عمران خان
(Shahzad Hussain Bhatti, )
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان
نے مئی 2013 ء کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف احتجاجی
جلسوں کے پلان اے اور پلان بی موثر نہ ہونے کے بعد اپنے مطالبات منوانے کے
لیئے تیس نومبر کے جلسے میں " پلان سی " کا اعلان کیا ہے تاکہ حکومت پر
دباؤ بڑھایا جا سکے جسکے تحت پہلے چار دسمبر کو لاہور ،آٹھ کو فیصل آباد ،بارہ
کو کراچی اور سولہ دسمبر کو پورا ملک بند کرنے کی دھمکی دی گئی اگلے دن پی
ٹی آئی کے نائب صدر شاہ محمود قریشی نے پلان کی تاریخوں میں ردوبدل کا
اعلان کیا جسکے مطابق لاہو ر چار کی بجائے پندرہ اور سولہ کے بجائے اٹھارہ
دسمبر کوپورا ملک بند کیا جائے گا ۔لاہور کے پروگرام کی تبدیلی کی وجوہات
پی ٹی آئی پنجاب کے رہنماؤ ں کے تخفظات تھے کہ وہ اتنے کم وقت میں انتظامات
اور ورکروں کو موبلائز نہیں کر پائیں گے جبکہ سولہ دسمبر کو سقوط ڈھاکہ کے
تناظر میں تبدیل کیا گیا ۔
عمران خان بھٹو اور الطاف حسین کے بعد وہ خوش نصیب سیاسی رہنما ہیں جنکی
ایک کال پر لاکھوں لوگوں کا سمندر امڈ آتا ہے سیاسی ناپختگی اور جلدبازی
اور بڑکیں حاضرین کو متاثر نہیں کر پاتیں یہی وجہ ہے کہ لاکھوں لوگوں کا
جمع غفیر اکٹھا ہونے کے باوجود عمران خان حکومت پر دباؤ ڈالنے میں ناکام
رہے ہیں۔عمران خان " پل میں ماشہ پل میں تولہ " کے مصداق جلسے میں کچھ اور
پریس کانفرنس میں کچھ کہتے دیکھائی دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے
ورکر یہ فیصلہ کرنے میں قاصر رہتے ہیں کہ انکے لیئے حکم کیا ہے یہ باز گشت
بھی زبان عام ہے کہ عمران خان اپنے پارٹی عہدیداروں سے سے مشاورت نہیں کرتے
اور جو منہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں اور بعد ازاں حالات کا ادراک ہونے پر
اپنے فیصلے واپس لے لیتے ہیں۔
ناقدین کہتے ہیں کہ تیس نومبر کو جتنی عوام عمران خان کی کال پر اکٹھی ہو
ئی تھی یہی عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کے لیئے پنڈال سجاتی تو
تبدیلی کو 110 دن نہ دیکھنے پڑتے بلکہ دھرنے کی نوبت ہی نہ آتی ۔شیخ رشید
احمد نہ صرف شعلہ بیاں مقررہیں بلکہ اپنی جذباتیت کی لہر میں حاضرین کے دل
مو لیتے ہیں اور اپنی آواز کے جادو سے لوگوں پر سحر طاری کر دیتے ہیں وہ اس
ملک کے واحد سیاست دان ہیں جو گرجنا بھی جانتے ہیں اور زخمی شیر کی طرح
اپنے سیاسی حریفوں پر جھپٹنا بھی ۔یہی وجہ ہے کہ قومی اسمبلی میں ایک سیٹ
ہونے کے باوجود وہ مسلم لیگ (ن)اور دیگر سیاسی جماعتوں کے لیئے دردسر بنے
رہتے ہیں ۔بقول شاعر مشرق
" ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیئے
نیل کے ساحل سے تاب خاک کا شغر "
پاکستانی قوم باشعور بھی ہے اورملکی بد حالی کی ذمہ دار سیاست دانوں کی لوٹ
کھسوٹ کا ادراک رکھنے والی بھی،یہ سڑکوں پر بھی آتی ہے اور ملک کے لیئے
