پاکستان کی جیلوں اور پولیس
حراست میں کم عمر بچوں کو بڑی عمر کے قیدیوں کیساتھ رکھنے کا نام کیا انصاف
کا نظام ہے؟۔پاکستانی جیلوں میں سات سال کی عمر سے لیکر ماں کی آغوش میں
دنیا کے درپیش مسائل سے معصوم بچے نا آشنا قیدی بھی ہیں ۔ گذشتہ دنوں اعلی
عدلیہ نے ایک قیدی خاتون کی دہائی پر نوٹس لیا تھا کہ جیلوں میں قید بچوں
کوپولیو ویکسین نہ پلائے جانے کا سبب اس کا بچہ پولیو کا شکار ہوگیا
ہے۔پاکستان میں عدالتی نظام میں اصلاحات کی جس قدر ضرورت ہے اسے اتنا ہی
نظر انداز کیا جاتا ہے۔اہم امر یہ ہے کہ نابالغ بچوں کے معاملات کو سنجیدگی
سے نہیں لیا جاتا کیونکہ ان کے حقوق کیلئے آواز اٹھانے والا ہی کوئی نہیں
ہے ، پاکستان قانون کے مطابق بچوں کو ہتھکڑیاں نہیں لگائی جاسکتی لیکن ان
بچوں کو رشوت کی حصولی کیلئے بڑی عمر کے قیدیوں کیساتھ ہتھکڑیوں میں جکڑ
دیا جاتا ہے۔جیلوں میں قید بچوں کی حالت کافی تشویش ناک حد تک قابل رحم
ہے۔ایک جائزے کے مطابق ستر فیصد بچوں کو پولیس حراست میں تشدد کا جہاں
نشانہ بنایا جاتا ہے تو جیلوں میں عدالتی تحویل کے دوران تشدد بچوں کیساتھ
زیادتی کے واقعات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔حیدرآباد جیل میں سر چ
آپریشن کے دوران خطرناک قیدیوں کی بیرکوں سے ایسے بچوں کو بھی بازیاب کرائے
گئے تھے جنھیں جیل انتظامیہ کی ملی بھگت کرکے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا
جاتا تھا۔جسٹس صبیح الدین کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ نے قیدی بچوں کے
حوالے سے نوٹس لیا تھا تو انھیں بتا یا گیا کہ سندھ کی بیس جیلوں میں صرف
کراچی اور حیدرآباد میں بچوں کیلئے دو جیلیں قائم ہیں۔جس میں 18سال سے کم
عمر 600قیدی بچے قید ہیں اور562قیدی بچوں کے مقدمات زیر سماعت ہیں اور صرف
38بچوں کو سزا سنائی گئیں ہیں۔سندھ ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت میں ثابت
ہوا تھا کہ قیدی بچوں کو عام بیرکوں میں رکھا جاتا ہے جس پر سندھ ہائی کورٹ
نے ہدایات جاری کیں تھیں کہ 2000ء میں نافذ ہونے والے جوونائل جسٹس سسٹم
بھی عمل درآمدکو یقینی بنایا جائے اُس وقت کے ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ آصف
حیدر نے بتایا تھا کہ قیدی بچوں کیلئے علیحدہ جیلوں کے قیام کے سلسلے میں
طویل المدت منصوبہ بندی کی جائے کہ کہاں کہاں جیلیں یا انڈسٹریل سکول بنائے
جاسکتے ہیں اور ان کی معیاری شکل کیا ہوگی لیکن تاحال اس پر کتنا عمل درآمد
ہوا ہے یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔اسی طرح کم عمر بچیوں کو بھی ایسی
خواتین قیدیوں کیساتھ رکھا جاتا ہے جہاں وہ منشیات کی عادی ہو رہی ہیں۔قابل
ذکر افسوس ناک صورتحال یہ بھی ہے کہ ماتحت عدالتوں میں مقدمات چلنے کی
رفتار انتہائی سست ہوتی ہے جس بنا پر انھیں انصاف مہیا نہیں ہوپاتا۔
پاکستانی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی ہونے کی ایک بنیادی وجہ ماتحت
عدالتوں میں چلنے والے کچوے کی چال سے بھی سست مقدمات کی شنوائی ہے۔حد تو
