(ایک ایسی تھیوری جو آپ کو ہی
نہیں آپ کی زندگی کو بدل دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔۔۔جانیئے اور آزمائیے)
لاء آف اٹریکشن کیا ہے؟
ہم اسکی مدد سے اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ کیسے دے سکتے؟
کیا یہ کوئی نیا قانون ہے ؟
پاکستان کے معروف ٹرینر قاسم علی شاہ اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ پہلی اہم
بات قانون کے حوالے سے یہ ہے کہ یہ موجود ہوتا ہے۔اگر ہم اس کے بارے میں
آگاہی نہیں رکھتے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ جود نہیں رکھتا۔۔مثلا کشش
ثقل کا قانون ہے تو وہ ہے ہمارے جاننے نا جاننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اگر
ہم سمجھ جاتے ہیں تو استعمال میں لا سکتے ہیں۔بالکل اسی طرح لاء آف اتریکشن
موجود قانون ہے اس میں کوئی کمی اور سقم نہیں ہے۔اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
لاء آف اٹریکشن بنیادی طور پریہ ہے کہ ایک جیسی چیزیں اٹریکٹ کرتی ہیں۔عملی
طور پر ہوتا یہ ہے کہ جب ہم کچھ سوچتے ہیں تو وہ احساسات پیدا کرتے ہیں جو
لہروں کی صورت میں فضاء میں تحلیل ہوکر اس جیسے واقعات،حالات،اور مواقع
پیدا کرتے ہیں۔
یہ کام کس طرح کرتا ہے؟
بنیادی طور پر احساسات دو طرح کے ہوتے ہیں۔مثبت اورمنفی
اگر آپ کچھ بھی سوچ رہے ہیں اور اس سوچنے کی وجہ سے آپ کے احساسات منفی
ہورہے ہیں تو وہ دوسروں تک پہنچ رہے ہیں۔لہریں جا رہی ہیں اور اسی طرح کے
حالات اور واقعات پیدا کر رہی ہیں۔ہوتا کیا ہے؟کیونکہ یہ کام آپ یہ کام
لاشعوری طور پر کر رہے ہوتے ہیں۔جب ہم سمجھ جاتے ہیں کہ ہم نے اپنے احساسات
کو کنٹرول میں رکھنا ہیں تو پھر لاء آف اٹریکشن کو مینج کرنا آسان ہو جاتا
ہے۔
ہم اسکی مدد سے اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ کیسے دے سکتے؟
اس میں ایک نقط ہے سمجھنے والا،لوگ کہتے ہیں کہ خیال کو مینج نہیں کیا جا
سکتا وہ بھی جب ایک دن میں ساٹھ ہزار خیال آتے ہوں۔اتنے زیادہ خیالات کو
مینج نہیں کیا جا سکتا یہ بات سچ ہے۔دنیا کا کوئی بندہ دعویٰ نہیں کر سکتا
کہ اتنے زیادہ خیالات کو منیج نہیں کیا جاسکتا۔لیکن یہ ممکن ہے کہ اپ اپنے
احساسات کو مینج کر لیں۔اب ہوتا کیا ہے اگر آپ اچھا محسوس کر رہے ہیں تو
خیالات بھی اچھے ہی آنا شروع ہو جاتے ہیں۔مثال کے طور پر اگر آپ کی صبح کا
اغاز اچھا نہیں ہوتاتو سارا دن بھی خراب گزرتا ہے۔احساسات کو ہمیشہ ہونا
چاہیئے۔۔فیل ہمیشہ دو طرح سے اچھا ہوتا ہے ۔ایک یہ کہ صورت حال کو سمجھ لیا
جائے۔۔زندگی میں جو مسائل والی صورتیں ہیں ان کو سمجھیں۔ان کے بارے میں
آگاہی حاصل کریں۔جب آپ کو سمجھ آجاتی ہے کہ بنیادی طور پر سب ٹھیک ہے یہ
میں غلط سمجھ رہا ہوں۔تو احساسات اچھے ہو جاتے ہیں،دوسرا یہ کہ ان احساسات
کو لکھ کے رکھ لیں جن سے آپ کے موڈ پہ خوشگوار اثر پڑتا ہے۔۔وہ لوگ،وہ
چیزیں،وہ جگہیں اور وہ سر گرمیاں۔۔اور پھر ان کو دہرانا شروع کر دیں۔جب ان
کو دہرائیں گے تو خیال بھی اچھے آئیں گے۔۔اور نتیجتا آپ خوش رہیں گے۔یہ
خوشی لہریں بن کر آپ کو دوگنا رسپونس دیں گیں۔
اور سب سے اہم بات کہ یہ یقین پیدا کریں کہ ایسا ممکن۔۔لائ آف اٹریکشن سے
میرے خیالات اور حالات بدل سکتے۔۔۔یقین پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس
تھیوری کو سجھ جائے ،جانا جائے۔د ی سیکریٹاس موضوع پر ایک مووی ہے ۔۔جو اس
موضوع پر بننے والی پہلی فلم ہے۔جس نے تہلکہ مچا دیا۔۔اس کو ضرور
دیکھیں۔۔اس مووی میں بتا یا گیا ہے کہ لاء اف اٹریکشن دور حاضر کا وہ جن ہے
۔۔جس سے آپ کوئی بھی کام لے سکتے۔۔۔یہ حکم میرے آقا ۔کا سلوگن لیئے ہر وقت
آپ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے کہ آقا بول تجھے کیا چاہئے۔۔یہ کوئی طلسماتی
کہانی نہیں۔۔دور حاضر کی ایجاد ہے۔۔جس کی تائید اس حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی
ہے کہ اپنا گمان اچھا رکھو،اللہ کے بارے میں جیسا گمان رکھو گے وہ تمہارے
ساتھ ویسا ہی معاملہ کرے گا۔
کیا یہ کوئی نیا قانون ہے؟
جی نہیں یہ نیا قانون نہیں ہے۔کہا جاتا ہے افلاطون اور ارسطو جیسے لوگ بھی
اس سے آگاہ تھے اور اس کی مدد سے کام کرتے تھے۔۔دور جدید میں ریکی،ہپناٹزم
اس کی واضح مثالیں ہیں۔۔
(ماخوذ:قاسم علی شاہ لیکچر)
|