حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اور ایک مسلمان قیدی
(muhammad rashid, rawalpindi)
حضرت عمربن عبدالعزیز رح نے شاہ
روم کے پاس ایک قاصد بھیجا
یہ قاصد ایک دن بادشاہ کے پاس سے اٹھا اور گھومتے پھرتے ایک ایسی جگہ پنہچا
جہاں ایک شخص کے قرآن پڑھنے اور چکی پیسنے کی آواز آرھی تھی یہ اس کے پاس
گیا تو دیکھا کہ وہ شخص نابینا تھا،
اس نے اسے سلام کیا مگر اس شخص نے جواب نھیں دیا اس نے دو تین مرتبہ سلام
کیا بالآخر اس شخص نے کہا کہ اس شہر میں سلام کیسا؟
قاصد نے بتایا کہ وہ بادشا روم کے نام امیرالمؤمنین کا ایک پیغام لے کر آیا
ھے اور اس سے دریافت کیا کہ وہ شاہ روم کے ھاں کیسے آیاھے؟ اس نے بتایا کہ
مجھے فلاں جگہ سے قید کیا گیا تھا_
مجھے شاہ روم کے سامنے پیش کیا گیا،
بادشاہ نے مجھے دعوت دی کہ میں نصرانی بن جاؤں مگر میں نے انکار کیا،
بادشاہ نے مجھے دھمکی دی کہ اگر ایسا نھیں کروگے تو آنکھیں نکال دونگا مگر
میں نے آنکھوں کے بجاۓ دین اسلام کو ترجیح دی چنانچہ گرم سلاخوں سے میری
آنکھیں ضائع کری گئیں اور مجھے یھاں پہنچادیاگیا، یومیہ اتنی اتنی گدم
پیسنے کو ملتی ھے اور ایک روٹی کھانے کو_
قاصد نے واپس آکر حضرت عمربن عبدالعزیز رح کو اس شخص کا واقعہ سنایا، قاصد
بیان کررھا تھا اور عمر بن عبدالعزیز رح کی آنکھوں سے آنسوؤں کے چشمے پھوٹ
رھے تھے_
اس کے بعد مسلمانوں کے امیر عمر بن عبدالعزیز رح نے شاہ روم کے نام ایک خط
لکھا:
(امیرالمؤمنین کا خط آج کے بے غیرت مسلمان حکمرانوں کیلۓ چیلنج ھے)
امابعد:" مجھے فلاں صاحب کی خبر پہنچی ھے کہ وہ تمھارے پاس قید ھے اور تم
نے اس کی آنکھیں نکال کر اس پر ظلم کیا ھے_ میں اللہ کی قسم کھاتا ھوں کہ
میرا خط پہنچنےکے بعد اگر تونے اس مسلمان کو رھا کرکے میرے پاس نہ بھیجا تو
تیرے مقابلہ میں ایسا لشکر بھیجوں گا (جو اتنا طویل اور عظیم الشان لشکر
ھوگا کہ) جس کا پہلا دستہ تیرے پاس ھوگا اور پچھلا دستہ میرے پاس_"
قاصد پیغام لے کر شاہ روم کے یھاں گیا اور امیرالمؤمنین کا غیرتمندانہ خط
سنایا تو شاہ روم نے خط پڑھنے کے بعد کہا کہ ھم نیک آدمی کو لشکر کی زحمت
نھیں دیں گے بلکہ قیدی واپس کردیں گے
اور شاہ روم نے قیدی کو قاصد کے ساتھ روانہ کردیا_
یہ تھی مسلمان اور غیرتمند جراتمند مسلمان حکمرانوں کی تاریخ_
آج کے اسلامی جمھوریہ ایٹمی پاکستان کے بے غیرت ذلیل اور بذدل قسم کے
حکمران جو خود کو بھادر کہتے ھوۓ بڑے خوش ھوتے ھیں لیکن انھی کے دور اقتدار
میں کافر کبھی ایمل کانسی کو (دور اقتدار نواز شریف) توکبھی عافیہ صدیقی کو
تو کبھی طالبان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو (دور اقتدار پرویز ملعون)
اغوا کرکے لے جاتے ھیں اور کبھی دن دھاڑے مسلمانوں کو قتل کرنے والے
پاکستان کے مجرم ریمنڈ ڈیوس کو (دور اقتدارآصف زرداری) حکمرانوں کے سامنے
سے چھڑاکر لے جاتے ھیں اور ھمارے حکمران کہتے ھیں ھمیں پتہ ھی نھیں چلا کہ
ان کو کیسے اور کس نے اغوا کیا.......!
تف ھے!
صد افسوس ھے!
ایسے حکمرانوں پر...! |
|