یہ ہے کہ جیل کے قوانین کے مطابق سزائے موت کے قیدی کی کوٹھری دس ضرب بارہ
فٹ کے رقبہ کی ہوتی ہے جس میں صرف ایک قیدی کو رکھے جانے کی اجازت ہے لیکن
جگہ کی کمی کے سبب ایک سے زیادہ قیدیوں کو ان کوٹھریوں میں رکھا جاتا
ہے۔ملک بھر کی ستاسی جیلوں میں بنائے گئے ڈیٹھ سیل میں ایک یا دو کے بجائے
پانچ سے سات افراد کو رکھا جاتا ہے۔اس دوران یہ بھی دیکھا گیا کہ سزائے
موقت کے قانون پر عمل درآمد روکے جانے کے سبب موت کی سزا پانے والے قیدیوں
کو عام قیدیوں کے ساتھ رکھنے پر بھی غور کیا گیا،سابق وزیر اعظم یوسف رضا
گیلانی کی جانب سے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے کی قانون سازی کی
کوشش نے مقتولین کے ورثا کے زخموں پر نمک پاشی کا کام کیا تھااور آج تک
انکی سزاؤں پر عمل درآمد نہیں ہو رہا تو ایسے عمل خطرناک قیدی ، دیگر جرائم
پیشہ قیدیوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بھی بنتے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ
موت کی سزا پانے والوں کی تعداد ہزاروں کی تعداد میں ہے ، گذشتہ16سالوں میں
دس ہزار سے زاید قیدیوں کو پھانسی کی سزا سنائی جاچکی ہے صرف صوبہ پنجاب کی
بتیس جیلوں میں موت کی سز پانے والوں قیدیوں کی تعداد سات ہزار سے زیادہ
تھی جبکہ ہزاروں ایسے قیدی ہیں جن کی اپیلیں مختلف عدالتوں میں زیر التوا
ہیں۔
صدر مشرف کے آٹھ سالہ دور میں 412قیدیوں کو پھانسی دی گئی تھی صرف 2007میں
124افراد کو پھانسی دی گئی جس پر ہومن رائٹس کمیشن نے کافی واویلا کیا جس
کے بعدپھانسی کی سزاؤں پر عمل درآمد روک دیا گیا 26سال سے جیل ریفارمز سے
متعلق کمیٹیاں بنائی جاتی رہی ہیں جو متعلقہ جیل حکام کے ساتھ ملکر سفارشات
مرتب کرتی ہے لیکن دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ صوبائی حکومتیں اس پر عمل
درآمد نہیں کرتی اور تمام سفارشات سرد خانے کا شکار ہوجاتی ہیں۔ سابق وزیر
قانون فاروق ایچ نائیک نے قیدیوں کیلئے بنائے گئے قوانین میں ترمیم کرکے اس
کا نام’ اصلاحی سینٹر‘ رکھنے کے بارے میں قانونی ماہرین کی آرا سے مدد لیکر
قانون سازی کرنے کا دعوی کیا تھا لیکن اس کا حال بھی ریفامرز کمیٹیوں کی
طرح ہی ہوا۔تمام حکومتیں یہ دعوی تو کرتی نظر آتی ہیں کہ قیدیوں کے بارے
میں ایسے قوانین بنائے جائیں گے تاکہ قیدی احساس کمتری کا شکار نہ ہوں اور
ان قیدیوں کو دوران قید ایسی سہولتیں فراہم کی جائیں گی تاکہ اسیری بعد وہ
معاشرے کا فعال شہری بن سکیں لیکن اس کے برخلاف جیلوں کی حالت زار کے سبب
اس کا رویہ انتقامی ہوجاتا ہے اور وہ معاشرے کا بامقصد فرد بننے کے بجائے
جیل میں حاصل تجربات اور جرائم پیشہ افرادسے رابطوں کے سبب مزید مسائل کا
شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔2013ء میں ہومن رائیٹس لمیشن نے ایک رپورٹ جاری کی
تھی جس کے مطابق پاکستان کی جیلوں میں75444قیدی مقید تھے جبکہ گنجائش
44578قیدیوں کی تھی جبکہ ملک بھر میں1289بچے بھی جیلوں میں تھے اور انکے
مقدمات زیادہ تر زیر سماعت تھے نیز 59قیدی ہلاک اور81زخمی ہوئے۔یہاں اس بات
کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مسلمان قیدیوں کو مختلف مذہبی اور قومی
تہواروں کے ساتھ مسلمان قیدیوں کو قرآن کورسز پاس کرنے میں رعایت کا قانون
موجود ہے لیکن اقلیتی مذاہب کے قیدیوں کو بائیبل اور گیتا کی تعلیم پر قید
میں رعایت دینے پر بھی کماحقہ عمل در آمد نہیں ہوتا ،خاص کر عید ین میں
رعایت کا فائدہ مسلم و غیر مسلم دونوں پر ہوتا ہے لیکن ایسے کئی قیدی اب
بھی پابند سلال ہیں جنھیں مختلف مذہبی اور قومی تہواروں پر رعایت نہ ملنے
سبب کے اسیری کی زندگی گذار رہے ہیں۔ 2008ء میں پانچ ہزار قیدیوں کو رہا
کیا گیا تھا ، اس رعایت کا اطلاق معمولی جرائم میں سزا پانے والے قیدیوں پر
ہوتا ہے ، لیکن بد قسمتی سے قیدیوں کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا بلکہ
قیدیوں کو معاشرے کا کارآمد فرد بنانے کے بجائے محکمہ جیل خانہ جات اقربا
پروری اور رشوت پر کامل یقین رکھتا ہے۔ سپریم کورٹ نے سینئرز کو نظر انداز
کرکے جوئینر افسران کو ترقیاں دینے کا نوٹس لیکر احکامات دئیے تھے ، جس پر
حکومت سندھ نے22اپریل 2013ء کو جاری کردہ لیٹر کے تحت محکمہ جیل خانہ جات
سمیت دیگر محکموں کو او پی ایس پر تعینات افسران کو ہٹا کر سینارٹی کی
بنیاد پر تقرریوں کے احکامات جاری کئے تھے جس پر آئی جی جیل خانہ جات نے
سیکرٹری داخلہ سندھ کے احکامات پر14مئی2014ء کو گریڈ 17کے گیارہ افسران جو
او پی ایس پر گریڈ 18میں کام کر رہے تھے انہیں عہدوں سے ہٹا کر ڈپٹی
سپرنٹنٹنٹ جیل کے عہدوں پر تعینات کے احکامات جاری کئے تھے ۔ لیکن سپریم
کورٹ کے احکامات کے باوجود سرکاری فائلوں میں تو ان پر کاروائی کی گئی لیکن
ہنوز یہی افسران بدستور ان عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔اسی طرح پریژن اسٹاف
ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کے پرنسپل کی پوسٹیں ریکارڈ پر تو خالی ہیں لیکن ان عہدوں
پر بھی منظور نظر جوئینر افسران اور ریٹائرڈ کنڑیکٹ پر تعینات کم گریڈ کے
افسران سنیارٹی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کام کر رہے ہیں۔ کچھ ایسی ہی
صورتحال اہم جیلوں میں ایسے جونئیر افسران کی ہے جو سپریم کورٹ کے احکامات
کو پس زندان ڈال کر سینارٹی پوسٹ پر کام کررہے ہیں۔ایک دلچسپ پوسٹ ڈسٹرکٹ
جیل ملیر کراچی کے سپرنٹنٹنٹ کی ہے جو کافی عرصہ سے اسی جیل میں تعینات ہیں
اور فالج کیوجہ سے چلنے پھرنے سے قطعی قاصر ہیں جیلوں کی حفاظت کی ذمے داری
جب نا تجربہ کار جونئیرز افسران کو دی جائے گی تو حساس اور اہم جیلوں کے
توڑے جانے کی سازشیں کامیاب ہوتی رہیں گی اور ان کا نزلہ اُن ناپرساں
قیدیوں پر گرتا رہے گا جو انھیں بھاری رشوت نہیں دے سکتے اور جیل میں
سہولیات حاصل کرنے کیلئے انکے مطالبات پورے نہیں کرسکتے سپریم کورٹ کو
جونئیرز افسران اور فالج کی بیماری کے باوجود اہم جیلوں کی ذمے داریاں
سنبھالنے کا نوٹس لینا چاہیے۔صوبائی حکومتوں کی لاپرواہی مجرمانہ غفلت
ہے۔قانون کتابوں کیلئے عمل درآمد کیلئے ہوتا ہے ۔ |