بابری مسجد کی شہادت.... 22سال بعد بھی ملزمان آزاد!
(عابد محمود عزام, karachi)
بھارت میں سیکڑوں برس
پرانی تاریخی بابری مسجد کی شہادت کو آج 22 سال مکمل ہوچکے ہیں، لیکن اس
تاریخی ورثے اور مسلمانوں کی عظیم عبادت گاہ کو شہید کرنے والوں کے خلاف
بھارت کی نام نہاد سیکولر حکومت کوئی کارروائی نہیں کر سکی۔ 6 دسمبر
1992ءکی تاریخ بھارت کی متعصب اور نام نہاد سیکولر حکومت کے چہرے پر ایک
بدنما داغ ہے، جو کبھی بھی صاف نہیں ہوسکتا۔ بابری مسجد کو 6 دسمبر 1992ءکو
ہزاروں انتہا پسند ہندو جنونیوں نے شہید کر دیا تھا۔ بابری مسجد اتر پردیش
(بھارت) کے ضلع فیض آباد کے ایک شہر ایودھیا میں واقع تھی۔ یہ ایک پہاڑی پر
تعمیر کی گئی تھی، جسے رام کوٹ کہا جاتا ہے۔ بابری مسجد 1527ءمیں مشہور مغل
شہنشاہ ظہیر الدین بابر کے حکم سے اس کے جرنیل اور گورنر میر باقی نے
بنوائی۔ یہ مسجد اتر پردیش کی عظیم ترین مساجد میں سے ایک تھی۔ یہ مسجد
مسلم فن تعمیر کا شاہکار تھی اور اس کی بنیاد تغلق طرز ِ تعمیرپر رکھی گئی
تھی۔ بابری مسجد کے تین بڑے گنبد تھے۔ ایک مرکزی اور دو اس کے دائیں بائیں۔
اس کے ارد گرد دو بلند و بالا دیواریں تھیں، جو ایک دوسرے کے متوازی تھیں
اور ان کے درمیان ایک وسیع صحن تھا۔ اس صحن میں ایک کنواں تھا، جس کا پانی
نہایت شیریں اور ٹھنڈا تھا۔ یہ ایک کراماتی کنواں تھا۔ ہندوﺅں اور مسلمانوں
کا اعتقاد تھا کہ اس کنویں کا پانی پینے سے کئی بیماریاں دور ہو جاتی ہیں۔
بابری مسجد کا صوتی نظام غضب کا تھا۔ اگر محراب کے پاس سرگوشی بھی کی جاتی
تو وہ پورے مرکزی صحن اور اس کے آخری سرے پر بھی واضح سنائی دیتی تھی، جو
200 فٹ (60 میٹر ) دور تھا۔ تین بڑے گنبد، محرابیں اور جالی دار کھڑکیاں
جہاں اس کے حسن میں اضافہ کرتی تھیں، وہاں ایک اعلیٰ درجے کا کولنگ سسٹم
بھی تشکیل دیتی تھیں۔ نمازیوں کو تازہ قدرتی ہوا کا انمول تحفہ ملتا رہتا
تھا۔ افسوس کہ ہمارے اسلاف کی یہ روشن نشانی 22سال پہلے متعصب ہندوﺅں نے
شہید کر ڈالی اور اب اس جگہ ایک رام مندر کی بنیاد رکھ دی۔ انتہا پسند ہندوﺅں
کا دعویٰ تھا کہ پہلے بابری مسجد کی جگہ رام مندر ہوتا تھا، جسے گرا کر یہ
مسجد بنائی گئی۔ یہ سراسر جھوٹ تھا، بلکہ یہ مسجد پر قبضہ کرنے کے لیے راہ
ہموار کرنے کی ایک سازش تھی۔ اس جگہ پر تنازعات کا آغازنواب واجد علی شاہ
کے دور 1853ءمیں ہوا۔ جب ایک ہندو فرقے نے یہ دعویٰ کیا کہ” اس جگہ پر پہلے
ایک مندر تھا، جسے گرا کر بابری مسجد بنائی گئی۔ 1855ءتک ہندو اور مسلمان
اکٹھے ایک ہی بلڈنگ میں عبادت کرتے تھے، لیکن 1857ءکی جنگ آزادی کے بعد
ہندوﺅں کے لیے مسجد سے باہر ایک چبوترہ بنا دیا گیا، جہاں وہ پوجا پاٹ کرتے
تھے۔ 1883ءمیں اس چبوترے پر ایک مندر بنانے کی کوشش کی گئی، لیکن ڈپٹی
کمشنر نے سختی سے روک دیا۔ 1934ءکے ہنگاموں کے دوران مسجد کی دیواروں اور
