قرآن کا علمی اعجاز اور موجودہ سائنس
(Ata Ur Rehman Noori, India)
قرآن کریم سائنسی اصول ونظریات
کی کتاب نہیں بلکہ خدائے قدیر وجبّارکا کلام ہے۔ جو قلبِ مصطفی ﷺ پر کبھی
بلا واسطہ اور کبھی بالواسطہ نازل ہوا۔ قرآن مقدس سرچشمۂ علوم ہے ۔ کلام
الٰہی سائنسی حقائق کو عیاں کرنے کے ساتھ ساتھ تدبیر کائنات میں کار فرما
اصول وضوابط کی گتھیوں کو سلجھاتا ہے ۔مذاہب عالم میں تنہا قرآن عظیم وہ
کتاب ہے جو وسیع وعریض کائنات میں غور وفکر، تخیل،تصور ،سوچ و فکر اور تدبر
کی دعوت دیتا ہے ۔ قرآن کریم میں خالق کائنات نے جن حقائق سے پردہ اٹھایا
ہے انہیں عصر حاضر میں سائنسی نظریات کو ماننے والے بھی تسلیم کررہے ہیں ۔
جن حقائق وانکشافات تک علم جدید کی بدولت ذہن انسانی کی رسائی عہد حاضر میں
ہوئی ہے اس کی خبر قرآن حکیم صدیوں پہلے دے چکا ہے ۔ جو اس کے من عند اﷲ
ہونے پر پختہ دلیل ہے ۔قرآن عظیم کے بعد احادیث مصطفی ﷺ وہ بے بہا اور
نایاب خزانہ ہے جو سائنسی حقائق ونظریات اور اصول و ضوابط کی صراحت کے ساتھ
وضاحت کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ غرضیکہ جیسے جیسے میڈیکل سائنس ترقیوں کی
راہیں عبورکرتا جائے گا ویسے ویسے قرآن وحدیث کی حقانیت وصداقت کا حسن
نکھرتا جائے گا۔
٭قرآنی حقائق اور شہد کی مکھیاں: فرمان الٰہی ہے: اور تمہارے رب نے شہد کی
مکھی کو الہام کیا کہ پہاڑوں میں گھر بنا اور درختوں میں اور چھتوں میں ۔
پھر ہر قسم کے پھل میں سے اور اپنے رب کی راہیں چل کہ تیرے لیے نرم وآسان
ہیں ۔ اس کے پیٹ سے پینے کی چیز رنگ برنگی نکلتی ہے ۔ جس میں لوگوں کی
تندرستی ہے۔ بے شک اس میں نشانی ہے دھیان کرنے والو ں کو۔ (سورۂ نحل،آیت 68
)اس آیت کریمہ میں چند باتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ (۱) مکھیوں کو الہام
ہونا(۲)رب کی راہوں کا عیاں ہونا (۳) چھتے بنانے کی ترکیب اور(۴) اس سے
تندرستی یا شفا حاصل ہونا۔رب کی راہوں پر چلنے سے مراداس پورے نظام کی طرف
اشارہ ہے جس پر شہد کی مکھیوں کا گروہ کام کرتا ہے۔ اڑنے والے جانداروں میں
شہد کی مکھی اس شعاع کا انتخاب کرتی ہے جو اسے منزل مقصود تک پہنچادے۔ گویا
کہ روشنی کی شعاعیں مکھیوں کی رہبر ہے۔ یہ رنگ اورخوشبو سے بھی مددلیتی ہے۔
اس کے پاس ایک اینٹینا (Aerial)ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ راہِ سفر اور جائے
قیام پر پہنچتی ہے۔
وان فریش (Von-Frisch)کو سن 1973ء میں نوبل پرائز سے نوازا گیا ۔ انہوں نے
شہد کی مکھیوں کے عادات واطوار پر ریسرچ کی تھی۔ کام کرنے والی مکھی
(Soldier Bee)مادہ ہوتی ہے۔ قرآن کریم نے ’’فَاسْلُکِیْ ‘‘ اور ’’کُلِیْ‘‘
سے مؤنث کی طرف اشارہ کیا ہے۔ شہد کی مکھیوں کے بارے میں حالیہ معلومات
وتحقیق وتفاصیل تین سو سال سے زیادہ کی نہیں ہیں۔ جبکہ ان باتوں کا تذکرہ
قرآن کریم میں چودہ صدیوں پہلے سے موجود ہے ۔ سب سے عمدہ شہد وہ ہوتا ہے جو
پہاڑوں سے حاصل ہوتا ہے ۔ اس کے بعد درختوں سے اور پھر رہائشی مکانات سے۔
جس کا ذکر بھی مذکورہ آیت میں موجود ہے۔ اسی طرح مذکورہ آیت میں شہد سے
تندرستی حاصل کرنا یا شفا پانے کا تذکرہ ہے۔ شہد کا مفید اور لذیذ ہونا یہ
ظاہر ہے اس لیے اس کا تذکرہ نہیں کیا گیا مگر شفا باطن ہے ،مخفی امر ہے اسی
