کنبوں کا مستقبل اسی طرح تذبذب
کی صلیب پر لٹکا رہے گا اور یہ میں پورے یقین کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔ |