ہمارے معاشرے میں تو معذور
افراد کی معذوری کو ہی ان کی چھیڑ بنا دیا جاتا ہے ۔جیسے کہ اگر کوئی شخص
لنگڑا کر چلتا ہے تو اس کے لئے لنگڑ ے ،ایک آنکھ سے محروم والے کو کانے،
بھینگا ہو تو اسے بھینگے ، چھوٹے قد والے کو بونے، توتلا کر بولنے والے کے
لئے توتلے اور ذہنی طور پر کمزور یا معذور شخص کو للّواورسائیں بگلول جیسے
ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ کسی بھی معذور شخص کو اپنے لئے ایسے الفاظ یقینا
کسی گالی سے کم نہیں لگتے ہوں گے۔لیکن وہ پھر بھی اس ظالم اور بے حس معاشرے
کی اس بے رحمی کو بڑی ہمت سے برداشت کرجاتے ہیں ۔آخر ان سے ایسا غیر مہذب
رویہ کیوں رکھا جاتاہے اور ان سے بیہمانہ سلوک کیوں کیا جاتا ہے کیا ہم
انہیں انسان نہیں سمجھتے بلکہ یہ تو وہ خاص لوگ ہیں جو ہماری خاص توجہ،
شفقت اور خاص اہمیت کے حقدار ہیں۔کیونکہ معذوری اور محتاجی کسی کو بھی اچھی
نہیں لگتی۔اور کوئی بھی شخص نہیں چاہتا کہ اس کی ذات میں کسی قسم کی کوئی
کمی رہے۔اور اسی طرح معذور افراد کی بھی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بھی
دوسرے انسانوں کی طرح نارمل ذندگی گزاریں ۔لیکن بات ہے ساری بے بسی کی۔جیسے
ٹانگوں سے معذور ایک شخص جب دوسرے لوگوں کو چلتا پھرتا یا دوڑتا دیکھتا ہے
تو یقینا اس کی بھی تمنا ہوتی ہے کہ وہ بھی ان کی طرح بھاگے دوڑے اور ذندگی
کی دوڑ میں شامل ہو سکے۔
معذور افرادکا عالمی دن ہر سال 3 دسمبر کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔اس
دن کو منانے کوبڑا مقصدتمام معذور افراد کو درپیش مسائل کو اجاگر کرناہے ،معاشرے
میں ان کی عزت و وقار اور ان کے حقوق کاخاص خیال رکھنا شامل ہے۔اور سیاسی ،سماجی
،اقتصادی اور ثقافتی ذندگی کے ہر پہلو میں ان کی موئثر شرکت کو فروغ دینا
ہے۔اس سال 2014ء میں یہ دن اس مرکزی خیال کے ساتھ منایا جائیگا
کہ۔''Sustainable development:The promise of Technology'' ۔معذور افراد
چونکہ دوسرے انسانوں کی طرح ذندگی کے معمولات کو مکمل طور پر سر انجام دینے
سے قاصر ہوتے ہیں کیونکہ اپنی معذوری کے باعث ان کے پاس اتنی طاقت یا
صلاحیت نہیں ہوتی کہ دوسروں کی طرح ہر کا م پرفیکٹ کر سکیں۔اب معذوری پر
نظر ڈالیں تو معذوری بھی دو طرح کی ہوتی ہے ۔ایک پیدائشی معذوری جس میں
انسان قدرتی طور پر ہی معذور پیدا ہوتا ہے اور دوسری وہ معذوری جس میں
انسان اپنی ذندگی میں کسی بیماری،حادثے،قدرتی آفت،جنگ یا دھماکے وغیرہ کا
شکار ہو کر معذور ہو جاتا ہے۔پیدائشی معذوری میں تو انسان قدرت کے آگے بے
بس ہے۔جیسا کہ قرآن میں بھی ارشاد ہے کہ ـ’ اﷲ پر زمین اور آسمان میں کوئی
چیز چھپی ہوئی نہیں۔ وہی جس طرح چاہے ماں کے پیٹ میں تمہارا نقشہ بناتا ہے
اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں وہ ذبردست حکمت والا ہے۔‘(القرآن)۔ پیدائشی
معذوری کے علاوہ اپنی ذندگی انسان جن وجوہات کی بناء پر معذور ہوجاتا ہے تو
اگر ان اسباب کا سدِباب کر لیا جائے تو ایسی معذوریوں سے انسان کافی حد تک
محفوظ رہ سکتا ہے۔جیسے کہ بندہ کئی ایسی بیماریوں کو شکار ہو جاتا ہے جن کا
بر وقت علاج نہ کروانے پراسے اپنے جسم کے کسی اعضاء سے محروم ہونا پڑ جاتا
ہے۔ ایسی ہی معذوری کا شکار ہونے والے ایک صاحب سے میری چند ماہ پہلے ہی
ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے بتا یا کہ وہ شوگر کے مریض ہیں ایک دن انہوں نے
اپنی موٹر سائیکل سٹارٹ کرنے کے لئے kickلگائی تو ان کا پاؤں سلپ ہو گیا
اور دائیں ٹخنہ پر رگڑ کی وجہ سے ایک ہلکا سا زخم ہوگیا۔ انہوں نے اس کی
ذیادہ پرواہ نہ کی ، وقت گزرتا گیا قصہ مختصر کہ بروقت علاج نہ کروانے کی
وجہ سے تھوڑے ہی عرصے میں ان کا یہ زخم اس قدر بڑھ گیا کہ ایک دن ڈاکڑوں کو
ان کا پاؤں ہی کاٹنا پڑا۔ اب دیکھیں کہ علاج میں زرا سی غفلت کی وجہ سے یہ
چھوٹا سا زخم ان کی ذندگی کی سب سے بڑی تکلیف بن گیا۔ اب معاشرے میں ہم بہت
