تعلیمی میدان میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

جو پایا علم سے پایا بشر نے،فرشتوں نے بھی وہ پایا نا پایا۔۔اَقراء پڑھ اپنے رب کے نام سے۔ غار حّرا میں ختم البنینﷺ پر اُترنے والی پہلی وحی بھی اُسی حوالے سے تھی کے پڑھ۔علم کی اہمیت کے حوالے سے اس سے زیادہ بڑی گواہی کیا ہو گی کے اللہ رب العزت نے بنی آدم پر جو آخری اور حتمی شریعت اُتاری ۔اُس کا آغاز اس لفظ سے کیا کہ اقراء پڑھ اپنے رب کے نام سے گویا تعلیم و لفظ اُن خزانوں کی کنجیاں ہیں جو اللہ رب العزت نے قرآن مجید و فرقان حمید اورزمین پر اُتارے۔جب تک معاشرے میں تعلیم کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کیا جاتا رہا تاریخ شاہد ہے بنی نوح انسان نے عروج و عفت کے سبھی منازل حاصل کیے مگر جب معاشرے میں تعلیم کو پس پشت ڈال دیا گیا تب تاریکیاں اور ذلتیں ہی لوگوں کا مقدر بنی۔معاشرے سے بہت کچھ ناپید ہو گیا اور انصاف سب سے پہلے ختم ہوا اور جب زمین سے انصاف اٹھ جائے تو وہ معاشر ے زیادہ دیر تک اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتے۔تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانان ِ بر صغیر جب تعلیمی میدانوں سے دور ہوئے تو اُن کے حصے میں کیا آیا؟سیرسید احمد خان اور تحریک علی گڑھ کے دئیے ہوئے شعور نے اُن کو آزادی تو دلا دی تاہم اُس کے بعد حالات پھر ویسے ہو گئے۔عالمی سطح پر ترقی پذیر ممالک میں تعلیم کی اہمیت کو واضح کرنے کیے 8 ستمبر کو دنیا بھر میں خواندگی کا عالمی دن منا یا جاتا ہے تاہم پاکستان کے حوالے سے بات کرنے سے پہلے آئیے زرا عالمی سطح پر صورت حال اور بین الاقوامی سطح پر کئے جائے والے اقدامات کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ پاکستان جو اُس نظریہ پر بنا جس کی اساس اقراء ہے وہ کہاں کھڑا ہے؟۔سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ نا خواندہ سے کیا مراد لی جاتی ہے عالمی سطح پر ہر وہ شخص خواہ وہ مرد ہو یا عورت ناخواندہ ہے جو نا لکھ سکتا ہے اور نا پڑھ سکتا۔ جب کہ ہر وہ شخص خواندہ کی فہرست میں آئے گا جو اپنا نام لکھ سکتا ہے اور خط و کتابت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ایک بہتر زندگی اور ایک بہتر مستقبل تعلیم کا ہی مرہون منت ہے تاکہ آپ اپنے روپے کا حساب اچھے انداز میں کر سکیں۔دنیا بھر میں اس وقت نا خواندہ افراد کی تعداد769 ملین ہے جس میں دو تہائی تعداد خواتین پر مشتمل ہے جب کے اگر ہم اس کو پسماندہ یا بحران زدہ علاقوں میں دیکھیں تو وہاں پر صور حال بہت زیادہ ابتر ہو جاتی ہے۔دوسری جانب ایشائی ،افریقہ اور دیگر پسماندہ اور بحران زدہ علاقوں میں آبادی زیادہ ہے اور 10 سے 24سال کی عمر کے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جو کہ نا خواندہ افراد پر مشتمل ہے جبکہ اقوام متحدہ کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات کی بدولت صورت حال میں بہتری تو آئی ہے مگر صورت حال تا حال تسلی بخش قرار نہیں دی جا سکتی ۔تاہم کوششیں جاری ہیں مگر حکومتوں کے رویے اس حوالے سے بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اُن ممالک میں اسی وجہ سے معاشی صورت حال کے ساتھ ساتھ اخلاقی سطح بھی دگرگوں ہے اور جرائم کی شرح بھی دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔عالمی تعلیمی ادارے ہر سطح پر کام کر رہے ہیں مگر کئی مقامات پر حکومتوں کے عدم تعاون کی وجہ اپنے مطلوبہ اہداف حا صل کرنے میں ناکام ہیں۔اب ہم پاکستان کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں اس وقت پاکستان میں تعلیمی شعبے کی صورت حال غیر تسلی بخش ہے اورملک بھر میں مجموعی طور پر تعلیم کی شرح50سے 60 فیصد ہے جبکہ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اب بھی67 سے زائد بچے صرف پرائمری تعلیم ہی حاصل کرنے کے لیے سکول نہیں جاتے یعنی پاکستان میں ہر 10میں سے 3بچے سکول میں داخلہ ہی نہیں لیتے جبکہ سکول نا جانے والے بچوں میں زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں 38 فیصد لڑکیاں سکول نہیں جاتیں اور لڑکوں میں یہ شرح 30 فیصد ہے۔وطن عزیز میں آج تک جتنی بھی حکومتیںآئیں اُن میں سے کسی نے بھی تعلیم کی جانب توجہ نہیں دی تاہم 2012 کی پارلیمنٹ نے اس حوالے سے پہلی مرتبہ قانون سازی کرنے کا فیصلہ کیا اور قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی رکن یاسمین رحمن نے پاکستانی بچوں کے لیے لازمی تعلیم کا قانون پیش کیا جسے بھاری اکثریت سے منظور کر لیا گیا یوں آئین میں کی گئی اٹھاریں ترمیم میں شامل آرٹیکلA 25 کے تحت ہر شہری کے تعلیم کے حق کو جواز مل گیا۔ اس قانون کے تحت والدین کو اپنے بچوں کو لازمی طور پر سکول میں داخل کروانا ہو گا۔اس قانون کے تحت جو والداپنے بچوں کو سکول نہیں بھیجے گا قانونی عدالت اس پر 50ہزار روپے جرمانہ یا 6ماہ کی قید بامشقت کی سزا دے سکے گی۔ اس قانون کے تحت پرائیویٹ سکولوں کو 10 فیصد نشستیں غریبوں کے لیے مختص کرنی ہونگی اور اس قانون کی پابندی نہ کرنے والے سکولز کی رجسٹریشن منسوخ کر دی جائے گی اور انہیں 2 لاکھ جرمانہ بھی ادا کرنا ہو گا۔ جدید ممالک میں تعلیم کو لازمی قرار دینے کا قانون ایک صدی قبل سے نافذ ہے۔

پاکستان تعلیم کے شعبے میں جدید ممالک کے ساتھ ساتھ پڑوسی ممالک سے بھی بہت پیچھے ہے،بھارت،سری لنکا ،مالدیپ حتیٰ کہ بنگلہ دیش آج تعلیم کے شعبے میں ہم سے بہت آگے ہے۔پاکستان کے تعلیمی شعبے میں پسماندگی کی بنیادی وجوہات میں ایک بڑی وجہ ریاست کی اولین ترجیح نہ ہونا ہے جبکہ ملک بھر میں تعلیمی اداروں کی نا صرف کمی ہے بلکہ بیشتر ادارے بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔دیہاتی و نیم شہری علاقوں میں نئے پرائمری سکولوں کی ضرورت شدت سے محسوس کی جاتی ہے اس کے علاوہ موجودہ سکولوں کو کارآمد بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے جس کی طرف کسی بھی حکومت نے تعلیمی بجٹ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔پاکستان میں اگر تعلیمی اداروں کی تعداد کا جائزہ لیں تو
اس وقت پاکستان میں سرکاری و نجی یعنی کل تعلیمی ادروں کی تعداد270,825(دو لاکھ ستر ہزارآٹھ سوپچیس ) کے قریب ہے اور کل اساتذہ کی تعداد پندرہ لاکھ آٹھ ہزار ہے۔ طلبہ کی تعداد تقریباً چار کروڑ ہے جن میں 58فیصد لڑکے اور42فیصد لڑکیاں شامل ہیں۔ تعلیمی اداروں میں 72 فیصد سرکاری اور 28 فیصد نجی تعلیمی ادارے ہیں جبکہ 26ملین طلبہ سرکاری جبکہ 14 ملین نجی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیںاسی طرح اساتذہ کی تعداد کے لحاظ سے موازنہ کیا جائے تو58فیصد اساتذہ سرکاری اور 42 فیصد نجی اداروں میں تعلیمی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ان کل اساتذہ میں 45فیصد مرد اور55فیصدخواتین اساتذہ شامل ہیں۔پاکستان میں سرکاری اور نجی سطح پر ملا کر کل 135 یونیورسٹیاں ہیں جن میں سے 76سرکاری اور59نجی یونیورسٹیاں ہیں۔ ٹیکنیکل یاپیشہ وارانہ تعلیمی اداروں پر نظر ڈالیں تو پاکستان میں اس وقت ٹوٹل تین ہزاردوسوچوبیس3224 تکنیکی تعلیمی ادارے اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں جس میں سے 976یعنی تیس فیصد سرکاری اور2257 یعنی فیصد ادارے نجی ہیں۔جبکہ حسب حال ہر مسئلے پر قانون سازی تو کر دی جاتی ہے مگر قانون پر عمل درآمد کا کلچرنہ ہونے کی وجہ سے بھی اس طرح کے بلوں کی کوئی اہمیت نہیں ۔بد قسمتی سے تعلیم کا شعبہ کسی بھی حکمران کی تر جیح نہیں رہا جس وجہ سے ہمارا نظام تعلیم اور بھی پست ہوتا گیا۔