لیے اس کاذکر ہوا۔ اوّل تو شہد بعض امراض میں خود مفید ، شفااور معالج ہے
اور بعض امراض کے لیے دوسری ادویات کا جز (As a Ingredient)بن کر شفا کا
سبب بنتا ہے۔جزشہد کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ خود بھی نہیں سڑتا اور
دوسری چیزوں کو ایک مدت تک محفوظ رکھتا ہے۔ یہاں پر شہد As a Preservative
استعمال ہوتا ہے ۔اسی لیے فن دوا سازی میں شہد بھی استعمال ہوتا ہے۔ آج
میڈیکل سائنس بھی شہد کی افادیت اور اس کی شفائی خاصیت کا معترف ہے۔ مگر اس
حقیقت کو قرآن عظیم نے چودہ سو سال قبل عیاں کیا ۔
٭لوہا زمین پر آسمانی مہمان:پروفیسر آرم اسٹرانگ (Prof.Armstrong)امریکہ
میں (NASA)ناسا کے بہت مشہور ومعروف سائنٹسٹ ہیں۔ان سے لوہا (Iron)کے متعلق
سوال کیا گیا کہ اس کی تخلیق کیسے ہوئی اور اس کے ذرّات کس طرح وجود میں
آتے ہیں ؟ انہوں نے زمین پر پائی جانے والی مختلف دھاتوں کے عناصر (Elements)اور
ان کی تخلیق کے بارے میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ زمین میں جتنے بھی عناصر
پائے جاتے ہیں ۔ہر عنصر کے ایک ایک ذرّے کی تخلیق کے لیے اس کی قوّت و
کیفیت کے لحاظ سے مختلف معیارکی طاقت (Energy)کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جو اس
زمین میں موجود ہے جس کی مدد سے عنصر کا وجود ہوتا ہے۔ البتہ (Iron)لوہا
ایک ایسا (Elements)عنصرہے جس کے ایک ذرّے کے وجود کے لیے جس قدر طاقت وقوت
کی ضرورت ہوتی ہے وہ قوت اس روئے زمین پر موجود نہیں ۔ سائنس دانوں نے حال
ہی میں اعداد وشمار کے ذریعہ حساب کرکے اندازہ لگا یا کہ لوہے کے ایک ذرّے
کی تخلیق کے لیے پورے مجموعۂ شمسیہEntire solar-system's energy.سے بھی
زیادہ قوت درکار ہے ۔
پروفیسر آرم اسٹرانگ نے مزید کہا ’’ اسی لیے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ
لوہا روئے زمین پر بننے والا عنصر نہیں ہے۔ یہ زمین پر باہر سے وارد ہوا ہے
۔‘‘ جسے فزکس (Physics)کی اصطلاح میں Extra-Terrestrialکہتے ہیں۔ اب آئیے
ہم دیکھیں کہ اس سائنسی نا تردیدی حقیقت کو قرآن نے کیسے اُجاگر کیا۔ اﷲ
تبارک وتعالیٰ نے قرآن مقدس میں سورۂ حدید میں صراحت کے ساتھ ارشاد
فرمایا:اور ہم نے لوہا اتارا،اس میں سخت آنچ اور لوگوں کے فائدے۔( پ:۲۷۔آیت
۲۴،رکوع ۱۹۔کنزالایمان)گویا کہ یہ عنصر زمین میں پیدا نہیں ہوا بلکہ وارد
ہوا ہے۔سائنس اس حقیقت کا آج اعتراف کررہا ہے جب کہ قرآن مقدس ان حقائق
وانکشافات سے پردہ کئی صدیوں پہلے اُٹھا چکا ہے۔لوہا اﷲ کی نعمت ہے جس سے
بے شمار فوائد وابستہ ہیں۔ اس سے آلات حرب وضرب، آبدوز کشتیاں ،میزائل،
راکٹ ،ٹینک اور انگنت اشیا بنائی جاتی ہیں ۔گویا کہ لوہا آلاتِ حرب کا ماخذ
ہے جس کا اشارہ بھی مذکورہ بالاآیت مبارکہ میں موجود ہے ۔رب فرماتا ہے کہ
’’اس میں لوگوں کے فائدے‘‘ مگر یہ انسانی ذہن کی عیاشیوں کی کارستانی ہے کہ
وہ اپنے فائدے مند بلکہ تحفظ فراہم کرنے والی اشیا کا غلط استعمال کررہا ہے
۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ جن باتوں کو آج پروردۂ آغوش سائنس بتارہے ہیں ۔ان
تمام باتوں کو قرآن کریم نے بڑی ہی گہرائی وگیرائی کے ساتھ پہلے ہی آشکارا
کردیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن حکیم کے اسرارورموز غور کیاجائے۔ |
|