قربانیاں بھی دیتی ہے مگر گذشتہ 67 سالوں سے اس جمہور کو جمہوریت کے نام کی
ڈگڈگی پر نچایا جا رہا ہے کبھی دھرنوں کے نام پر ،اور کبھی جلسوں کے نام پر
کبھی ایک پارٹی کے لیئے نعرے لگاتے ہیں اور کبھی دوسری کے لیئے ۔سیاسی وعدے
ہیں کہ جو پورے ہونے کا نام تک نہیں لیتے ۔روٹی کپڑا اور مکان 67 سالوں میں
نہ فراہم کیا جا سکا شاید یہی جمہوریت کا حسن ہے جسے بچانے کے لیئے ہمارے
سیاست دانوں نے دن رات ایک کررکھا ہے
روٹی امیرشہر کے کتوں نے چھین لی فاقہ ٖغریب شہر کے بچوں میں بٹ گئی
موجودہ حکومت جس کے بارے میں لگ بھگ سب ہی سیاسی جماعتوں کی رائے ہے کہ یہ
ایک دھاندلی سے قابض حکومت ہے مگر اس کے خاتمے کے لیئے کئی سیا سی جماعتیں
میدان میں اتر رہی ہیں مگر ان کی جدوجہد جداگانہ ہے کیونکہ کوئی بھی سیاسی
جماعت متحد ہوکر کریڈٹ دوسری جماعت کو نہیں دینا چاہتی یہی وجہ ہے کہ تمام
سیاسی جماعتیں عملی طور پراس جدوجہد میں ناکامی سے ہمکنار ہیں سیاست ہلکی
آنچ پر پکنے والی کھیر ہے اسے پکنے میں ٹائم لگے گا جلدی سے منہ جلنے کا
اندیشہ ہے بقول شیخ سعدی
" اگر چڑیوں میں اتحاد ہو جائے تو وہ شیر کی کھال اتار سکتی ہیں"
عمران خان کے ملک بند کرنے کے اعلان سے ملک میں امن و امان کی صورت حال
تشویشناک ہو سکتی ہے کیونکہ کسی بھی شہر کو بند کرنے کے لیئے دو سو کارکنوں
کی ضرورت ہوتی ہے اور عمران خان کے پاس یہ سڑیٹ پاور موجود ہے جو سڑکوں پر
بھی نکلے گی اور اگر ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو اس تصادم میں قیمتی
جانوں کا ضائع بھی ہو سکتاہے اگرچہ حکومت نے پی ٹی آئی سے مذکرات کے لیئے
اسحاق ڈار کو ٹاسک دے دیا ہے لیکن جھکاؤ دونوں طر ف بھی دیکھائی نہیں دیتا
۔سیاست میں جھکنا اور حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا ضروری ہوتا ہے
کیونکہ کہتے ہیں کہ جو شاخ جھکنا نہیں جانتی وہ ٹوٹ جاتی ہے گردنوں میں
سریے اور خوش فہمی معاملات کو سدھارنے کی بجائے الجھا دیتی ہے ہماری سیاسی
قوتوں کو اپنے رویوں میں لچک دکھانی ہو گی کیونکہ یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں
اگرچہ ملک نہیں تو کچھ بھی نہیں ہمارے ملک کے حقیقی مسائل کو حل کر نا تمام
سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے آپس کی لڑائیاں پہلے ہی ملک کو دو ٹکڑوں میں
بانٹ چکی ہیں ہمیں ہر سال سولہ دسمبر کے سانحے کو یاد کرنا ہوگا ۔کہ کیا
عوامل درپیش تھے جو ہمیں دو حصوں میں تقسیم کر گئے اور بد قسمتی سے ہم نے
آج بھی سقوط ڈھاکہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔الٹا آج بھی وہی سیاسی نا پختگی
۔یا تو ہم اپنے مسائل کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے یا پھر ہمیں عادت ہے دوسروں
کے کاموں میں ٹانگ اڑانے کی۔
عوام دیانت دار ،فرض شناس اور حقیقی قیادت کی راہ تک رہے ہیں اور جس دن اس
ملک کو حقیقی قیادت میسر آگئی اس دن اس ملک کی تقدیر سنور جائے گی ۔ |
|