ذوالفقار علی بھٹو نے کئی نجی ادارے قومیانے کی پالیسی اختیار کی جس سے تعلیمی نظام کو شدید نقصان پہنچا جس کے بعد بہت سے ایسے ادارے جو قومیا لئے گئے جو پھر کبھی بھی اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو سکے۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں دیگر شعبہ ہائے زبدگی کی طرح تعلیمی شعبے کو بھی مشرف بہ اسلام کرنے کی کوشش کی گئی جس سے فائدہ ہونے کی بجائے الٹا نقصان ہی ہوا حتیٰ کے سائنسی علوم کی کتابوں میں بھی قرآن آیات کا استعمال کیا گیا خالص دنیاوی علوم کو دین کے اپنی مرضی کے رنگ میں رنگنے کی سعی کی گئی۔ گزشتہ حکومت میں جب آئین میں18ویں ترمیم کی گئی جس کے تحت تعلیم کا شعبہ صوبوں کے حوالے کر دیا گیا اور آرٹیکل 25 A کے تحت ہر شہری کے تعلیم کے حق کو تسلیم کیا گیا۔ یعنی اب تعلیم عام کرنے کی ذمہ داری صوبوں کی ہو گی۔سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ 67 برسوں کے دوران امراء اور متوسط طبقے میں تو تعلیم کی شرح خواندگی میں اضافہ ہی رہا تاہم غریب طبقے میں تعلیم کی شرح انتہائی کم رہی۔ ملینیم ڈیولپمنٹ گولز کے دوسر گول کے مطابق2015تک ینورسل پرائمری ایجوکیشن کی رسائی کو ہر بچے تک ممکن بنانا تھا تاہم بدقسمتی سے ہم اس اہداف کو پورا کرنے میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔پاکستان میں شرح تعلیم 100 فیصد نہ ہونے کی بنیادی وجہ سکولز کی کمی اور محکمہ تعلیم کے آفسران کی نا اہلی ہے ملک بھر میں مجموعی طور پر تعلیم کی شرح 60فیصد جبکہ صرف پنجاب میں 58 فیصد ہے ۔ دوسری جانب ملینیم ڈوپلیمنٹ پروگرام کے تحت 2016 تک شرح تعلیم کا ہدف100 فیصد نہ ہونے پر بیرونی امداد بند کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔پاکستان کے چار صوبوں میں سے تین صوبے گزشتہ کئی برسوں سے انتشار کی کیفیت میں ہیں اسی وجہ سے وہاں تعلیمی سرگرمیاں اکثر و بیشتر معطل رہتی ہیں جبکہ پنجاب میں صورت حال اس کے بر عکس ہے جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ رواں سال 31 اکتوبر تک 2لاکھ9ہزار بچوں کو سکولز میں داخل کرنے کا ٹارگٹ حا صل کر لیا جائے گا۔ملک بھر میں شرح خواندگی میں اضافے کے لیے محکمہ تعلیم کے ساتھ ساتھ سپیشل ایجوکشن ڈپیارٹمنٹ،ہائر ایجو کشن اور دیگر تعلیمی اداروں کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہو گی۔پاکستان کو اگر مضبوط سے مضبوط تر بنانا ہے تو صرف کھوکھلے نعروں سے کام نہیں چلے گا اس کے لیے حکومتی سطح کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر بھی ہر شہری کو اپنا کرداد جانفشانی سے ادا کرنا ہو گا کہ تاکہ دین کے راستے پر چلنے میں آسانی رہے اور کوئی بھی ہمارے ایمان سے کھیلنے کی کوشش نہ کرے ۔اقوام متحدہ کی جانب سے UNESCO نے 1966 سے عالمی سطح پر 8 ستمبر سے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے عالمی یوم خواندگی کو منانے کا آغاز کیا اور اپنے اہداف کا توتعین کیا جس پر پوری دنیا میں انفرادی،اجتماعی اور معاشرتی سطح پر تعلیم کے حصول کو آسان بنانا ہے۔آئیے مل کر اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرتے ہوئے تعلیم کا عام کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہم بھی باعمل شہری ہونے کا کردار ادا کر سکیں۔بطور مسلمان بھی ہم ہر تعلیم بلا تقسیم ِ جنس و رنگ حاصل کرنا فرض ہے مگر بد قسمتی سے ہم نے ہر کام کی ذمہ داری حکومتوں پر ڈال دی ہے اسی لیے آج ہم ہر حوالے سے پیچھے ہیں۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین
maleeha syed
About the Author: maleeha syed Read More Articles by maleeha syed: 3 Articles with 3060 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.