ایک گنبد کو نقصان پہنچا، لیکن برطانوی حکومت نے انہیں دوبارہ تعمیر کر دیا۔“
حقیقت یہ ہے کہ 1528ءسے لے کر 1850ءکے بعد تک بھی یہ بات کسی نے نہیں کہی
تھی کہ بابری مسجد کسی مندر (خاص طور پر رام چندر جی کے مقام پیدائش ) رام
جنم بھومی کی جگہ بنے مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔ دراصل بابری مسجد رام
جنم بھومی مسئلہ انگریزوں نے پیدا کیا تھا۔ ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے ہنس
بیکر نے ”جنم بھومی مندر“ کی تعمیر کی بات لکھی تھی۔ انگریزوں نے اپنی سروے
رپورٹس، انتظامیہ کے شائع کردہ گزیٹرس وغیرہ میں بابری مسجد کے بارے میں
لکھنا شروع کیا کہ یہاں پہلے مندر تھا، چنانچہ اس سلسلے میں مانگمری مارٹن
اور پی کارینگی کی رپورٹس نے قیاسات کی بنیاد پر مندرکی جگہ مسجد کے مفروضے
پیش کیے۔
بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ اچانک پیش نہیں آیا، بلکہ بھارتی ریاست اتر
پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایل کے ایڈوانی کی قیادت میں انتہا پسند
تنظیموں وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور شیو سینا کے ساتھ مل کر رام مندر کی
تعمیر کے لیے تحریک چلائی اور کانگریسی وزیراعظم نرسمہا راﺅ کی حکومت میں 6
دسمبر 1992ءکو ہزاروں ہندوﺅں پر مشتمل مشتعل ریلی نے نیم فوجی دستوں کی
موجودگی میں اس تاریخی مسجد کو شہید کر دیا۔ حالانکہ ریلی کی انتظامیہ نے
انڈین سپریم کورٹ سے معاہدہ کیا تھا کہ وہ بابری مسجد کو کوئی نقصان نہیں
پہنچائیں گے۔ 6 دسمبر 1992ءکو ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور دیگر
ہندو لیڈر متنازعہ جگہ پہنچے۔ انتہا پسند ہندو مسجد کے گنبد پر چڑھے اسے
گرا رہے تھے۔ ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی نے میڈیا کو دکھانے کے لیے کمزور
آواز میں احتجاج کیا، لیکن منصوبہ تو پہلے سے تیار تھا۔ اس لیے بدمست
ہندوﺅں نے تھوڑی ہی دیر میں عظیم بابری مسجد کو شہید کر ڈالا۔ بابری مسجد
کی شہید کرنے کے منصوبے میں تمام انتہا پسند ہندوشریک تھے۔ سیکولرازم کا دم
بھرنے والی تمام جماعتیں ہی بابری مسجد کی شہادت کے جرم میں برابر کی شریک
ہیں۔ چند ماہ قبل بھارتی ویب سائٹ نے انکشاف کیا تھا کہ وی پی نرسیما راﺅ
اور ایڈوانی کو اس منصوبے کا پہلے سے علم تھا۔ 6 دسمبر 1992ءکو بابری مسجد
شہید کرنے کا سانحہ اچانک رونما نہیں ہوا، بلکہ انتہا پسند ہندو تنظیم
بجرنگ دل نے 1992 جون میں ہی اپنے 38 کارکنوں کو ریٹائرڈ فوجیوں سے تربیت
دلوا کر ان کی ذہن سازی کی اور انہیں بابری مسجد شہید کرنے پر اکسایا، تب
کے بھارتی وزیراعظم وی پی نر سیما راﺅ اور ایل کے ایڈوانی کو اس ساری سازش
کا پہلے سے علم تھا۔ ایک منصوبہ ناکام ہونے کی صورت میں مسجد شہید کرنے کے
دو منصوبے اور بھی ترتیب دے رکھے تھے۔ آر ایس ایس کے 1200 کارکنوں کو ملک