سے ایسے افراد بھی دیکھتے ہیں جو ٹریفک حادثات کا شکار ہوکر معذور ہوجاتے
ہیں۔حادثات کی وجہ سے معذو رہونے والے افراد کی تعداد تو روزبروز بڑھتی ہی
چلی جا رہی ہے ۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک تو لوگ ٹریفک قوانین کا احترام
نہیں کرتے اور دوسرا ڈرائیونگ کرتے ہوئے تیز رفتاری وجلد بازی سے کام لیتے
ہیں۔ یوں ان کی یہ جنونی کیفیت بعض اوقات ایسے حادثہ کو جنم دیتی ہے جس میں
شدید زخمی ہونے کی وجہ سے انہیں معذور ہونا پڑ جاتا ہے۔اب جس ملک میں سفارش
یاتھوڑی سی ذیادہ رقم خرچنے سے ڈرائیونگ لائسنس بغیر ٹیسٹ کے ہیمل جاتے ہوں
تو وہاں حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح کوئی تشویش کی بات نہیں۔کیمروں کی مدد سے
چالان کرنے کا ایک اچھا سسٹم متعارف کروایا جا رہا ہے۔لیکن اس کے ساتھ عوام
میں ٹریفک قوانین کی پابندی کے بارے آگاہی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔بلکہ
یہاں میر ی ذاتی رائے تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ٹریفک قانون کی خلاف ورزی
کرے تو نہ صرف اسے بھاری جرمانہ کیاجائے بلکہ چند دنوں کے لئے اس کی گاڑٰ ی
بھی ضبط کرلی جائے اور ایک سال میں تین چالان ہونے پر نہ صر ف ڈرائیونگ
لائسنس کینسل کیا جائے بلکہ اس شخص کو گرفتار بھی کر لیا جائے۔چند ایسے سخت
قوانین بنانے سے ٹریفک حادثات میں یقیناکمی آئے گی۔کیونکہ غلطی کرنے والے
افراد اکثر خود تو محفوظ رہ جاتے ہیں لیکن دوسروں کو معذور کردیتے ہیں۔ اب
تیز بارشیں،طوفان ،سیلاب جیسے قدرتی آفات بھی بہت سے لوگوں کو معذور کرنے
کا سبب بنتے ہیں۔انسان کو قدرتی آفات کے نقصانات سے بچنے کے لئے کسی قسم کی
کوئی کوتاہی نہیں برتنی چاہیے اور ہمیشہ اپنے حفاظتی انتظامات مکمل رکھنے
چاہییں۔
معذور افراد کو اپنی معذوری کا ذیادہ احساس اس وقت ہوتا ہے جب لوگ ان کو
اہمیت نہیں دیتے۔انہیں کمزور اور کمتر سمجھ کر ان کی دل آزاری کرتے ہیں
اوران کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے۔ ان کی معذوری کو مدنظر رکھ کر ان سے
ایسا سلوک کرنا انسانیت کے ناطے ان سے سراسر ناانصافی ہے۔ کیونکہ معاشرے
میں بہت سے افراد اپنی معذوری کے باوجود بھی بہت ذیادہ باصلاحیت ہوتے
ہیں۔لوگ ان کو معذور جانتے ہوں لیکن وہ خود کو معذور نہیں سمجھتے اور ذندگی
کی دوڑمیں بڑی کامیابیوں سے اپنا سفر طے کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرہ ایک بڑا
المیہ یہ بھی ہے کہ ہم معذور افراد کی تعلیم و تربیت پر ذیادہ توجہ نہیں
دیتے اور نہ ہی ہمارے ملک میں ایسے افراد کی تعلیم و تربیت کے لئے خاص
تعداد میں تعلیمی ادارے موجود ہیں۔جو تھوڑے بہت ہیں وہ بھی دور دراز علاقوں
میں۔جہاں لمبے سفر کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کو بھیجنے سے ڈرتے ہیں۔ جبکہ ہر
علاقے میں معذور افراد کے لئے کم ازکم دو عدد تعلیمی ادارے ضرورموجودہونے
چاہیے۔ اوریہ حکومت کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہر علاقے میں ایسے
لوگوں کے لئے تعلیمی اداروں کاخاص انتظام کرے ۔تا کہ معذور افراد بھی
تعلیمی میدان میں آگے بڑھ سکیں۔ اور اس کے علاوہ سرکاری محکموں میں نوکریوں
کے لئے معذور افرادکا جو کوٹہ مختص ہے وہ صرف اور صرف 2فیصد ہے۔اگر ہم اپنے
ملک میں ان افراد کی گنتی کریں تو اس حساب سے یہ کوٹہ دگنا بھی نہیں بلکہ
چوگنا بڑھانے کی ضرورت ہے۔تا کہ معذور لوگ دوسروں کے رحم وکرم پر ذندگی
گزارنے کی بجائے خود روذگار کے قابل ہوسکیں۔ہمارے ملک میں بہت سے ایسے گروہ
موجود ہیں جولوگوں کو معذوربنا کر ان سے بھیک منگواتے ہیں۔ایسے گروہوں کو
قانون کے شکنجے میں لا کر عبرت ناک سزا دی جائے۔اور آخر میں صرف اتنا کہ
خدا کے لئے معذور افرادکو بھی اپنی طرح کا انسان سمجھا جائے اور ان کو
اسپیشل افراد کہا جاتاہے تو وہ اس لیے کہ وہ ہماری خاص محبت اور خاص شفقت
کے مستحق ہوتے ہیں۔ |