کے مختلف حصوں سے بلایا گیا تھا۔ 1949ءمیں مسجد کے اندر سے ”رام“ کی مورتی
کو بعض شرپسندوں نے دریافت کر کے تنازع کھڑا کیا تھا، اس سارے کھیل کا مقصد
بھی بابری مسجد شہید کر کے مسلمانوں کو دلی تکلیف پہنچانا تھا۔
بابری مسجد کی شہادت کے المناک واقعے سے پورے عالمِ اسلام میں غم و غصے کی
شدید لہر دوڑ گئی اور انڈیا میں بدترین ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے۔
گودھرا، گجرات ٹرین حملوں سمیت ان فسادات میں کم و بیش تین ہزار سے زاید
مسلمانوں کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ 22 سال گزرنے کے باوجود
اس اندوہناک واقعے میں ملوث ملزمان آج بھی آزاد اور مسلمان انصاف کے منتظر
ہیں۔ 6 دسمبر1992ءکو بابری مسجد کو مسمار کرنے کے سلسلے میں 49 افراد کے
خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے، جوگزشتہ 22 برسوں سے قانونی داؤ پیچ اور
عدالتوں کی پیچیدگیوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ
بھارت کی متعصب حکومت خود ہی اس واقعہ کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہیں
کرنا چاہتی۔ بابری مسجد کی شہادت کے سترہ سال بعد آنے والی لیبر ہان عدالتی
کمیشن کی رپورٹ میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی، بھارتیہ جنتا پارٹی
کے دیگر سینئر رہنماﺅں ایل کے ایڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کو واقعہ کا ذمہ
دار قرار دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے ایودھیا میں موجود بابری مسجد
کو شہید کر کے جو فعل کیا، وہ بھارت کی نام نہاد سیکولر حکومت کے منہ پر
ایک طمانچہ ہے۔ بھارت انتہا پسندی کی انتہا پر پہنچا ہوا ہے، جہاں آج بھی
مسلمانوں کے لیے جینا مشکل ترین ہے، بھارتی حکومت بھارت میں مسلمانوں پر
ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتی ہے اور ان کو اس جدید ترین دور میں بھی ہر قسم کی
سہولیات سے محروم رکھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ دشمنی اور تعصب بھارتی
حکومت کی نس نس میں بھرا ہوا ہے، یہ اس تعصب کا ہی نتیجہ ہے، جو بھارت آئے
روز پاکستان کی سرحدوں پر گولہ باری کر کے اپنی مسلم دشمنی کا اظہار کرتا
ہے۔ بھارت کے اس قسم کے اقدامات سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ بھارت
ایک انتہا پسند، متعصب اور مسلم دشمن ملک ہے۔ بھارتی حکومت کے لیے لازم ہے
کہ عالمی قوانین کے مطابق بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو تحفظ فراہم کر
کے ان کی مذہبی عبادت گاہوں کا تحفظ کرے اور مسلمانوں کو اپنے مذہب کے
مطابق زندگی گزارنے کا حق دیا جائے اور اس کے ساتھ بابری مسجد کے مجرموں کو
کیفرکردار تک پہنچانا بھارتی حکومت کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ |
|